انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** متفرق حالات وخصوصیات فاروق اعظمؓ کی غذا نہایت سادہ ہوتی تھی،یہاں تک کہ بیرونی علاقوں اورصوبوں سے جو قاصد یاوفود آتے تھے وہ فاروق اعظمؓ کے ساتھ بحیثیت مہمان کھانا کھاتے تھے،تو ان کو اس لئے تکلیف ہوتی تھی کہ وہ ایسی سادہ غذا کے عادی نہ ہوتے تھے،لباس بھی آپ کا بہت سادہ اور بے تکلفانہ ہوتا تھا، کپڑوں میں اکثر پیوند لگے ہوتے تھے،بعض اوقات کپڑے کی قمیص میں چمڑے کا پیوند بھی لگاتے تھے،ایک مرتبہ آپ دیر تک گھر میں رہے، جب باہر نکلے تو معلوم ہوا کہ بدن کے کپڑے جو میلے ہوگئے تھے اُ ن کو دھوکر دھوپ میں ڈالا تھا،جب وہ سوکھ گئے تو پہن کرباہر آئے ،دوسرے کپڑے نہ تھے کہ اُن کو پہن لیتے ،ہجرت کے بعد ابتدا ءً آپ مدینہ منورہ سے دو تین میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں میں رہتے تھے، خلیفہ ہونے کے بعد آپ شہر مدینہ میں آرہے تھے،مدینہ منورہ میں آپ کا مکان مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب باب اسلام اور باب الرحمۃ کے درمیان تھا، مرتے وقت آپ مقروض تھے،آپ نے حکم دیا کہ میرا یہ مکان فروخت کرکے قرضہ ادا کردیا جائے، چنانچہ اس مکان کو امیر معاویہؓ نے خریدا اوراس قیمت سے قرضہ ادا کردیا گیا،ایک مرتبہ آپ نے خطبہ میں فرمایا کہ لوگو! ایک وقت ایسا تھا کہ میں لوگوں کو پانی بھر کر لادیا کرتا تھا وہ اس کے عوض مجھ کو کھجوریں دیتے اور میں وہی کھا کر بسر کرتا تھا،بعد میں لوگوں نے کہا کہ اس تذکرے کی کیا ضرورت تھی آپ نے فرمایا کہ میری طبیعت میں کچھ غرور پیدا ہوگیا تھا، یہ اس کی دوا تھی،آپ نے بار ہا مدینہ سے مکہ تک اورمکہ سے مدینے تک سفر کیا کبھی کوئی خیمہ یا چھولداری ساتھ نہ ہوتی تھی،کسی کیکر کے درخت پر چادر پھیلادی اوراس کے نیچے آرام کی غرض سے ٹھہر گئے،لیٹنے یا سونے کی ضرورت پیش آتی زمین پر سنگریزوں اور پتھریوں کو ہموار کرکے اور پتھریوں کو ایک جگہ جمع کرکے تکیہ بناکر اورکپڑا بچھا کر سوجاتے ،آپ نے ازواج مطہرات،اصحاب بدر ،اصحاب بیعت الرضوان وغیرہ تمام جلیل القدر صحابیوں کی تنخواہیں بیت المال سے مقرر کررکھی تھیں جب حضرت اُسامہؓ کی تنخواہ اپنے بیٹے عبداللہ سے زیادہ مقرر کی تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اس پر عذر کیا آپ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُسامہؓ کو تجھ سے اور اُسامہؓ کے باپ کو تیرے باپ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ فاروقِ اعظمؓ کے مشیر وندیم سب علماء ہوتے تھے خواہ وہ بوڑھے ہوں یا نو عمر آپ علماء کی بڑی قدر وعزت کرتے تھے مردم شناسی وجوہر شناسی آپ کی خصوصیات میں شامل ہے،ہر ایک شخص کی خوبیوں کو آپ بہت جلد معلوم کرلیتے اور پھر ان کی پوری پوری قدر کرتے اسی طرح صحابہؓ کرام میں سے ہر ایک شخص میں جو خاص صفت تھی،اُسی کے موافق خدمات اور عہدے اُن کو عطا کئے تھے ،فاروق اعظمؓ کسی شخص کے محض روزے نماز سے بھی کبھی دھوکہ نہ کھاتے تھے وہ اگرچہ خود بڑی زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے؛ لیکن ذمہ داری کے کاموں پریا فوجوں کی سرداری اور صوبوں کی حکومت پر جن لوگوں کو مقرر فرماتے،اُن کے انتخاب میں محض زہد واتقا اورزاہد انہ زندگی ہی کو معیار قرار نہ دیتے ؛بلکہ جن کاموں پر جن لوگوں کو مقرر فرماتے ان میں ان کاموں کے سر انجام و اہتمام کی پوری قابلیت دیکھ لیتے آپ کی دس سالہ خلافت کے زمانے میں سینکڑوں بڑی بڑی لڑائیاں عراق وشام، فلسطین اورمصر وخراسان وغیرہ ممالک میں ہوئیں، لیکن آپ خود کسی لڑائی میں نفس نفیس شریک نہ ہوئے،تاہم ان لڑائیوں کا اہتمام اورضروری انتظام فاروق اعظمؓ ہی کے ہاتھ میں ہوتا تھا،ہر ایک سردار کو آپ کی طرف سے نہایت معمولی معمولی باتوں کے متعلق بھی ہدایت پہنچ جاتیں، اوراس کو اُن ہدایات کے موافق ہی کام کرنا پڑتا تھا،کسی لڑائی اورکسی معرکہ میں یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ فلاں حکم فاروق اعظمؓ نے غلط اور غیر مفید دیا تھا،یا فلاح انتظام جو فاروق اعظمؓ نے کیا وہ غیر ضروری تھا،آپ نے صوبوں کے تمام عمال کو لکھ کر بھیجا تھا کہ کوئی سپاہی میدان ِ جنگ میں مسلسل چار مہینے سے زیادہ نہ روکا جائے،چار مہینے کے بعد اُس کو اپنے اہل وعیال میں آنے کی رخصت دے دی جائے،ایک مرتبہ آپ کو کسی مرض کی وجہ سے کسی نے شہد کھانے کو بتایا،آپ کے یہاں شہد نہ تھا، نہ کسی اور جگہ سے مل سکتا تھا،البتہ بیت المال میں تھوڑا سا شہد موجود تھا،لوگوں نے کہا کہ آپ اس شہد کو استعمال کریں آپ نے کہا کہ یہ سارے مسلمانوں کا مال ہے جب تک عام لوگ مجھ کو اجازت نہ دیں،آپ نے شہد استعمال نہ کیا۔ ایک روز آپ اونٹ کے زخم دھوتے جاتے تھے اور فرماتے تھے کہ مجھ کو خوف معلوم ہوتا ہے کہ کہیں قیامت کے دن مجھ سے اس کی بابت بھی سوال نہ ہو، آپ نے ایک روز حضرت سلمانؓ سے دریافت کیا کہ میں بادشاہ ہوں یا خلیفہ،انہوں نے جواب میں فرمایا کہ اگر آپ کسی مسلمان سے ایک درہم یا اس سے کم وبیش وصول کرکے بے جا خرچ کریں ،تو آپ بادشاہ ہیں ورنہ خلیفہ، آپ نے خلیفہ ہونے کے بعد ابتداءً مدتوں تک بیت المال سے ایک حبہ بھی نہیں لیا،رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ آپ پر افلاس مستولی ہونے لگا اور فقر وفاقہ کی نوبت پہنچنے لگی،تب آپ نے اصحاب کرام کو مسجد نبوی میں جمع کرکے فرمایا کہ میں کاروبار خلافت میں اس قدر مصروف رہتا ہوں کہ اپنے نفقہ کاکوئی فکر نہیں کرسکتا، آپ سب مل کر میرے لئے کچھ مقرر کردیجئے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ صبح و شام کاکھانا آپ کو بیت المال سے ملا کرے گا، فاروق اعظمؓ نے اُسی کو منظور فرمالیا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ کبھی ایسا نہ ہوا کہ فاروقِ اعظمؓ کو غصہ آیا ہو اور کسی نے خدا کا ذکر کیا ہو یا خدا کا خوف دلایا ہو یا قرآن شریف کی کوئی آیت پڑھی ہو اور آپ کا غصہ فرو نہ ہوگیا ہو،حضرت بلالؓ نے ایک مرتبہ حضرت اسلمؓ سے حضرت عمرؓ کا حال دریافت کیا،انہوں نے کہا اس میں شک نہیں کہ آپ تمام آدمیوں سے بہتر ہیں،لیکن جب آپ کو غصہ آجاتا ہے تو غضب ہی ہوجاتا ہے ،حضرت بلالؓ نے کہا کہ اس وقت تم کوئی آیت کیوں نہیں پڑھ دیا کرتے کہ سارا غصہ اُتر جائے،حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ فاروق اعظمؓ نے ایک حصہ فوج پر ساریہؓ نامی ایک شخص کو سپہ سالار بناکر بھیجا تھا،ایک روز خطبہ میں آپ نے تین مرتبہ بلند آواز سے فرمایا کہ اے ساریہؓ پہاڑ کی طرف جا،چند روز (ایک ماہ) بعد ایک ایلچی آیا اوراُس نے جنگ کے حالات سُناتے ہوئے کہا کہ ہم کو شکست ہوا چاہتی تھی کہ ہم نے تین مرتبہ کسی شخص کی آواز سنی کہ ساریہؓ پہاڑ کی طرف جا ؛چنانچہ ہم نے پہاڑ کی طرف رُخ کیا اورخدائے تعالی نے ہمارے دشمنوں کو شکست دے دی، جس روز خطبہ میں فاروق اعظمؓ نے یہ الفاظ فرمائے ہیں،اس روز لوگوں نے کہا کہ آپ یہاں ساریہ کو پکاررہے ہیں وہ نہاوند کے مقام پر کفار کے مقابلے میں مصروف ہے،آپ نے فرمایا اُس وقت میں نے ایسا ہی نظارہ دیکھا کہ مسلمان مصروف جنگ ہیں اورپہاڑ کی طرف متوجہ ہونا اس کے لئے مفید ہے،لہذا بے ساختہ میری زبان سے یہ الفاظ نکل گئے، جب ساریہ کا خط اورایلچی آیا،ٹھیک جمعہ کےر وز عین نماز جمعہ کے وقت اسی تاریخ کا واقعہ اُس خط میں لکھا تھا اور ایلچی نے زبانی بھی بیان کیا ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے فاروق اعظمؓ سے کہا کہ لوگ آپ سے بہت ڈرتے ہیں اور آپ کی طرف نگاہ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتے اور نہ آپ کے سامنے لب ہلاسکتے ہیں،فاروق اعظمؓ نے فرمایا کہ واللہ جس قدر یہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں اس سے زیادہ میں ان لوگوں سے ڈرتا ہوں۔ فاروق اعظمؓ نے صوبوں کے عاملوں اور گورنروں کو حکم دے رکھا تھا کہ ایام حج میں سب آکر شریک حج ہوں، آپ خود بھی ہر سال حج کو جاتے رہے عاملوں کے شریک حج کرنے میں ایک خاص مصلحت یہ تھی کہ حج کے موقعہ پر ہر ملک اور ہر صوبے کے لوگوں کو موقع حاصل ہے کہ وہ آکر مجھ سے ملیں اور اپنے عامل میں اگر کوئی نقص دیکھتے ہیں تو اس کی شکایت کریں اوراسی وقت اس عامل سے بھی جو وہاں موجود ہے جواب طلب کیا جاسکے،اس طرح عاملوں کو اپنی عزت بچانے کا بہت خیال رہتا تھا کہ اگر ذرا سی بھی لغزش ہوگئی تو حج کے مجمع عام میں بڑی فضیحت ورسوائی ہوگی،آپ مساوات وجمہوریت کے حقیقی مفہوم سے واقف اوراس کو قائم کرنا چاہتے تھے،نہ یہ کہ آپ آج کل کی یورپی جمہوریت کے دلدادہ تھے،جو تعلیم اسلامی اور اُصولِ اسلامی کے خلاف ہے،ایک مرتبہ سر منبر ایک عورت نے آپ کو ٹوک دیا اورآپ کے قول کو غلط بتایا،عورت نے چونکہ صحیح بات کہی تھی،لہذا آپ نے مجمع عام میں فوراً اپنی غلطی کو تسلیم کرلیا، آج کل جبہ پوش نفس پرور مولویوں کی طرح اپنے قول کو صحیح ثابت کرنے کے لئے تاویلیں اور دوراز حقیقت باتیں بنانے کی مطلق کوشش نہیں کی۔