انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنت کی نہریں پانی، دودھ، شراب اور شہد کی نہریں: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ۔ (البقرۃ:۲۵) ترجمہ:بہشتیں ہیں کہ چلتی ہوں گی ان کے نیچے سے نہریں۔ فِيهَا أَنْهَارٌ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِنْ لَبَنٍ لَمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِنْ خَمْرٍ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ وَأَنْهَارٌ مِنْ عَسَلٍ مُصَفًّى وَلَهُمْ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ۔ (محمد:۱۵) ترجمہ:اس (جنت) میں بہت سی نہریں توایسے پانی کی ہیں جس میں ذرا تغیرنہیں ہوگا (نہ بومیں نہ رنگ میں نہ مزہ میں) اور بہت سی نہریں دودھ کی ہیں جن کا ذائقہ ذرابدلا ہوا نہ ہوگا اور بہت سی نہریں شراب (طہور) کی ہیں کہ پینے والوں کوبہت لذیذ معلوم ہوگی اور بہت سی نہریں شہد کی ہیں جوبالکل (میل کچیل سے پاک) صاف ہوگا اور ان کے لیے وہاں ہرقسم کے پھل ہوں گے اور مغفرت ہوگی ان کی رب کی طرف سے ۔ (حادی الارواح:۳۴۷) دنیا اور آخرت کی شراب میں فرق: فائدہ: علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ (اس آیت میں) اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ چار قسمیں بیان کی ہیں اور ان میں سے ہرایک سے ہروہ آفت دور فرمائی جواس کودنیا میں لاحق ہوتی ہیں؛ پس پانی کی آفت یہ ہے کہ زیادہ دیرتک ٹھہرے رہنے سے خراب اور بدمزہ اور خراب رنگ ہوجاتا ہے اور دودھ کی آفت یہ ہے کہ اس کا ذائقہ بدل کرکڑوا اور کھٹا ہوجاتا ہے اور لوتھڑے بن جاتا ہے اور شراب کی آفت یہ ہے کہ پینے کی لذت میں ذائقہ کی چاشنی بگڑی ہوتی ہے اور شہد کی آفت اس کا صاف نہ ہونا ہے (مذکورہ آیت میں) یہ اللہ رب العزت کی آیات میں سے ہے کہ اس نے اسی قسم کی نہریں جاری فرمائیں کہ ویسی دنیا میں جاری نہیں کیں، ان کوبغیر گڑھوں کے جاری کردیا اور ان کوان آفات سے محفوظ کردیا جوکمال لذت کی نفی کرتی تھیں جس طرح سے جنت کی شراب سے ان تمام آفات کی نفی فرمائی جودنیا کی شراب میں تھیں، جیسا کہ یہ دردسر، مدہوشی، یاوہ گوئی اور بدمستی، بے لذتی کوپیدا کرتی ہے پس یہ پانچ آفات ہیں جودنیا کی شراب میں موجود ہوتی ہیں، اس کا ذائقہ بھی بدمزہ ہوتا ہے اور شیطان کے کاموں میں سے ایک پلید کام ہے، لوگوں کے درمیان دشمنی اور بغض پیدا کرتا ہے، اللہ کے ذکر اور نماز سے رکاوٹ بنتا ہے، زنا کی دعوت دیتا ہے، بسااوقات بیٹی، بہن اور محرمات سے گناہ پربرانگیختہ کرتا ہے۔ غیرت کا صفایا کردیتا ہے ذلت، ندامت اور شرمندگی کا باعث ہے، اس کا پینے والا گھٹیا ترین انسان بن جاتا ہے، اس وجہ سے یہ لوگ دیوانے ہوجاتے ہیں، ان سے ان کا نیک نام اور نیک نامی کوسلب کرلیتی ہے اور بدنامی اور بری عادات کا لباس پہنادیتی ہے اور قتل نفس کواور افشائے راز کوجس سے دکھ اور ہلاکت جان کا خطرہ ہوآسان کردیتی ہے اور مال جس کواللہ نے بندہ کے لیے اور اس کے اہلِ وعیال کے لیے زندگی گزارنے کا وسیلہ بنایا تھا کوفضول خرچ کراکرشیطان کا بھائی بناتی ہے، خفیہ باتوں پررسوا کرتی ہے، بھیدوں کوظاہر کرتی ہے، شرمگاہوں کے راستے دکھاتی ہے، گندے کام اور گناہوں کے ارتکاب کوہلکا پھلکا کردیتی ہے، دل سے محرموں کی تعظیم کوخارج کردیتی ہے، شراب کا عادی بت پرست کی طرح ہے، اس شراب نے کتنی جنگیں بھڑکائی ہیں، کتنے امیروں کوفقیر بنادیا ہے اور کتنے عزت والوں کورسوا کیا ہے اور کتنے شریفوں کوکمینہ بنایا ہے اور کتنی نعمتیں چھینی ہیں اور کتنے انتقام لیے ہیں، کتنی محبتوں پرپانی پھیرا ہے، کتنی عداوتیں استوار کی ہیں۔ کتنے آدمیوں کے اور اس کے محبوبوں کے درمیان جدائی پیدا کی اور دیوانہ کرگئی، عقل لے گئی، کتنی حسرتوں کوجنم دیا اور کتنے آنسوں بہائے اور پینے اور خواہش کی تکمیل کرنے میں جلدی کرائی (یاجلدی سے موت کے گھاٹ اتارا) اور کتنی رسوائیوں میں مبتلا کیا اور شرابی پرمصیبتوں کے پہاڑ ڈھائے اور بیوقوفیوں کے کام کرائے بہرحال یہ بہت سے گناہوں کواپنے اندر لیے ہوئے ہیں اور شروں کا دروازہ اور نعمتوں کے چھن جانے کا سبب اور عذابوں کی مستحق بنانے والی ہے اور اگراس کی برائیوں میں سوائے اس کے اور کچھ نہ ہوتا کہ دنیا کی شراب اور جنت کی شراب کسی بندہ کے پیٹ میں جمع نہیں ہوں گی جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِي الدُّنْيَا لَمْ يَشْرَبْهَا فِي الْآخِرَةِ۔ (مسلم، كِتَاب الْأَشْرِبَةِ،بَاب عُقُوبَةِ مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ إِذَالَمْ يَتُبْ مِنْهَا بِمَنْعِهِ إِيَّاهَا فِي الْآخِرَةِ،حدیث نمبر:۳۷۳۸، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جس نے دنیا میں شراب پی وہ اس کوآخرت میں نہیں پی سکے گا۔ تویہ بھی کافی ہوتی۔ (حادی الارواح:۲۳۷،۲۳۸) نہروں کے پھوٹنے کی جگہ: حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أَنْهَارُ الْجَنَّةِ تَفَجَّرُ مِنْ جَبَلِ مِسْكٍ۔ (البدورالسافرہ:۱۹۱۱۔ ابن حبان:۱۰/۲۴۹) ترجمہ:جنت کی نہریں مشک (کستوری) کے پہاڑ سے پھوٹتی ہیں۔ نہروں کے نکلنے کی حالت: حدیث:حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إن أنهار الجنة تشخب من جنة عدن في حوبة ثم تصدع بعد أنهارا۔ (البدورالسافرہ:۱۹۱۲،بحوالہ :ابن مردویہ والضیاء۔ حادی الارواح:۲۴۱) ترجمہ:جنت کی نہریں جنت عد سے نکل کر گڑھے میں پڑتی ہیں پھر بعد میں نہروں کی دکل اختیار کرتی ہیں۔ نہریں بغیر گڑھوں کے چلتی ہوں گی: حدیث:حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَعَلَّكُمْ تَظُنُّونَ أَنَّ أَنْهَارَ الْجَنَّةِ أُخْدُودٌ فِي الْأَرْضِ، لَاوَاللَّهِ إِنَّهَا لَسَائِحَةٌ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، حَافَّتَهَا خیَامَ اللُّؤْلُؤُ وَطِينُهَا الْمِسْكُ الْأَذْفَرُ، قُلْتُ: یَارَسُوْلُ اللہِ مَاالْأَذْفَرُ؟ قَالَ: الَّذِي لَاخِلْطَ مَعَہُ۔ (حلیۃ ابونعیم:۶/۲۰۵۔ بدورالسافرہ:۱۹۱۴، بحوالہ: ابن مردویہ والضیاء) ترجمہ:شاید تم سمجھتے ہوکہ جنت کی نہریں زمینی گڑھوں میں چلتی ہوں گی، نہیں اللہ کی قسم! وہ توزمین کی پشت پربہتی ہیں، ان کے کنارے لؤلؤ کے خیموں کے ہیں ان کی مٹی کستوری کی ہے جواذفر کی ہے میں نے عرض کیا یارسول اللہ! اذفر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: خالص (کستوری) جس میں کسی اور چیز کی ملاوٹ نہ ہو۔ چاروں نہروں کے چار سمندر: حدیث:حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سرے روایت ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَحْرَ الْمَاءِ وَبَحْرَ الْعَسَلِ وَبَحْرَ اللَّبَنِ وَبَحْرَ الْخَمْرِ ثُمَّ تُشَقَّقُ الْأَنْهَارُ بَعْدُ۔ (ترمذی، كِتَاب صِفَةِ الْجَنَّةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي صِفَةِ أَنْهَارِ الْجَنَّةِ،حدیث نمبر:۲۴۹۴، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جنت میں ایک سمندر پانی کا ہے، ایک سمندر شہد کا ہے، ایک سمندردودھ کا ہے اور ایک سمندر شراب کا ہے؛ پھرانہیں سے بعد میں نہریں پھوٹتی ہیں۔ نہروں کے پھوٹنے کی جگہ: حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ أَعَدَّهَا اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ لِلْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِهِ بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمْ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ فَسَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّهُ وَسَطُ الْجَنَّةِ وَأَعْلَى الْجَنَّةِ وَفَوْقَ عَرْشِ الرَّحْمَنِ عَزَّوَجَلَّ وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَوْتَنْفَجِرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ۔ (مسنداحمد بن حنبل، بَاقِي مُسْنَدِ الْمُكْثِرِينَ،مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،حدیث نمبر:۸۴۰۰، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ: جنت میں سودرجات ہیں جن کواللہ عزوجل نے مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے تیار فرمایا ہے، ہردودرجوں کے درمیان آسمان وزمین کے فاصلوں جتنا فاصلہ ہے؛ پس جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تواس سے جنت الفردوس مانگا کرو؛ کیونکہ یہ جنت کے درمیان میں (بلند حصہ) ہے اور سب ے اعلیٰ درجہ کی جنت ہے، اس سے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے؛ اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔ دنیا کی چار نہریں جنت سے نکلتی ہیں: حدیث:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے ارشاد فرمایا: رُفِعَتْ إِلَى سِدْرَةُ فَإِذَا أَرْبَعَۃُ أَنْہَارٍ نَھْرَانِ ظَاہِرَانِ وَنَہْرَانِ بَاطِنَانِ فَأَمَّا الظَّاھِرَانِ فَالنَّیْلُ وَالْفُرَاتُ وَأَمَّا الْبَاطِنَانِ فَنَھْرَانِ فِیْ الْجَنَّۃِ۔ (بخاری:۵۶۱۰۔ مسلم۱۶۴) ترجمہ:میرے سامنے سدرۃ المنتہیٰ کو (ساتویں آسمان پر) پیش کیا گیا تو (میں نے دیکھا کہ اس سے) چار نہریں نکل رہی تھیں دوظاہر میں اور دوباطن میں ظاہر کی دوتو(نہر) نیل اور (نہر) فرات ہیں اور دوباطن کی جنت کی دونہریں ہیں۔ ہرمحل میں چار نہریں: ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فِیْ کُلِّ قَصْرِ مِنْ قُصْوْرِ الْجَنَّۃِ أَرْبَعَۃَ أَنْہَارٍ، نَھْر مِنْ مَاءٍ مَعِیْنٍ، وَنَھْر مِنْ خمر معین، وَنَھْر مِنْ لَبَن مَعین وَنَہْر مِنْ عَسْل مَعَیْن، وَلَایَشْرَبُ مِنْہَا حَتَّی یَمْزَج بِالْعُیُوْنِ الَّتِیْ سمَاہَا اللہ تَعَالَی: التسنیم وَالزَّنْجَبِیْل وَالسلسبِیْل وَالْکَافُوْر وَھِی الَّتِیْ یَشْرب بِہَا الْمُقَرَّبُوْنَ مِنْہَا صَرْفًا۔ (وصف الفردوس:۲۶) ترجمہ: جنت کے محلات میں سے ہرمحل میں چار نہر چلتی ہوں گی، ایک نہر پانی کی چلتی ہوگی ایک نہر شراب کی چلتی ہوگی، ایک نہر دودھ کی چلتی ہوگی اور ایک نہر شہد کی چلتی ہوگی اور ان سے اس وقت تک نہیں پیا جائے گا جب تک کہ ان میں ان چشموں کونہ ملایا جائے گا جن کا اللہ تعالیٰ نے (قرآن کریم میں) ذکر فرمایا ہے (یعنی) تسنیم اور زنجبیل اور سلسبیل اور کافور اور یہ (چاروں) وہ چشمے ہیں جن کوخالص طور پر (بغیرملاوٹ کے) صرف مقربان خداوندی ہی نوش کریں گے۔ نہرکوثر: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (الکوثر:۱) ترجمہ: ہم نے آپ کوکوثر عطاء فرمائی۔ دونوں کناروں پرلؤلؤ کے قبے ہیں: حدیث:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بَيْنَمَا أَنَاأَسِيرُ فِي الْجَنَّةِ إِذَاأَنَابِنَهَرٍ حَافَتَاهُ قِبَابُ الدُّرِّ الْمُجَوَّفِ قُلْتُ مَاهَذَا يَاجِبْرِيلُ قَالَ هَذَا الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَ رَبُّكَ فَإِذَا طِينُهُ أَوْطِيبُهُ مِسْكٌ أَذْفَرُ شَكَّ هُدْبَةُ۔ (بخاری، كِتَاب الرِّقَاقِ،بَاب فِي الْحَوْضِ،حدیث نمبر:۶۰۹۵، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: میں ایک دفعہ جنت کی سیر کررہا تھا کہ میں ایک نہرپرپہنچا جس کے دونوں کناروں پرخولدار لؤلؤ کے قبے تھے، میں نے پوچھا اے جبریل! یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا یہ کوثر (نہر) ہے جوآپ کے رب نے آپ کوعطاء فرمائی ہے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پھرایک فرشتہ نے اپنا ہاتھ(نہر) پار مارا تواس کی مٹی خالص کستوری کی (نظرآرہی) تھی۔ درویاقوت پرچلتی ہے: حدیث: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الْكَوْثَرُ نَهْرٌ فِي الْجَنَّةِ حَافَّتَاهُ مِنْ ذَهَبٍ وَمَجْرَاهُ عَلَى الدُّرِّ وَالْيَاقُوتِ تُرْبَتُهُ أَطْيَبُ مِنْ الْمِسْكِ وَمَاؤُهُ أَحْلَى مِنْ الْعَسَلِ وَأَبْيَضُ مِنْ الثَّلْجِ۔ (ترمذی، كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْكَوْثَرِ،حدیث نمبر:۳۲۸۴، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:کوثر جنت میں ایک نہرہے، اس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں، اس کے چلنے کا راستہ گوہر اور یاقوت ہے، اس کی مٹی کستوری سے زیادہ پاکیزہ ہے، اس کا پانی شہد سے میٹھا اور برف سے زیادہ سفید ہے۔ سترہزار فرسخ (۵۶۰۰۰۰ کلومیٹر) گہری ہے: حدیث: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کوثر نہر میں ایک جنت ہے جس کی گہرائی سترہزار فرسخ (۵۶۰۰۰۰ کلومیٹر) ہے، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہے، شہد سے زیادہ میٹھا ہے، اس کے دونوں کنارے لؤلؤ، زبرجد اور یاقوت کے ہیں سب انبیاء کرام سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس کواپنے ایک نبی (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص کردیا ہے)۔ (البدورالسافرہ:۱۹۱۶۔، بحوالہ ابن ابی الدنیا ولکن فیہ بغیر ہذااللفظ۔ ترغیب وترہیب:۴/۵۱۷) کوثر کی آواز: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے جوشخص اس کے چلنے کی آواز سننے کوپسند کرے تووہ اپنی انگلیوں کواپنے کانوں میں دے (کراس کی آواز کا اندازہ) کرلے۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا) کوثر کے برتنوں کی کثرت: حدیث: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: هَلْ تَدْرُونَ مَاالْكَوْثَرُ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّهُ نَهْرٌ وَعَدَنِيهِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فِي الْجَنَّةِ وَعَلَيْهِ خَيْرٌ كَثِيرٌ عَلَيْهِ حَوْضٌ تَرِدُ عَلَيْهِ أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ آنِيَتُهُ عَدَدُ الْكَوَاكِبِ۔ (ابوداؤد، كِتَاب السُّنَّةِ،بَاب فِي الْحَوْضِ،حدیث نمبر:۴۱۲۲، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:کیا تمھیں معلمو ہے کہ کوثر کیا چیز ہے؟ ہم (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین) نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں (آپ نے ارشاد فرمایا) یہ ایک نہر ہے میرے پروردگار جل شانہ نے مجھے اس کے عطاء کرنے کا وعدہ فرمایا اس میں انتہا درجہ کی خیر ہے، قیامت کے دن میری امت اس کے پاس آئے گی (اور اس کے حوضِ کوثر سے پانی نوش کرے گی) اس کے برتن ستاروں کی تعداد کے برابر ہیں۔ حوضِ کوثر کی تفصیل: حدیث: حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حَوْضِي مَابَيْنَ صَنْعَاءِ إِلَى أَلْاردنِ مَاؤہُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنْ اللَّبَنِ وَأَحْلَى مِنْ الْعَسَلِ وَالْیَنَّ مِنَ الزبْدِ حَافَاتِہِ فَتَاتِ الدر وَالْیَاقُوْت، وَحصبَاؤہُ اللؤلؤ، وَتَرابہ المسک الاذْفَرف فِیْہِ اقداح كَعَدَدِ نُجُومِ مَنْ شَرِبَ مِنْهُ شَرْبَةً لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهَا أَبَدًا۔ (وصف الفردوس:۶۷) ترجمہ:میرا حوض صنعاء سے اردن تک طویل ہے، اس کا پانی دودھ سے بہت زیادہ سفید ہے اور شہد سے بہت زیادہ شیریں ہے اور جھاگ سے بہت زیادہ نرم ہے، اس کے کنارے جوہر اور یاقوت کے ٹکڑوں کے ہیں اور اس کے کنکر لؤلؤ کے ہیں، اس کی خاک خالص کستوری کی ہے اس کے ستاروں کی تعداد میں پیالے ہیں، جوشخص اس سے ایک بار پئے گا پھروہ کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ نہربیدخ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک نہر ہے جس کا نام بیدخ ہے، اس پریاقوت کے قبے ہیں جن کے نیچے لڑکیاں اگتی اور خوبصورت آواز میں قرآن پڑھتی ہیں جنتی آپس میں کہیں گے ہمارے ساتھ بیدخ کی طرف چلو، چنانچہ وہ آ:یں گے اور لڑکیوں سے مصافحے کریں گے جب کوئی لڑکی کسی مرد کوپسند آئے گی تووہ اس کی کلائی کوچھولے گا تووہ لڑکی اس کے پیچھے چل پڑے گی اور اس کی جگہ دوسری لڑکی اُگ آئے گی۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۶۹) حضرت معتمر بن سلیمان فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک نہر ہے جولڑکیاں اگاتی ہے۔ (زہدامام احمد کتاب المدیح دارقطنی، البدورالسافرہ:۱۹۲۴) شمر بن عطیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جنت میں کچھ نہریں ایسی ہیں جولڑکیاں اگاتی ہیں یہ لڑکیاں مختلف آوازوں میں اللہ جل شانہ کی حمدوثناء کرتی ہیں کہ ویسی خوبصورت آوازیں کانوں نے کبھی نہیں سنی وہ کہتی ہیں: ؎ نَحْنُ الْخَالِدَاتُ فَلَانَمُوتُ وَنَحْنُ الْکَاسِیَاتُ فَلَانَعْرَیٰ وَنَحْنُ النَّاعِمَاتُ فَلَانَجُوْعُ وَنَحْنُ النَّاعِمَاتُ فَلَانَبْأَسُ ترجمہ: ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں کبھی نہیں مریں گی ہم لباس پہننے والیاں ہیں کبھی بے لباس نہ ہوں گی، ہم ہمیشہ نعمتوں میں پلنے والیاں ہیں کبھی بھوکی نہ ہوں گی اور ہم ہمیشہ نعمتوں میں رہنے والیاں ہیں کبھی رنج وتکلیف میں نہ جائیں گے۔ فائدہ: شہداء کوجب اس میں غوطہ دیا جائے گا تویہ اچھی طرح سے صاف ستھرے ہوکر چودھویں کے چاند کی طرح چمکتے ہوئے نظر آئیں گے تفصیل کے لیے اس کتاب کا عنوان کھانے پینے کے برتن کوملاحظہ فرمائیں۔ نہرہروَل: حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إن في الجنة نهرا يقال له: الهرول، على حافتيه أشجار نابتات، فإذااشتهى أهل الجنة السماع يقولون: مروا بنا إلى الهرول فنسمع الأشجار، فتنطق بأصوات لولا أن الله عزوجل قضى على أهل الجنة أن لايموتوا لماتوا شوقا وطربا إلى تلك الأصوات قال: فإذا سمعتهن الجواري قرأن بالعربية، فيجيء أولياء الله إليهن، فيقطف كل واحد منهن مااشتهى ثم يعيد الله تعالى مكانهن مثلهن۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۳/۱۶۳) ترجمہ:جنت میں ایک نہر ہے جس کا نام ہرول ہے اس کے دونوں کناروں پردرخت اُگے ہوئے ہیں جب جنتی سماع کی خواہش کریں گے توکہیں گے ہمارے ساتھ ہرول کی طرف چلو تاکہ ہم درختوں سے (خوبصورت اور دلکش آوازیں) سنیں چنانچہ وہ ایسی (خوبصورت) آوازوں میں بولیں گے کہ اگراللہ عزوجل نے جنتیوں کے نہ مرنے کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تویہ ان آوازوں کے شوق اور طرب میں مرجاتے؛ پس جب ان خوبصورت آوازوں کو (درختوں پرلگی ہوئی) لڑکیاں سنیں گی تووہ عربی زبان میں (نہایت خوبصورت انداز وآواز میں) (کچھ) پڑھیں گی تواللہ کے ولی ان کے قریب جائیں گے اور ہرایک ان لڑکیوں میں سے جس کوپسند کریگا توڑ لے گا پھراللہ تعالیٰ ان لڑکیوں کی جگہ ویسی ہی اور لڑکیاں (اس درخت کو) لگادیں گے۔ شراب کی نہر: حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من سره أن يسقيه الله مِنَ الخمرة في الآخرة فليتركها في الدنيا۔ (نہایہ ابن کثیر:۲/۳۶۲) ترجمہ:جس شخص کویہ بات اچھی لگے کہ اللہ تعالیٰ اس کو آخرت (جنت) میں شراب (طہور) پلائے تواس کوچاہیے کہ وہ اس (شراب) کودنیا میں چھوڑدے (نہ پئے)۔ فائدہ:جوشخص دنیا میں شراب پینے کے بعداس سے توبہ کرلے تووہ شخص اس دھمکی سے مستثنیٰ ہوگا۔ (تذکرۃ القرطبی:۲/۴۴۹)