انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** منافقین ان یہودیو ں کے علاوہ مسلمانوں کی مخالفت کے لئے ایک نیا گروہ بھی پیدا ہو گیا تھا، اوس وخزرج کے قبیلوں کے اکثر افراد تو دل سے مسلمان ہو گئے تھے مگر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنھوں نے دل سے اسلام قبول نہ کیا تھا، بلکہ وقتی مصالح اور آئندہ کی توقعات کی بناء پر انھوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا تھا، ان میں سے بعض پکے کافر تھے، مسلمانوں کے راز معلوم کرنے اور ان کی جماعت میں گھس کر فتنہ برپا کرنے اور نازک موقعوں پر ان کو دغا دے کر ان میں کمزوری پیدا کرنے کے لئے وہ مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوگئے تھے اور بعض مذبذب تھے، دونوں طرف سازباز رکھتے تھے ، مسلمانوں کا غلبہ اور فتح دیکھتے تو اِدھر جھک جاتے اور تکالیف و مصائب کاسامنا کرنا پڑتا تو اُدھر ڈھل جاتے ، مقصد یہ تھا کہ اگر اسلام و کفر کی اس کشمکش میں اسلام کو غلبہ حاصل ہو تو یہ بھی اپنا حق وصول کر سکیں، قرآن مجید میں اِن کے متعلق فرمایا گیا: " بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور وہ (دل سے) مومن نہیں ہیں، اللہ کو اور سچے مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں، حالانکہ(اس طرح) وہ اپنے ہی آپ کو دھوکہ میں ڈالتے ہیں اور سمجھتے نہیں" ( سورہ بقرہ : ۸ ‘ ۹ ) گو کہ آنحضرت ﷺکو ان کی مکاری ، عیّاری اور فتنہ انگیزی کا علم ہوتا رہتا تھا مگر آپﷺ ان سے مسلمانوں ہی جیسا برتاؤ کرتے تھے، ان کا سردار عبداللہ بن اُبیّ بن سلول تھا،یہ انصار کے دونوں قبیلو ںمیں اپنا اثر رکھتا تھا،حضورﷺ کے مدینہ تشریف لانے سے قبل دونوں اسے اپنا بادشاہ بنانے کے لئے تیار ہو گئے اور اس کی تاجپوشی کی رسم ادا ہونے والی تھی مگر حضورﷺ کے مدینہ تشریف لانے اور انصار کے اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو جانے کے بعد یہ سب بنا بنایا کھیل بگڑ گیا، عبداللہ بن اُبی ّ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی عزت دیکھ کر دل ہی دل میں جلتا تھا اور اپنی امیدوں پر پانی پھر جانے پر ہاتھ ملتا تھا، کبھی کبھی اس کے دل کا کھوٹ ظاہر بھی ہو جاتا تھا۔ عبداللہ بن اُبی ّ کی اسلام دشمنی کا یہی حا ل ساری عمر رہا مگر رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق کریمانہ بھی دیکھئے، جب اس کا آخری وقت آیا تو اس نے اپنے کفن کے لئے حضورﷺ کا کرتہ مانگا اور حضورﷺ نے کرتہ عنایت فرمایا، پھر اس کے بیٹے کی درخواست پر جو سچے مسلمان تھے اس کی نماز جنازہ بھی پڑھا دی مگر بعد میں حضورﷺ کو اس کی ممانعت کر دی گئی۔ اسی زمانہ میں قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد ؓ بن معاذ خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے مکہ معظّمہ گئے ، امیہ بن خلف سردارِ قریش ان کا پرانا دوست تھا،یہ اسی کے ہاں مہمان ہوئے اور اس کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ کا طواف کر نے کے لئے نکلے، مسلمانوں کے مشہور دشمن ابو جہل نے ان کو دیکھ لیا، اس نے غصہ میں حضرت سعد ؓ سے کہا،تم نے بد دین لوگوں کو اپنے شہر میں پناہ دی ہے میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ تم مکہ میں آؤ، خدا کی قسم اگر تم اُمیہ کے ساتھ نہ ہوتے تو زندہ بچ کر نہیں جا سکتے تھے،حضرت سعدؓ نے جواب دیا، اگر تم نے ہم کو کعبہ کی زیارت سے روکا تو ہم تمہارا مدینہ کا راستہ جہاں سے تمہارے شامی تجارت کے قافلے گزرتے ہیں روک دیں گے۔