انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** وفد بنی عامر بن صعصہ اس وفد میں عامر بن طفیل جس نے بئیر معونہ میں ستر (۷۰) مسلمانوں کو دھوکے سے شہید کیا تھاشریک تھا جس نے کچھ اور بد نہاد روساء جیسے اربد بن ربیعہ کے ساتھ سازش کی تھی، اس نے اربد سے کہا تھا کہ وہ آنحضرت ﷺ کو باتوں میں مشغول رکھے گا اس وقت ان کا ( معاذاللہ)کام تمام کر دینا،جب عامر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے خوشامدانہ انداز اختیار کیاا ورکہا کہ اگر وہ مسلمان ہو جائے تو اسے کیا ملے گا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا وہی حقوق جو تمام مسلمانوں کے ہیں ، پھر اس نے حضور ﷺ سے کہا کہ اسے اپنا خلیفہ نامزد کریں، جس پر آپﷺ نے فرمایا کہ وہ اوراس کا قبیلہ اس قابل نہیں ہے، پھر اس نے عرض کیا کہ حضور ﷺ اہل بادیہ اور صحرا نشینوں پر آپﷺ حکومت کریں اور شہروں پر اسے حکومت کرنے دیں اس پر آپﷺ نے انکار فرمایا، تب اس نے دھمکی دی کہ اگر حضورﷺ نے اس کا کہا نہ مانا تو وہ ایک بڑی فوج کے ساتھ حملہ کرے گا، دوران گفتگو اربد نے جنبش تک نہ کی ، باہر نکلنے کے بعد اس نے پوچھا کہ حضور ﷺ پر حملہ کیوں نہیں کیا تو اس نے جواب دیا کہ جب بھی محمد (ﷺ ) پر حملہ کرنا چاہا تو تمہیں درمیان میں حائل پایا ، اس لئے اس نے قتل نہیں کیا، ان دونوں نے اسلام قبول نہیں کیا، ایک طاعون سے مرا اور دوسرا بجلی گرنے سے مرا، وفد کے دوسرے ارکان اسلام لائے،اربد بن قیس جو اس وفد کے ساتھ آیا تھاوہ عرب کے نامور شاعر لبید بن ربیعہ کا سوتیلا بھائی تھا ، لبید نے اربد کے مرثیے لکھے ہیں،اسی سال اس قبیلہ نے بنو جعفر کے لوگوں پر مشتمل ایک اور وفد بھیجا جو اصل میں کِلاب کی شاخ بنو عامر سے تھے، اسی میں سبعہ معلقات کا شاعر لبید بھی شریک تھا، اس موقع پر انھوں نے اسلام قبول کیا اور پھر کوفہ چلے گئے،لبید عرب کے مایہ ناز با کمال شاعروں میں سے تھے، ان کے ہم عصر نامور شعراء ان کا اتنا احترام کرتے تھے کہ لبید کے بعض اشعار پر سجدہ میں گر جاتے ،سبعہ معلقات کے اس شاعر کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ لبید کی سب سے سچی بات اس کا یہ مصرعہ ہے ع " الا کل شیٔ ما خلا اللہ باطل" سنو ! اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے اس مصرعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد جاہلیت میں بھی ان کے کلام میں مذہبی جھلک پائی جاتی تھی، اسلام لانے کے بعد انہوں نے کہا : (ترجمہ) " اللہ کا شکر ہے کہ میری موت نہ آئی یہاں تک کہ میں نے اسلام کا لباس نہ پہنا" روایت ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے شعر کہنا چھوڑ دیا تھا؛ لیکن یہ قرین قیاس نہیں معلوم ہوتا،اپنے دور خلافت میں حضرت عمرؓ نے لبید ؓ عامری سے اپنے کچھ اشعار سنانے کی خواہش کی جس پر انھوں نے کہا :جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے سورۂ بقرہ اورسورۂ آل عمران سے روشناس کیا ہے میں نے کوئی تازہ شعر نہیں کہا ، ان کے اس جواب سے حضرت عمرؓ بہت خوش ہوئے اور ان کے وظیفہ میں پانچ سو درہم کا اضافہ کر دیا جو کہ اس سے پہلے دو ہزار تھا، حضرت معاویہؓ نے بھی اس وظیفہ کو بر قرار رکھا۔ وفد دارم یا داریّین- یہ وفد حضور ﷺ کی تبوک سے واپسی کے بعد آیا، اس وفدمیں دس افراد تھے ، حضرت ہانیؓ بن حبیب امیر وفد تھے، یہ وفد حضور ﷺ کے لئے تحفے لایا جن میں چند گھوڑے ، سونے کے پتھر سے آراستہ ایک ریشمی قبااور ایک شراب کی مشک تھی، دو چیزیں تو آپﷺ نے قبول فرما لیں لیکن مشک نہیں لی، امیر وفد نے کہا کہ اسے فروخت کئے دیتا ہوں ، فرمایا اس کا بیچنا بھی حرام ہے ، قبا آپﷺ نے حضرت عباسؓ کو عطا فرمائی، انہوں نے عرض کیا میں اس کا کیا کروں گا ( کیونکہ ریشمی چیز پہننا جائز نہیں) فرمایا سونے سے عورتوں کے لئے زیور بنوالو اور قبا فروخت کر ڈالو ، حضرت عباسؓ سے ایک یہودی نے اسے آٹھ ہزار درہم میں خریدا،ابن سعد نے لکھا ہے کہ ان میں سے ایک فرد تمیم بن اوس نے عرض کیا: ہمارے نواح میں رومیوں کا گاؤں جریٰ اور بیت عنیون ہیں، اگر اللہ تعالیٰ آپﷺ کو ملک شام کا فاتح بنائے تو یہ گاؤں مجھے عطا فرمائیے، حضور ﷺ نے فرمایا :وہ تمہارے ہی ہوں گے؛ چنانچہ حضرت ابو بکرؓ صدیق کے دور خلافت میں انھوں نے ایک فرمان کے ذریعہ یہ دو گاؤں انہیں عطا فرمائے، حضورﷺ نے ان لوگوں کے لئے ایک سو وسق(ایک پیمانہ ) غلہ کی وصیت بھی فرمائی۔ وفدِبہرا اس وفد میں (۱۳) افراد شامل تھے جو یمن کے قبیلہ خزاعہ کی ایک شاخ سے تھے ، ان کومحلہ بنی جدیلہ میں حضرت مقدادؓ بن عمرو نے اپنے پاس ٹھہرایا اور ایک لگن میں حسیس ( کھجور او ر پنیر ملا کھانا ) کھلایا ، پھر حضرت مقدادؓ نے حسیس اپنی ایک کنیز کے ذریعہ حضور ﷺ کے پاس روانہ کیا جبکہ آپﷺ اُم سلمہؓ کے گھر میں تھے، گھر والوں نے اس میں سے کھایا، پھر حضور ﷺ نے وہ لگن حضرت مقدادؓ کے پاس روانہ کی، حضرت مقدادؓنے وفد والوں کو بتلایا کہ حضور ﷺ نے اس میں سے تناول فرمایا ہے اورآپﷺ کے انگلیوں کی برکت اس میں شامل ہے ، اس لئے جب تک وہ مقیم رہے اسی سے سیر ہو کر کھاتے رہے ، چند دن ٹھہر کر فرائض دین کاعلم سیکھا اور پھر واپس ہوئے ، واپسی کے وقت انہیں انعام و اکرام دیا گیا۔ وفد بنی البکاء اس وفد میں تین افراد شامل تھے جن میں سے ایک معاویہ بن ثورتھے، ان کی عمر سو سال تھی، ان کے علاوہ ان کے بیٹے بشر بن معاویہ اور فجیع بن عبداللہ بن جتداح بن البکاء تھے، ان لوگوں کے ہمراہ عبد امرالبکائی بھی تھے جو بہرے تھے ، معاویہ نے حضور اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ میں آپﷺ کے مس(چھونے) سے برکت حاصل کرنا چاہتا ہوں، میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور میرا یہ لڑکا میرے ساتھ نیکی کرتاہے، لہذا اس کے چہرے پر اپنے دست مبارک سے مسح فرمائیے، حضور ﷺ نے بشر بن معاویہ کے چہرے پر دست مبارک پھیرا، انھیں انعامات کے علاوہ سفید رنگ کی بھیڑیں عطا کی گئیں ، حضور ﷺ نے فجیع بن عبداللہ کو ایک تحریری فرمان بھی عطا کیا جس میں لکھا تھا کہ جو اسلام لائے ، نماز قائم کرے، زکوٰۃ دے، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے ، مال غنیمت میں سے خمس دے ، اسلام پرگواہی دے اور مشرکین کو چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اور محمد ﷺ کی امان میں ہے۔