انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ایک بہتان کی تردید ہندوستان کی تاریخوں کے نہایت ہی ناقص وناتمام خلاصے جن کوتاریخ کہنا بھی غلطی میں شامل ہے، سرکاری مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں، یہ کتابیں غالباً سیاسی اغراض کے مدِّنظر رکھ کرلکھی جاسکتی ہیں اور ان کے مصنفین بعض اوقات ایسی بے بنیاد باتیں ان میں درج کردیتے ہیں جس سے ہندوستانی بچے غلط فہمی میں مبتلا ہوکر حقیقت کے خلاف غلط عقیدہ قائم کرلیتے ہیں؛ اسی قسم کی غلط بیانی کے ایک تیر کا مجروح مامون الرشید کوبھی بنایا گیا ہے، غالباً تیس چالیس سال ہوئے، جب راجہ شیو پرشاد ستارہ ہند کی لکھی ہوئی ایک کتاب سرکاری مدارس میں پڑھائی جاتی تھی اس میں لکھا تھا کہ راجپوتانہ کے ایک راجہ مسمی باپا راول پرمامون الرشید عباسی نے بائیس مرتبہ حملے کیے اور ہرمرتبہ باپا نے مامون کوشکست دے دے کربھگادیا، سنا گیا ہے کہ یہی سفید جھوٹ بعض اور کتابوں میں بھی نقل کیا گیا ہے جوداخلِ نصاب تھیں، یااب مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں، جن لوگوں نے لڑکپن میں یہ پڑھا ہے کہ مامون نے باپا سے بائیس مرتبہ شکست کھائی وہ اپنے دل میں مامون الرشید عباسی کے متعلق کیسا حقیر تصور رکھتے ہوں گے کہ ایک معمولی زمیندار کوزیر کرنے کے لیے اُس نے اپنی پوری قوت اور تمام عہدخلافت صرف کردیا اور ناکام رہا، اوپر کے صفحات میں مامون الرشید عباسی کے حکومت کا حال درج ہوچکا ہے وہ خلیفہ ہونے سے پہلے جن جن مشاغل میں مصروف رہا اُس کا بھی اجمالی ذکر آچکا ہے، خراسان کی حکومت پرفائز ہوکر وہ مرَو میں مقیم تھا کہ ہارون الرشید کا طوس میں انتقال ہوگیا، اس کے بعد قریباً چھ سال تک وہ مرَو میں مقیم رہا اس نے مرَو سے باہر قدم نہیں نکالا، ہاں اس میں شک نہیں کہ اس کی فوجوں نے کابل وقندھار کے ہاغیوں کوزیر کیا اور اُس ملک میں سنہ۲۰۰ھ کے قریب عام طور پراسلام شائع ومروّج ہوگیا۔ اسی زمانے میں تبت کا بادشاہ مسلمان ہوا اور اس نے اپنے سونے چاندی کے بت خلیفہ مامون کے پاس مرَو میں بھیج دیئے، سندھ اس کی حکومت میں شامل تھا اور وہاں دربارِ خلافت سے عامل مقرر ومامور ہوکر آتے اور حکومت کرتے تھے؛ لیکن مامون خود کبھی اس طرح نہیں آیا، اس نے مرَو سے روانہ ہوکر بغداد کا سفر اختیار کیا، اس سفر کے تفصیلی حالات تاریخوں میں درج ہیں؛ لیکن سندھ کی طرف یاہندوستان پرحملہ آور ہونے کا ذکر نہیں، بغداد پہنچ کرعرصۂ دراز تک وہ بغداد میں مقیم رہا، آخر ایام حیات میں وہ بغداد سے نکلا توبلادِ روم پرحملہ کرتا رہا، شام ومصر بھی گیا۔ ان مغربی بلاد کے سفر سے واپسی میں وہ فوت ہوا، سمجھ میں نہیں آتا اور عقل کس طرح تسلیم نہیں کرسکتی کہ مامون الرشید کی زندگی میں آخر وہ کونسا زمانہ ہے جس میں حملاتِ ہند کودرج کیا جائے، ہاں یہ ممکن ہے کہ کسی گورنر سندھ نے کبھی کوئی دستہ فوج راجپوتانہ کے زمینداروں کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا ہو؛ مگریہ ایسی بے حقیقت اور ناقابل تذکرہ مہم ہوگی کہ اس کا ذکر کرنا کسی نے بھی ضروری نہ سمجھا؛ اگریہ کہا جائے کہ عاملِ سندھ کی بھیجی ہوئی فوج نے چونکہ باپا سے شکست کھائی؛ لہٰذا مسلمانوں نے ا سکا ذکر نہیں کیا؛ مگرایسا کہنے میں معترض کی پست ہمتی اور بددیانتی کا پردہ فاش ہوجاتا ہے؛ کیونکہ وہ خود تاریخ نویسی اور واقعہ نگاری میں ایسے دروغ وکذب کوجائز سمجھتا ہے؛ ورنہ مسلمان مؤرخوں نے مامون کی فوجوں کے شکست کھانے اس کے سپہ سالاروں کے ناکام رہنے کوکہیں بھی نہیں چھپایا۔ قومِ زَط کی غارت گری کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے اس طعنہ کوبھی درج کردیا، جونصربن شیث نے دیا تھا کہ زَط کے چند مینڈکوں پرفتح نہ پاسکا، بھلا ان مؤرخین کواگروہ مامون کی حمایت وطرفداری میں ایسے ہی مجرمانہ حقیقت پوشی پراُترآئے تھے توزَط کا تذکرہ بڑی آسانی سے ہضم کرسکتے تھے؛ کیونکہ چند ہی روز کے بعد یہ قوم رومیوں کی بدولت صفحہ ہستی سے فنا ہوگئی تھی؛ بہرحال باپا کی بہادری کا مبالغہ آمیز تذکرہ کرتے ہوئے یہ سفید جھوٹ جس کی کوئی بھی اصلیت نہیں ہے، تراشا گیا ہے، یہ اسی قسم کا تمسخرانگیز جھوٹ ہے، جیسا کہ بکرماجیت کی نسبت ہندومؤرخوں نے بلاکسی شرم ولحاظ کے لکھ دیا ہے کہ اس نے ہندوستان سے ملک اٹلی کے شہرروما میں پہنچ کرجولیس سیرزشہنشاہِ رُوم کوشکست دی تھی، یہ شاید انہوں نے اپنے زعم میں اسکندریونانی کے حملہ ہند کا جواب دے دیا ہے، دل خوش کرنے کے لیے اس قسم کی باتیں گاؤں کی چوپال میں بیٹھ کرتوشاید تھوڑی دیر کے لیے لطفِ صحبت کا موجب ہوسکتی ہوں؛ لیکن ان کا نام تاریخ اور واقعہ نگاری ہرگز نہیں ہے۔