انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دیگرمذاہب میں دنیا کے تمام مذاہب بلکہ قدیم یونانی مصری فلسفہ میں بھی اس قسم کی ہستیوں کا وجود تسلیم کیا گیا ہے۔ صابی مذہب میں یہ ستاروں اور سیاروں کی صورت میں مانے گئے، یونانی مصری(سکندری)فلسفہ میں ان کا نام عقول عشرہ(دس عقلیں) رکھا گیا ہے اور ساتھ ہی نو آسمانوں کے اندر بھی الگ الگ ذی ارادہ نفوس تسلیم کیے گئے ہیں بلکہ خالص یونانی فلسفہ میں بھی بعض غیرمادی ارواح مجرّدہ کا پتہ لگتا ہےجن میں سب سے اہم لوگس کا تخیل(عقیدہ)، ہے، جس سے مقصود وہ اولین ہستی ہے جس کو اللہ تعالیٰنے خدانے تمام کائنات کی پیدائش کا ذریعہ اور واسطہ قراردیا ہے اور جس کو اہل فلسفہ عقل اول سے تعبیر کرتےہیں۔ پارسیوں میں ان ہستیوں کا نام"امشاسپند" ہے اور ان کی بے شمار تعداد قرار دی گئی ہے یہودی ان کو "وہیم"کہتے ہیں اور ان میں خاص خاص کے نام جبرئیل اور میکائیل وغیرہ رکھے ہیں عیسائی بھی ان کو انہی ناموں سے یاد کرتے ہیں اور جبرئیل اور روح القدس وغیرہ الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہندؤوں میں وہ دیوی دیوتاؤوں کے نام سے روشناس ہیں۔ جاہل عرب ان کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہہ کر پکارتے ہیں بہرحال تمام مختلف صحیح اور غلط نام ایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں، جس سے مراد وہ روحانی وسائط(واسطے)ہیں جو صانع اورمصنوعات(عالم اور عالم کے بنانے والے)اور خالق ومخلوق کے درمیان اس کے حکم کے مطابق عملپیرا اور کارفرماہیں۔ (سیرۃ النبیﷺ ،فرشتوں پرایمان:۴/۲۸۷، مصنف:علامہ شبلی نعمانیؒ، علامہ سیدسلیمان ندوی)