انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امام علی رضا بن موسیٰ کاظم کی وفات خلیفہ مامون الرشید اپنی بیٹی اُم حبیب کا عقد علی رضا سے پہلے کرچکا تھا اس سفر میں اس نے اپنی دوسری بیٹی اُم فضل کا جوبہت ہی کم سن تھی، عقد علی رضا کے بیٹے محمد بن علی رضا سے کردیا؛ مگررخصتی آئندہ زمانہ پرجب کہ لڑکی بالغ ہوجائے ملتوی رکھی گئی؛ چنانچہ یہ رخصتی سنہ۲۱۵ھ میں ہوئی، مامون الرشید ماہِ رجب سنہ۲۰۲ھ میں مرو سے روانہ ہوا اور ۱۵/صفر سنہ۲۰۴ھ کوبغداد پہنچا، یہ سفر مامون نے تقریباً ڈیڑھ برس میں طے کیا اور راستے میں ہرایک مقام پرہفتوں اور مہینوں ٹھہرتا ہوا بغداد کی طرف آیا، اس سفر میں ملک کے حالات سے اس کوخوب واقفیت حاصل ہوتی رہی اور بغداد میں اس کے پہنچنے سے پہلے ہی حالات اس کے موافق ہوگئے؛ اسی سفر میں مامون الرشید نے بماہِ ذیقعدہ علی رضا کے بھائی ابراہیم بن موسیٰ کاظم کوامیرالحج مقرر کرکے بھیجا اور صوبہ یمن کی سند گورنری بھی ان کوعطا کردی، طوس میں پہنچ کرقیام کیا اور اپنے باپ ہارون الرشید کی قبر پرفاتحہ پڑھی، طوس میں ایک مہینے سے زیادہ قیام رہا؛ یہیں ایسا اتفاق پیشا آیا کہ ولی عہد خلافت امام علی رضا نے انگور کھانے کی وجہ سے انتقال کیا، مامون کواُن کی وفات کا سخت صدمہ ہوا، جنازۃ کے ساتھ ننگے سرگیا اور رُورُوکر کہنے لگا کہ اے ابوالحسن! تیرے بعد اب میں کہاں جاؤں اور کیا کروں، تین دن تک قبرپرمجاور رہا ایک روٹی اور نمک اس کی غذا تھی، اپنے باپ ہارون الرشید کی قبر اُس نے اُکھڑواکر اُسی قبر میں علی رضا کوبھی اپنے باپ کے پاس دفن کیا، علی رضا کی برکت سے ہارون الرشید کوبھی فائدہ پہنچے، علی رضا کے ساتھ مامون الرشید کوبڑی عقیدت تھی، لوگوں کا یہ کہنا کہ مامون الرشید نے خود علی رضا کوانگوروں میں زہر دلوایا، سراسر غلط اور نادرست معلوم ہوتا ہے، اس لیے کہ علی رضا کی ولی عہدی کے لیے مامون الرشید کومجبور نہیں کیا گیا تھا اس نے اپنی خوشی سے ان کوولی عہد بنایا؛ اپنی خوشی سے اپنی دوبیٹیوں کی شادی علی رضا اور علی رضا کے بیٹے محمد کے ساتھ کی، بلاکسی دوسرے کی تحریک کے علی رضا کے بھائی کویمن کی گورنری دی اور امیرالحج مقرر کیا، جس شخص کووہ زہر دے کرمرواڈالنا چاہتا تھا اس کے ساتھ یہ احسانات نہیں کرسکتا تھا؛ پھرسب سے بڑھ کریہ کہ جس شخص کواس نے خود زہر دے کرمرواڈالا تھا اس کواپنے باپ کی قبر میں دفن نہیں کرسکتا تھا، ہارون الرشید کی قبر میں ان کودفن کرنا مامون کی سچی عقیدت کا ایک زبردست ثبوت ہے، جس میں کسی منافقت اور بناوٹ کودخل نہیں ہوسکتا، ان کی وفات پرمامون کا اظہار ملال بھی اس بات کا ایک ثبوت ہے، اس بات کوبھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ مامون الرشید نے آئندہ اپنی حکومت وخلافت میں علویوں کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کیا اور اُن کوبڑے بڑے عہدوں پرمامور کرتا رہا، جودلیل اس بات کی ہے کہ مامون الرشید کوعلویوں سے کوئی نفرت نہ تھی اور علویوں کوبہتر حالت میں لانا اور ان پراحسان کرنا چاہتا تھا؛ اگراس نے علی رضا کوزہر دلوایا ہوتا تووہ آئندہ علویوں کے ساتھ اس طرزِ عمل کوجاری نہیں رکھ سکتا تھا، ہاں یہ ممکن ہے کہ بنوعباس یااُن کے ہواخواہوں میں سے کسی نے امام علی رضا کوانگوروں میں زہردیا ہو؛ کیونکہ بنوعباس علی رضا کی ولی عہدی کے معاملہ میں مامون الرشید سے ناراض تھے، امام علی رضانے بعمر۵۵/سال ماہِ صفر سنہ۲۰۳ھ میں وفات پائی، سنہ۱۴۸ھ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے تھے۔