انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حدیث کی حفاظت کا لازم وعدہ حفاظت ذکر الفاظ قرآن اوربیان قرآن ہر دو کی حفاظت کا وعدہ دیا گیا ہے،بیان قرآن کی حفاظت کے ضمن میں حدیث کس طرح محفوظ رہی اسے سمجھنے کے لیے حضرت امام شافعیؒ (۲۰۴ھ) کے اس بیان پر غور کیجئے: سنت کا سب ذخیرہ مجموعی طورپر محدثین کے پاس موجود ہے،گوبعض محدثین کے ہاں زیادہ اوربعض کے ہاں کم لیکن اگر تمام محدثین کی حدیثوں کو یکجا کیا جائے تو سنت کا پورا ذخیرہ جمع ہوجاتا ہے،ہاں ہرمحدث کی جمع کردہ ذخیرہ احادیث کو الگ الگ لیا جائے،تو ہر محدث سے کچھ نہ کچھ حدیثیں رہ گئی ہیں؛لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو حدیثیں ایک محدث سے رہ جاتی ہیں وہ دوسرے کے ہاں مل جاتی ہیں۔ (رسالہ امام شافعیؓ:۴۳) حضرت امام شافعیؒ کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے؛کہ حدیث مجموعی طورپر ہمیشہ سے محفوظ رہی ہے اور بعض روایات اورجزئیات میں اختلاف اس مجموعی حفاظت میں کبھی خارج نہیں رہا، یہ دوسری صدی کے آخری دور کی شہادت ہے اوراس وقت تک ابھی امام بخاری اورامام مسلم جیسے ائمہ فن نے اپنی نادرہ روزگار کتابیں تالیف نہ کی تھیں، تیسرے دور میں جب صحاح ستہ جیسی گرانقدر تالیفات مرتب ہوگئیں،توحدیث اس وقت ایک ایسے دور حفاظت میں داخل ہوچکی تھی؛ کہ اس پر قطعی حفاظت کا لفظ بغیر کسی تاویل کے پورا اترتا تھا؛ اگر یہ قطعیت ان ائمہ صحاح سے اوپر حضورؐ تک متواتر ہو(یعنی حضورﷺ کی کچھ احادیث امت کو آگے اسی تواتر سے پہنچی ہوں جس طرح صحابہ کرامؓ کے سامنے حضورﷺ کا نقشہ عمل قطعی اور یقینی تھا) تو بے شک اس پر اسی طرح ایمان لانا ضروری تھا، اس کی وجہ یہی ہے کہ حدیث بھی ایک پہلو سے قرآن ہی ہے؛ کیونکہ یہ قرآن کا عملی بیان اوراس کے مجملات کی ہی توضیح وبرہان ہے۔ حضرت قاضی عیاض(۵۴۴ ھ) لکھتے ہیں: "و كذلك نقطع بتكفير كل من كذب و أنكر قاعدة من قواعد الشرع و ما عرف يقينا بالنقل المتواتر من فعل الرسول و وقع الإجماع المتصل عليه كمن أنكر وجوب الخمس الصلوات أو عدد ركعاتها"۔ (الشفا،باب فصل فی بیان ماھو من:۲/۲۳۶) ترجمہ: اور اسی طرح ہم ہر اس شخص کو جو شریعت کے قواعد میں سے کسی قاعدے کا انکار کرے اورحضورﷺ کے اس فعل کا انکار کرے جو یقین اور تواتر سے معلوم ہوچکا ہو اوراس پر اجماع پورے تسلسل سے چلا آیا ہو قطعی طور پر کافر جانتے ہیں، جیسے وہ شخص جو پنجگانہ نمازوں کی فرضیت اوران کے عدد رکعات کا منکر ہو کافر ہے۔ حضور اکرمؐ کے عمل کے ذریعہ یہ وحی الہٰی کی حفاظت ہے،حدیث کی حفاظت نے اور کتنے پیرائے اختیار کیئے اورعمل رسول کن کن راہوں سے امت کے لیے پکھڈ نڈی بنتا رہا اور امت کے قافلے کس طرح سے اس راہ پر چلتے آئے اب اس کی کچھ تفصیل کی جاتی ہے۔