انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اصول تفسیر قرآن اور مجاز بعض اوقات ایک لفظ کے حقیقیمعنیمراد نہیں ہوتے ؛بلکہ مجازی معنی مراد ہوتے ہیں مثال کے طور پر شیر کے حقیقی معنی تو ایک مخصوص درندے کے ہیں لیکن بسا اوقات یہ لفظ بہادر انسان کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ،قرآن کریم میں بھی بہت سے الفاظ اپنے حقیقی اور لغوی معنی میں استعمال نہیں ہوئے بلکہ ان سے مجازی معنی مراد لیے گئے ہیں ،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر شخص کو یہ اختیار ہے کہ وہ قرآن کے جس لفظ کو چاہے حقیقی معنی پر اور جس کو چاہے مجازی معنی پر محمول کرسکتا ہے بلکہ علمائے امت نے اس کا ایسا ضابطہ بنایا ہے جو سو فیصد معقول ہے اور جس پر تمام علماء متفق ہیں یہاں اس ضابطہ کو سمجھ لینا ضروری ہے ،وہ ضابطہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں اصل یہ ہے کہ ان سے حقیقی معنی مراد ہوں گے اور مجازی معنی صرف اس وقت مراد ہوں گے جب حقیقی معنی کسی مجبوری کی وجہ سے مراد نہ ہوسکتے ہوں اور جہاں کوئی مجبوری نہ ہو وہاںمجازی معنی مراد لینا کسی طرح درست نہیں ہوگا ،مجبوری کی صورتیں مندرجہ ذیل ہیں: (۱)حقیقی معنی عقلی طور پر یا قطعی مشاہدے کی رو سے ممکن نہ ہوں۔ (۲) عرف اور محاورے کے اعتبار سے اس لفظ یا جملے کے حقیقی معنی متروک ہوگئے ہوں ،مثلاً کفار کے بارے میں ارشاد ہے فَقَلِیْلًامَّایُؤْمِنُوْنَ(البقرۃ:۸۸) "یہ لوگ تھوڑا ہی ایمان لاتے ہیں"لفظ قلیل کے حقیقی معنی "تھوڑے" یا کم کے ہیں لیکن ایسے مقامات پر عرف اور محاورے میں یہ معنی مراد نہیں ہوتے کہ وہ ایمان تو لاتے ہیں مگر تھوڑا بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ بالکل ایمان نہیں لاتے ،اور اس طرح قلیلاًکا لفظ مجازاً نفی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے،اردو میں" تھوڑا ہی" اور انگریزی میں"few"کا بھی یہی حال ہے۔ (۳)مجازی معنی مراد لینے کے لیے تیسری مجبوری یہ ہوتی ہے کہ عبارت کے سیاق وسباق میں کوئی قرینہ ایساہوتا ہے جو حقیقی معنی کو ناممکن بنادیتا ہے ،مثلاً قرآن کریم کا ارشاد ہے :فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ(الکہف:۲۹)" پس جو شخص چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے " (معاذاللہ)یہ اللہ تعالی کی طرف سے ایمان اور کفر کی مساوی اجازت ہے؛ لیکن آگے ارشاد ہے : اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا(الکہف:۲۹)’بلا شبہ ہم نے ظالموں(کافروں) کے لیے آگ تیار کررکھی ہے"ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ آیت کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ایمان اور کفر مساوی طور سے جائز ہے؛ بلکہ مقصد یہ ہے کہ دونوں کا انجام واضح ہوجانے کے بعد انسان کو اختیار ہے کہ کفر کی راہ پر باقی رہے یا ایمان لے آئے پہلی صورت میں اسے عذاب جہنم سے واسطہ پڑے گا اور دوسری صورت میں وہ رضائے الہی سے ہمکنار ہوگا ۔