انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مطالعہ حدیث کے وقت کتاب کا احترام حدیث سننے سنانے پڑھنے پڑھانے تک یہ معاملہ نہیں؛ بلکہ آداب میں سے یہ بھی ہے کہ کتبِ حدیث کا بھی بڑا احترام کرتے تھے، حدیث کی کتابوں پر کوئی کتاب بھی نہ رکھتے تھے، کتبِ احادیث کواپنے سے نیچے نہ رکھے، نہ زمین پر بغیر کوئی کپڑا بچھائے، نہ کتب حدیث پر پھلانگ لگاکے جائے، کتب حدیث جس پر رکھی جاتی ہے، اس کا ادب بھی ملحوظ رہے، یہ نہ ہوکہ اس کے اُوپر پیررکھدے یاپھلانگ کر چلاجائے، عام کتب کی طرح نیچے لٹکائے ہوئے نہ چلے؛ بلکہ سینے کے ساتھ چمٹاتے ہوئے چلے، مطالعہ حدیث کے وقت بھی اس کا خاص اہتمام کرے کہ کسی طرح بے ادبی نہ ہوجائے، محدثینِ عظام اور علماءِ کرام کا معمول تویہاں تک رہا ہے کہ کتبِ حدیث کے مطالعہ کے وقت بھی اس کا اتنا ادب کرتے تھے کہ کتاب کا حاشیہ دیکھنے کے لیے اُلٹ پلٹ یاآگے پیچھے نہ کرتے تھے؛ بلکہ حدیث اور کتاب کے احترام اور ادب میں خود اُٹھ اُٹھ کر جایا کرتے تھے، دارالعلوم دیوبند کے محدث شہیر حضرت مولانا علامہ انورشاہ صاحب کشمیریؒ کا ادب حدیث ملاحظہ کیجئے: "کتاب کو مطالعہ میں کبھی اپنے تابع نہیں کیا، جس نشست پر بیٹھ کر کتاب کا مطالعہ کرتا ہوں اگر حاشیہ دوسری جانب ہوتا ہے توکتاب کوگردش دیکر حاشیہ اپنے سامنے کرنے کی کوشش نہیں کی، کتاب کی ہیئت بدلے بغیر خود اپنی نشست بدل کر حاشیہ کی جانب آبیٹھتا ہوں"۔ (نقشِ دوام:۱۰۸) جونپور کے حضرت مولانا عبدالقیوم ایک جگہ لکھتے ہیں: "تحصیلِ علم کے لیے جس طریقہ سے اُستاذ کی تعظیم وتکریم ضروری ہے کتاب کی بھی تعظیم ضروری ہے؛ لہٰذا کتاب کی طرف پاؤں نہ پھیلائے مراتب کتاب کا لحاظ رکھے، حدیث کی کتابوں پر تفسیر کے علاوہ کسی دوسری کتاب کو نہ رکھے اور کسی کتاب پر کوئی دوسری چیزنہ رکھنا چاہیے"۔ (مقدمہ شرح مشکوٰۃ:۱۰۶) بلکہ حضرت شمس الائمہ حلوانی تو یہاں تک فرماگئے کہ جوکچھ مجھ کوعلم نصیب ہوا وہ تعظیم کی بدولت؛ یہاں تک کہ میں نے کوئی کاغذ بلاوضو نہیں چھوا۔ (مقدمہ شرح مشکوٰۃ:۱۰۵) جب تک کتاب واستاذ کی عزت وعظمت ذہن نشین نہ ہوگی اس وقت تک علم قریب نہیں آتا، صحابہ کرامؓ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر رہتے اور ہرآن فیض رسالت سے فیضیاب ہوتے؛ لیکن حضورﷺ جب کوئی مضمون بیان فرماتے ہیں تو صحابہ کرامؓ اور بھی احترام سے بیٹھتے۔ اسی طرح بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ حدیث بیان کرنے والے کئی حضرات موجود ہوں اس صورت میں عام بات ہوتو جس سے چاہے پوچھ لے؛ لیکن اعلم (زیادہ علم والا) سامنے ہوتواسی سے پوچھے، اس کے سامنے دوسرے سے پوچھنا اس کے ادب کے خلاف ہے، ہاں بات اہم اور پیچیدہ ہو اور بڑے شیخ سے سوال ممکن ہوتوپھر دوسروں سے پوچھنا شیخ کے احترام کے خلاف سمجھے، سیدنا حضرت امام عبداللہ بن مسعودؓ حدیث کے بڑے امام تھے، ان کے اسی شہر میں ہوتے ہوئے ایک مسئلہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ (۵۲ھ) سے پوچھا گیا توآپ نے کچھ کہا اور اس کی تصدیق حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے نہ ہوسکی توحضرت ابوموسیٰ نے صاف فرمایا "لاتسألونی مادام ھذا الحبرفیکم" (بخاری:۸/۱۸۸) ترجمہ:جب تک یہ (حضرت عبداللہ بن مسعودؓ) بڑے عالم تم میں موجود ہیں مجھ سے کوئی مسئلہ مت پوچھو۔ حضرت ابراہیم نخعیؒ، حضرت امام شعبیؒ (۱۰۳ھ) کی موجودگی میں کچھ گفتگو نہیں فرماتے تھے، ہاں کبرِسنی یاکسی مرض کاغلبہ ہوتو بڑے حضرات خود ہی احتیاط فرماتے تھے، روایت کم کرتے تھے، بڑے حضرات کا احترام وادب اپنی جگہ؛ تاہم یہ ضروری نہیں کہ استاذ لازمی طور پر شاگرد سے زیادہ علم رکھتا ہو، حضورﷺ فرماتے ہیں: "رُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ"۔ (المعجم الکبیر، حدیث نمبر:۱۰۶، شاملہ،الناشر:مكتبة العلوم والحكم،الموصل) حضرت ابراہیم نخعیؒ بھی توفقہ میں نادرۂ روزگار تھے اور امام شعبی توشعبی ہی ہیں۔ اساتذہ کے آداب میں سے ہے کہ طلبا سبق کے وقت استاذ کے زیادہ قریب نہ بیٹھیں، ادب واحترام کی حدود تبھی قائم رہ سکتی ہیں؛ شاگرد اور استاذ کے درمیان کم از کم ایک کمان کا فاصلہ ضرور رہنا چاہئے اس لیے کہ یہ اقرب الی التعظیم ہے، استاد اور شاگرد کے ادب کی ایک مثال لیجئے: شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسنؒ اپنے کمرہ میں مصروفِ مطالعہ تھے ان دنوں زادالمعاد لابن القیمؒ نئی نئی چھپ کر آئی تھی اور حضرت شیخ رحمہ اللہ اسی میں منہمک تھے، حضرت مولانا انورشاہ کشمیریؒ بھی ان دنوں دارالعلوم دیوبند میں مدرس تھے اور حضرت شیخ کے شاگردِ رشید تھے، حضرت شاہ صاحبؒ اپنی کسی ضرورت سے حضرت شیخ کوملنے آئے، دروازہ کھلا تھا، شاہ صاحبؒ مسلسل کھڑے رہے کہ حضرت شیخ کی نظر پڑے تواندر آئیں، حضرت شیخ الہندؒ کتاب میں اسقدر اترے پڑے تھے کہ آدھ گھنٹہ سے زائد ہوگیا کہ حضرتؒ نے نظر نہ بدلی اور حضرت شاہ صاحبؒ مسلسل کھڑے رہے اور محض اس لیے کہ استاذ کے کام میں خلل نہ ہو اور ادب کے خلاف نہ ہو انہیں آواز نہ دی، یہ حضرات اپنے وقت کے آفتاب وماہتاب تھے؛ مگرادب واحترام میں دیکھیں کہ کسقدر کوشاں رہے؛ یہی وہ حضرات ہیں جوادب کی وجہ سے علم کے خزانے جمع کرگئے اور پھرسالہاسال پوری دُنیا میں یہ علم کے موتی بکھیرتے رہے۔