انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تدوین حدیث تدوین کی ضرورت حجیت حدیث کا تقاضا تھا کہ حدیث مدون کی جائے، اسے محفوظ کیا جائے،اس کے مطالب کھلے کھلے رکھے جائیں، اس سے استنباط کے چشمے پھوٹیں اوران سے اجتہاد کی راہیں بھی معلوم ہوں، دین اسلام اولاد آدم پر خدا کی آخری حجت اور شریعت محمدیﷺ بنی نوع انسان کے لیے آخری شریعت ہے تو اس دین و شریعت کا قیامت تک کے لیے باقی رہنا بھی ضروری ہے،پس لازم تھا کہ جوں جوں یہ تقاضا شدید ہوتا جائے تدوین حدیث کے عملی اسباب سامنے آتے جائیں اور حدیث جمع ہوتی جائے۔ قرآن کریم کے لکھے جانے سے یہ بات از خود ظاہر ہے کہ علم کی پوری حفاظت لکھے جانے سے ہی ہوتی ہے،آنحضرتﷺ پر جب کوئی آیت اترتی تو آپ کاتب کو بلا کر ارشاد فرماتے کہ یہ آیت فلاں سورت میں فلاں مقام پر لکھ لو، قرآن کریم اسی ترتیب سے پڑھا جاتا اور لکھا جاتا تھا جس ترتیب سے حضورﷺ اس کے لکھنے کی ہدایت فرماتے، قرآن کریم کی تحریراتDocuments نے تحریر حدیث کی فکر بھی پیدا کردی تھی،اگرچہ حضوراکرمﷺ کی زندگی کا ہر مرحلہ آپ کا ہر ارشاد اور آپ کی ہر ادا حدیث تھی،تاہم ان دنوں اندیشہ تھا کہ تحریر حدیث کے اہتمام میں کہیں تحریر قرآن دب کر نہ رہ جائے اور ہوسکتا تھا کہ ایسے حالات میں جب کہ عرب ابھی ابھی جاہلیت سے نکلے ہیں، تعلیم و تعلم کا عام رواج نہیں، تحریرات قرآن اور تحریرات حدیث آپس میں کہیں خلط ملط Mix نہ ہو جائیں اورکہیں ایسا نہ ہوکہ تحریرات قرآن کی طرح تحرات حدیث کی بھی عبادت کے طور پر تلاوت ہونے لگے، سو مصلحت کا تقاضا تھا کہ تحریر قرآن کے دور تک تحریر حدیث پر عام حلقوں میں پابندی رہے،صرف انہی حضرات کو اجازت ہو جوان حدود وفروق میں پورے طور پر محتاط رہیں، علم کی حدود اورزبان کو پہچانتے ہوں اورانہیں محفوظ رکھنے کا پورا اہتمام ملحوظ رکھ سکیں۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا؛کہ جب حدیث اسلام میں قانونی طور پر حجت ہے تو اسے محفوظ ہی ہونا چاہئے تھا اوردیگر مصالح کتنی ہی کیوں نہ ہو اصولا تحریر حدیث کی اجازت ہونی چاہئے تھی، عمومی اجازت نہ سہی؛ لیکن جن صحابہ کے علمی حلقوں میں ان تحریرات کے خلط ملط ہونے کا اندیشہ نہ ہو انہیں تحریر حدیث کی اجازت دی جائے؛ یہی وجہ ہے کہ تحریر قرآن کے دور تک تحریر حدیث پر پابندی ہونے کے باوجود یہ تقاضا اصولا باقی رہا اوراس احساس کے تحت بعض صحابہ نے حضورﷺ سے تحریر حدیث کی اجازت بھی مانگی اورآپ نے انہیں یہ اجازت مرحمت فرمائی۔