انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بیماروں کی شفاء حضرت عبداللہ بن عتیک کا زخم صحیح بخاری میں براء بن عازب سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک جماعت کوابو رافع پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا عبداللہ بن عتیک رات کے وقت سوتے میں ابو رافع کے گھر گئے اور اپنی تلوار ابورافع کے شکم میں پوری دھنسادی، عبداللہ کہتے ہیں کہ جب یقین ہوگیاکہ ابورافع کو مارڈالا تو میں دروازہ کھول کر نکلا، نکلتے وقت میرے پاؤں نے خطا کی اور غلط جگہ پاؤں پڑجانے کی وجہ سے میں گرگیا جس سے میری پنڈلی ٹوٹ گئی، میں نے اپنی پگڑی سے پنڈلی باندھ لی اور وہاں سے اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا، آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر سب حال بتایا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اپنے پیر ذرا پھیلاؤ پھر آپ نے میرے پیر پر اپنا دست مبارک پھیرا آپ کے ہاتھ کی برکت سے میرا پاؤں ایسا تندرست ہوگیا جیسے ان میں کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔ مفصل قصہ یہ ہے کہ: رمضان ۶ھ میں آنحضرتﷺ نے ان کو چار آدمیوں پر امیر بنا کر ابو رافع کے قتل کرنے کے لئے خیبر بھیجا تھا،ابو رافع نے آنحضرتﷺ کے خلاف غطفان وغیرہ کو بھڑ کا کر بڑا جتھا اکٹھا کرلیا تھا، یہ لوگ شام کے قریب قلعہ کے پاس پہنچے، عبداللہؓ نے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرو، میں اندر جاکر دیکھتا ہوں، پھاٹک کے قریب پہونچ کر چادر اوڑھ لی اور حاجتمندوں کی طرح دبک کر بیٹھ گئے ،دربان نے کہا میں دروازہ بند کرتا ہوں، اندر آنا ہو تو آجاؤ، اندر جاکر اصطبل نظر پڑا، اسی میں چھپ رہے، ارباب قلعہ کچھ رات تک ابو رافع سے باتیں کرتے رہے، اس کے بعد سب اپنے اپنے گھروں میں جا جا کر سورہے، سناٹا ہوا تو حضرت عبداللہ ؓ نے دربان کو غافل پاکر پھاٹک کھولا، اورابو رافع کی طرف چلے وہ بالاخانہ پر رہتا تھااور بیچ میں بہت سے دروازے پڑتے تھے، یہ جس دروازے سے جاتے اس کو اندر سے بند کرلیتے ، تاکہ شور ہونے پر کوئی ابو رافع تک نہ پہنچ سکے ان مراحل کے طے کرنے کے بعد ابو رافع کا بالاخانہ نظر آیا وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ ایک اندھیرے کمرے میں سورہا تھا،انہوں نے پکارا ابورافع !بولا کون ؟ جس طرف سے آواز آئی تھی بڑھ کر اسی سمت تلوار ماری لیکن کچھ نتیجہ نہ نکلا، وہ چلایا، یہ فوراً باہر نکل آے تھوڑی دیر کے بعد پھر اندر گئے اور آواز بدل کر کہا، ابو رافع کیا ہوا بولا ابھی ایک شخص نے تلوار ماری انہوں نے دوسرا وار کیا، لیکن وہ بھی خالی گیا اس مرتبہ اس کے شور سے تمام گھر جاگ اٹھا انہوں نے باہر نکل کر پھر آواز بدلی اورایک فریاد رس کی طرح اندر جاکر کہا میں آگیا گھبرانے کی کوئی بات نہیں، وہ چت لیٹا ہوا تھا، انہوں نے دیکھ لیا اور اس کے پیٹ میں اس زور سے تلوار کونچی کہ گوشت کو چیرتی ہوئی ہڈیوں تک جا پہونچی،اس کا فیصلہ کرکے جلدی سے باہر بھاگے عورت نے آواز دی کہ لینا جانے نہ پائے، چاندنی رات تھی اورآنکھوں سے نظر کم آتا تھا، زینہ کے پاس پہنچ کر پیر پھسلا اور لڑھکتے ہوئے نیچے آرہے ،پیر میں زیادہ چوٹ لگی تھی تاہم اٹھ کر عمامہ سے پنڈلی باندھی اوراپنے ساتھیوں کو لے کر کوڑے کے ڈھیر میں چھپ رہے۔ ادھر تمام قلعہ میں ہلچل پڑی ہوئی تھی، ہر طرف روشنی کی گئی اور حارث ۳ ہزار آدمی لیکر ڈھونڈنے کے لئے نکلا،لیکن ناکام واپس گیا، حضرت عبداللہؓ نے ساتھیوں سے کہا کہ اب تم جاکر رسول اللہ ﷺ کو بشارت سناؤ میں اپنے کانوں سے اس کے مرنے کی خبر سن کر آتا ہوں۔ صبح کے وقت ایک شخص نے قلعہ کی دیوار پر چڑھ کر بآواز بلند پکارا کہ ابو رافع تاجر اہل حجاز کا انتقال ہوگیا،عبداللہ ؓ یہ سن کر نکلے اوربڑھ کر ساتھیوں سے جاملے اور مدینہ پہنچ کر رسول اللہ ﷺ کو خوشخبری سنائی، آپ نے ان کا پیر دست مبارک سے مس فرمایا اور وہ بالکل اچھے ہوگئے۔ (بخاری:۲/۵۷۷،۵۷۸)