انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت سعد بن معاذ کا زخمی ہونا غزؤہ خندق کا ایک نہایت افسوس ناک اور رنج دہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت سعد ؓ بن معاذ جو قبیلہ اوس کے سردار تھے زخمی ہوئے اور یہی زخم ان کی وفات کا باعث ہوا،حضرت عائشہؓ جس قلعہ نما عمارت میں تھیں اسی میں حضرت معاذؓ کی والدہ ماجدہ بھی تھیں، حضرت عائشہؓ نے حضرت سعدؓ کو میدان جنگ میں جاتے ہوئے دیکھا تو محسوس کیا کہ زرہ اس قدر چھوٹی تھی کہ ان کے دونوں ہاتھ باہر تھے ، حضرت عائشہؓ نے یہ دیکھ کر حضرت سعدؓ کی والدہ سے کہا : کاش زرہ لمبی ہوتی جس سے ہاتھ بھی محفوظ ہوجاتے، سوء اتفاق دیکھیے کہ حبان بن قیس معروف بہ ابن العرقہ نے تاک کر حضر ت سعدؓ کی کلائی میں تیر مارا جس سے ان کی رگ " اکحل کٹ گئی ، زخمی ہوتے ہی حضرت سعدؓ نے دعا کی کہ باری تعالیٰ اگر ہمارے اور قریش کے درمیان لڑائیاں باقی ہیں تو مجھے زندہ رکھ کیونکہ مجھے قریش ہی کے خلاف جہاد سب سے بڑھ کر پسند ہے، انھوں نے حضور اکرم ﷺ کو اذیت پہنچائی، اگر قریش کے ساتھ لڑائیاں ختم ہوچکی ہیں تو مجھے بشارت عطاء کر اور مرنے سے پہلے بنو قریظہ کی جانب سے میری آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا، حضرت سعدؓ کی یہ دعا بارگاہ باری تعالیٰ میں قبول ہوئی ، قریش پھر کوئی لڑائی نہ کرسکے اور حضرت سعدؓ کی زندگی ہی میں بلکہ ان کی ثالثی سے بنو قریظہ کا فیصلہ ہوگیا، پھر اسی زخم کے باعث انھوں نے وفات پائی، (رسول رحمت) غزؤہ احزاب در حقیقت خساروں کی نہیں بلکہ اعصاب کی جنگ تھی، گوکہ اس میں کوئی خوں ریز لڑائی نہیں ہوئی؛ لیکن یہ تاریخ اسلام کی ایک فیصلہ کن جنگ تھی جس کے نتیجہ میں مشرکین کے حوصلے پست ہوگئے اور یہ بات واضح ہوگئی کہ مسلمانوں کی اس چھوٹی سی طاقت کو جو مدینہ میں نشو و نما پارہی ہے ختم نہیں کرسکتی کیونکہ غزؤہ احزاب میں جتنی بڑی طاقت فراہم ہوگئی تھی اس سے بڑی طاقت فراہم کرنا عربوں کے بس کی بات نہ تھی، بہرحال قریش کا یہ حملہ بھی تائید الٰہی سے ناکام ہوا اور باد صرصر نے فوجوں سے بڑھ کر کام کیا، قرآن مجید میں اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں آیاہے: " اے ایمان والو اﷲکی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے اس وقت تم کو بخشی جب کہ فوجیں تم پر (حملہ کرنے کو ) آئیں تو ہم نے ان پر ہوا بھیجی اور ایسے لشکر (نازل کئے) جن کو تم دیکھ نہیں سکتے تھے اﷲ ان کو دیکھ رہا تھا" (سورۂ احزاب : ۹) کفار اپنی ناکامی پر کس طرح غیظ و غضب میں بھرے ہوئے نامراد ہوئے اس کا ذکر قرآن میں اس طرح آیا ہے: " اور جو کافر تھے ان کو اﷲ نے غصہ میں بھرا ہو ا واپس کردیا کہ وہ کچھ بھلائی حاصل نہ کرسکے اور جنگ میں اﷲ ایمان والوں کی طرف سے خود ہی کافی ہوا اور اﷲ بڑی قوت والا اور زبردست ہے" (سورۂ احزاب : ۲۵) حضرت حذیفہ ؓ یہ اطلاع دینے کے لئے حضور ﷺ کے پاس گئے ، دیکھا کہ اللہ کے رسول اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سر بسجود ہیں ، سلام پھیرے تو احوال سنایا ، بشارت سنائی ، ارشاد ہوا :اب قریش تم پر کبھی حملہ نہ کر سکیں گے؛ بلکہ اب تم ان پر چڑھائی کرو گے ، اس ایک ماہ کے محاصرہ میں کل چھ مسلمان شہید ہوئے جن میں مسلمانوں کے ہاتھوں مرنے والے بھی شامل ہیں، ایک اندھیری رات میں دو مخالف سمتوں سے آنے والے پہرے دار دشمن سمجھ کر گتھ گئے، شعار پکارا تو لڑائی رکی، حضور اکرم ﷺ نے مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے کو بھی " شہید فی سبیل اللہ " اور مجروح مسلمانوں کو " جراحت فی سبیل اللہ " کی بشارت دی، خون اور زخموں پر تاوان عائد نہیں فرمایا ، کفار کے آٹھ آدمی قتل ہوئے، جن میں نامی گرامی پہلوان بھی تھے، (سیرت احمد مجتبی) اس غزوہ کی تاریخوں میں اختلاف ہے ، مورخوں کا زیادہ رجحان شوال ۵ھ کی طرف ہے، ابن سعد اور واقدی کا خیال ہے کہ یہ غزوہ ذیقعد ۵ھ مطابق مارچ ۶۲۷ء میں وقوع پذیر ہوا،اس غزوہ میں مدینہ میں نیابت کے فرائض حضرت عبداﷲؓ بن ام مکتوم نے انجام دئیے،شہد آئے خندق کے نام یہ ہیں :،۱، انس بن اوس بن عباس بن عمر ، ۲ ، عبداللہ بن سہل بن زید ،۳، ثعلبہ غمہ بن عدی ،۴، فضیل بن مالک بن نعمان ، ۵ ، کعب بن زدین قیس بن مالک ،۶، سعد بن معاذ بن لقمان ،( رحمتہ للعالمین ) ( آپ اس غزوہ میں زخمی ہوئے اور غزوہ بنوقریظہ کے بعد وفات ہوئی)۔