انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حدیث کی شرعی حیثیت کتاب اللہ کے بعد رسول اللہؐ کی سنت شریعت کا دوسرا سرچشمہ اور اصل واساس ہے، یہ قرآن کریم کی تشریح اور اس کے اصول کی توضیح اور اجمال کی تفصیل ہے، ان دونوں کے علاوہ تیسری اور چوتھی اصل وبنیاد، اجماع امت اور قیاس ہے اور ان چاروں اصولوں کا مرجع خود رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی ہے، شمس الائمہؒ کہتے ہیں، شریعت کی تین حجتیں (بنیادیں) ہیں، کتاب اللہ، سنت اور اجماع، چوتھی بنیاد قیاس ہے، جو ان تینوں سے نکلی ہوئی ہیں؛ اگرغور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ ان تمام اصولوں کی بنیاد صرف رسول اللہﷺ سے نقل وسماع ہے، قرآن کریم بھی رسول اللہﷺ ہی کے ذریعہ ملا ہے؛ انھوں نے ہی بتلایا اور آیات کی تلاوت کی ،جوبطریقۂ تواتر ہم تک پہنچا ہے (اصول السرخسی:۱/۲۷۹) اور اجماع امت اور قیاس بھی آپﷺ کے ارشاد ہی کی وجہ سے معتبر ہیں توجب دین کی بنیاد رسول اللہﷺکی ذاتِ گرامی ٹھہری تو پھر عبادت واطاعت کے معاملہ میں حدیث وقرآن میں فرق کرنا بے بنیاد ہے؛ کیونکہ یہ دونوں اطاعت میں برابر ہیں؛ البتہ حجت دین کے بارے میں دونوں میں فرق یہ ہے کہ قرآن کی نقل بہ طریقۂ تواتر ہے، جوہرطرح کے شک وشبہ سے بالاتر ہے اور علم قطعی کی موجب ہے اور حدیث اس حیثیت سے کہ ارشاد رسول ہے، حجت قطعی ہے؛ البتہ رسول سے ہم تک پہونچنے میں جودرمیانی وسائط ہیں، ان کی وجہ سے احادیث کا ثبوت اس درجہ قطعی نہیں ہے، جس درجہ کی قطعیت قرآن کو حاصل ہے۔ سنت کی تعریف لغت میں سنت کا لفظ طریقہ اور عادت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ امام کسائی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اس کے معنی میں دوام کی کیفیت ہے:"یقال سنت الماء اذاوالیت فی صبہ" امام خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب مطلق طور پر سنت کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے طریقہ محمود مراد ہوتا ہے اور کبھی سنت سے غیرمحمود طریقہ بھی مراد ہوتا ہے، جیسا کہ رسول اللہﷺ نے بھی فرمایا ہے: "من سن سنۃ حسنۃ فلہ اجرہا واجر من عمل بہا الی یوم القیامۃ ومن سن سنۃ سیئۃ کان علیہ وزرھا ووزر من عمل بہا الی یوم القیامۃ"۔ (السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۴۷۔ البحوث الاسلامیہ:۲/۲۳۴) ترجمہ:جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا تواس کا اجر اورقیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کا اجروثواب ملے گا اور جس نے غلط رواج قائم کیا تو اسے اس عمل کا گناہ اور قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ اسے ہوگا۔ لیکن محدثین اور فقہاء جب سنت کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے رسول اللہﷺ کی طرف منسوب قول وفعل مراد ہوتا ہے؛ چنانچہ محدثین سنت کی یہ تعریف کرتے ہیں "ھی ماصدر عن النبیﷺ قول اوفعل أوتقریر" (مقدمہ شیخ عبدالحق دھلویؒ:۳) مگرفقہاء سنت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں توان کے یہاں قول وفعل اور تقریر کے علاوہ صحابہ کرام کے اقوال اور افعال بھی مراد ہوتے ہیں، امام سرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "والمراد بھا شرعاً ماسنہ رسول اللہﷺ والصحابۃ بعدہ عندنا"۔ (السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۴۷) قولِ رسول قولِ رسول سے مراد ہروہ لفظ ہے جورسول اللہﷺ کی زبان سے بیداری کی حالت میں نبوت کے بعد قرآن کے علاوہ ادا ہوا ہو، اس کی مثال حضورﷺ کا ارشاد ہے: انماالاعمال بالنیات، البیّعان بالخیار مالم یتفرقا۔ (السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۴۷) فعلِ رسول سنت میں افعالِ رسول بھی داخل ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرمﷺ کو امام ومقتدیٰ بناکر ان کی اتباع کا حکم دیا ہے، ارشادِ خداوندی ہے "وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ" (نبی) کا اتباع کرو؛ تاکہ تم راہِ راست پر آجاؤ۔ (الاعراف:۱۵۸) "لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ"۔ (الاحزاب:۲۱) ترجمہ:تم لوگوں کے لیے رسول اللہ کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا۔ اس لیے علماء اصول نے سنت قولیہ کے ساتھ سنت فعلیہ کو بھی بیان کیا ہے؛البتہ سنت قولیہ مقدم ہے اور سنت فعلیہ مؤخر ،یہی وجہ ہے کہ علماء اصول اسے ملحق بالسنۃ کہتے ہیں۔ (السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۴۷) تقریرِ رسول حضورﷺ نے کسی چیز کو کرتے ہوئے دیکھا اور اس پر سکوت فرمایا تو یہ اس کے صحیح ہونے پر دلیل ہوگی اور یہ اس بات پر دلالت کرے گا کہ بیان وضاحت کے موقع پر سکوت حقیقۃ بیان ہی ہے، علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے سنت سکوتی کے بارے میں لکھا ہے: "وصورته أن يسكت النبيﷺ عن إنكار قول قيل بين يديه أوفي عصره وعلم به، أويسكت عن إنكار فعل فعل بين يديه أوفي عصره وعلم به، فإن ذلك يدل على الجواز"۔ (ارشادالفحول:۸۹) ترجمہ:سنت سکوتی کی صورت یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کے سامنے کچھ کہا گیا، یاآپﷺ کے زمانے میں کہا گیا اور آپﷺ کومعلوم ہوا مگراس پر نکیر کرنے سے آپ خاموش رہے؛ اسی طرح آپﷺ کے سامنے یاآپﷺ کے عہد میں کوئی عمل ہوا اور آپﷺتک اس کی خبر پہنچی مگرآپﷺ نے اس پر نکیر نہیں کی تو یہ جواز پر محمول ہوگا۔ مثلاً غزوہ بنی قریظہ کے موقع پر جب صحابہ کرام نے عصر کی نماز کے سلسلے میں اجتہاد کیا تھا جب کہ آپﷺ کا حکم تھا "لَايُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّافِي بَنِي قُرَيْظَةَ" (بخاری، كِتَاب الْجُمُعَةِ، بَاب صَلَاةِ الطَّالِبِ وَالْمَطْلُوبِ رَاكِبًا وَإِيمَاءً:۲/۵۹۱) تم میں سے کوئی شحص نماز نہ پڑھے مگربنی قریظہ میں جاکر؛ چنانچہ بعض صحابہ نے اس کو حقیقت پر محمول کیا اور انھوں نے مغرب کی نماز کوموخر کیا اور بنوقریظہ پہنچ کر نماز ادا کی، جب کہ دوسرے بعض صحابہ نے یہ سمجھا کہ اس حکم سے مراد جلدی جانے پر ابھارنا ہے توانھوں نے راستہ ہی میں وقت پر نماز پڑھ لی، جب حضورﷺ کودونوں فریقوں کے اجتہاد کا پتہ چلا توآپﷺ نے خاموشی اختیار کی اور کسی پر نکیر نہیں کی۔ (السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۴۷) حدیث کے بغیر چارہ نہیں امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ کتاب اللہ کا وہ علم صحیح ہے جوسنت کے طریقے سے حاصل کیا گیا ہو، فقہ وشرائع میں بھی طریق سنت کوپیش نظر رکھنا لازم اور ازبس ضروری ہے اور جولوگ صرف قرآن مجید پر اکتفا کرتے ہیں اور اس کے فہم وبیان میں سنت سے مدد نہیں لیتے وہ گمراہ ہیں، راہِ حق سے دور ہیں اور اس کے کئی وجوہ ہیں۔ ۱۔قرآن کریم کی نصوصِ واردہ سے، طاعتِ رسول کا وجوب ثابت ہے اور ظاہر ہے، طاعت ِرسول اسی وقت ممکن ہے، جب اتباعِ رسول کامل ہو اور جس طرح رسولﷺ کی زندگی میں ان سے حکم حاصل کرنا ایک دینی امر تھا اسی طرح رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد آپ کے مرویات پر عمل کرنا لازمی ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ مخالفت رسول سے ڈراتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْيُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ"۔ (النور:۶۳) ترجمہ: جولوگ امررسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں خائف رہنا چاہیے کہ مبادہ وہ کسی مصیبت میں نہ پھنس جائیں یاعذابِ الیم میں گرفتار نہ ہوجائیں۔ ۲۔نیزاس قسم کی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دین کاتفقہ ازروئے سنت ضروری ہے؛ اسی طرح فہم قرآن کے لیے بھی حدیث کی مساعدت لازمی ہے، خود احادیث میں ایسی بہت سے دلیلیں وارد ہیں جوصرف کتاب اللہ پر اکتفا نہ کرنے اور حدیث سے رہنمائی حاصل کرنے کو واجب قرار دیتی ہیں؛ چنانچہ روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا:ایک زمانہ ایسا آئےگا کہ تم میں سے کوئی شخص مسہری پر تکیہ لگاکر بیٹھے گا اور میری حدیث بیان کرتے ہوئے کہے گا، ہمارے اور تمہارے درمیان خدا کی کتاب کافی ہے، خبردار! رسول اللہﷺ نے جوکچھ حرام کردیا وہ ایسا ہی ہے جیسے اللہ نے حرام کیا ہے۔ (مشکوٰۃ شریف:۲۹) اس حدیث سے ایک نئی بات یہ معلوم ہوئی کہ احادیث میں بھی مستقل احکام ہیں، احادیث صرف قرآن کی تفسیر وتوضیح نہیں ہے۔ ۳۔احکام اسلامیہ کا بہت بڑا حصہ جس پر مسلمانوں کا تقریباً اجماع ہے، وہ یاتوسنت سے ماخوذ ہے یااس کی تشکیل میں سنت کا بہت زیادہ حصہ ہے، مثلاً رضاعت سے حرمت نکاح کا ثبوت یابیوی کے ساتھ اس کی چچی اور ممانی کو جمع کرنے کی حرمت حدیث پر ہی مبنی ہے۔ (السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۵۷) زکوٰۃ کے تفصیلی احکام بھی حدیث ہی میں پائے جاتے ہیں، مقادیردیات، صلح وجنگ کے احکام، معاہدات، مہادنات، عقدذمہ، وجوب وفاوغیرہ سب کی تفصیل وتشریح اور بیان حدیث ہی میں ملے گی؛ پس جوشخص سنت سے بے نیاز ہوکر فقہ کا علم حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اپنے مساعی کو رائیگاں کرتا ہے اور جوشخص یہ گمان کرتا ہے کہ قرآن اور عقل پر اکتفا کرنا کافی ہے وہ سیدھے راستے سے بھٹکتا اور راہِ ضلالت اختیار کرتا ہے۔ (السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۸۹) حدیثِ رسول قرآن کی نظر میں حدیث رسول کی اسی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "وَمَايَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىo إِنْ هُوَإِلَّاوَحْيٌ يُوحَى"۔ (النجم:۳،۴) ترجمہ:یعنی رسول اپنے جی سے نہیں بولتے، وہ بس اللہ کے پاس سے آئی ہوئی وحی ہوتی ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: "مَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"۔ (الحشر:۷) ترجمہ:جوتمھیں رسول دیں اسے لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ؛ نیز رسول کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دیا۔ "مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ"۔ (النساء:۸۰) ترجمہ:جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: "قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ"۔ (آل عمران:۳۱) ترجمہ:آپ فرمادیجئے کہ اگرتم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہوتوتم لوگ میری اتباع کرو، خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے۔ نیز جوشخص حکم رسول کو نہ مانے اسے قرآن نے مؤمن قرار نہیں دیا ہے اور قرآن میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ شخص اس دنیا میں مصیبت میں مبتلا رہے گا اور آخرت میں دردناک عذاب چکھے گا، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: "فَلَاوَرَبِّكَ لَايُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَايَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا"۔ (النساء:۶۵) ترجمہ:پھرقسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ایماندار نہ ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جھگڑے واقع ہو اس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کراویں؛ پھرآپ کے اُس تصفیہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پاویں اور پورے طور پر تسلیم کرلیں۔ امام شافعیؒ نے اپنی کتاب الرسالۃ میں آیت قرآنی "وَمَاأَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ" (البقرۃ:۲۳۱) کے بارے میں لکھا ہے کہ "اس آیت میں حکمت سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث مراد ہے؛ کیونکہ الکتاب کے ساتھ واوِعطف کے بعد حکمت کا ذکر ہے اوراللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر اس احسان کو بیان کیا ہے جو اس نے "الکتاب" قرآن کریم اور حکمت (حدیثِ رسول) کی تعلیم دے کر کیا ہے، اس لیے یہاں الحکمۃ سے حدیثِ رسول ہی مراد ہے، اس کے علاوہ کچھ اور مراد لینا درست نہیں ہے"۔ (الرسالۃ:۱/۱۳) نیز اللہ تعالی ٰنے اپنے رسول کے اوپر قرآن نازل کیا اور قرآنی آیات کی تشریح کی ذمہ داری اپنے رسول پر ڈالی، ارشادِ ربانی ہے: "وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَيْهِمْ"۔ (النحل:۴۴) ترجمہ:اور ہم نے تمہاری طرف الذکر یعنی قرآن نازل کیا؛ تاکہ تم لوگوں کے ساتھ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کو کھول کھول کر بیان کرو۔ ان تمام آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ احادیثِ رسول، اللہ کی وحی کا حصہ اور قرآن کی تفسیر ہیں، ان کے بغیر نہ دین کی صحیح تفہیم ہوسکتی ہے اور نہ دین عملی زندگی میں پوری طرح جاری ہوسکتا ہے؛ اسی لیے حضرت عمران بن حصینؓ سے ایک شخص نے جب سوال کیا اور آپ نے اس کے جواب میں حدیث سنائی تو اس نے کتاب اللہ سے جواب دینے کے لیے کہا تو آپ نے کہا "انک امرءاحمق" تم احمق آدمی ہو، کیا تم قرآن میں یہ پاتے ہو کہ ظہر کی نماز میں چار رکعات فرض ہیں، جس میں بآواز بلند قرآن پڑھا نہیں جاتا؛ اسی طرح انہوں نے مختلف نمازوں کو گنایا اور زکوٰۃ وغیرہ کا ذکر کیا؛ پھرفرمایا:کیا یہ سب تم قرآن میں تفصیل سے پاتے ہو، حقیقت یہ ہے کہ کتاب اللہ نے ان سب کواجمالاً بیان کیاہے اور سنت ہی اس کی تفصیل کرتی ہے۔ (جامع بیان العلم وفضلہ:۳/۶۲) حدیث خودرسول کی نگاہ میں خود رسول اللہﷺ نے اپنے فرمودات پر عمل کرنے اور اس کو بحفاظت تھامے رکھنے کے بارے میں کئی مواقع پرتاکید کی ہے، آپﷺ نے فرمایا: "فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ"۔ (مشکوٰۃ شریف:۳۰) تمہارے لیے میری سنت لازم ہے۔ "تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَاتَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلہِ"۔ (مشکوٰۃ شریف:۲۹) ترجمہ:میں تمہارے درمیان دوچیزوں کو چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ ہے۔ "اَلَاوَاِنِّیْ اَوْتیت الْقُرْآنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ"۔ (مشکوٰۃ شریف:۲۹) ترجمہ:یادرکھو! مجھے قرآن دیا گیا اور اس کے ساتھ اسی جیسی ایک چیز۔ "خُذُوا عَنِّي مَنَاسِككُمْ"۔ (فتح الباری:۱/۲۹۰) ترجمہ:حج کے ارکان مجھ سے سیکھو۔ حدیث اصحابِ رسول کی نگاہ میں اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک مرتبہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہﷺ نے کہا:اللہ کی لعنت ہو ان عورتوں پر جو گودنا کراتی یاکرتی ہیں اور ان پر جو چہرے کے بال اکھڑواتی ہیں اور حسن وزیبائی کے لیے دانتوں کے درمیان دراڑ پیدا کرکے اللہ کی تخلیق میں تغیر کرتے ہیں، اس حدیث کو بنواسد کی ایک عورت نے سنا توحضرت عبداللہ بن مسعود سے کہا آپ کی یہ روایت مجھ تک پہنچی ہے اور معلوم ہوا کہ آپ فلاں فلاں قسم کی عورتوں پر لعنت کرتے ہیں، حضرت عبداللہ نے کہا میں اس پر کیسے لعنت نہ کروں جس پر رسول اللہﷺ نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ میں موجود ہے، عورت نے کہا میں نے بھی قرآن پڑھا ہے؛ لیکن مجھے تواس میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی، حضرت عبداللہؓ نے کہا :اگرتو نے غور سے پڑھا ہوتا توضرور نظر آتی، کیا اللہ نے نہیں فرمایا: مَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا (الحشر:۷)۔ (مشکوٰۃ شریف:۳۸۱) اسی طرح حضرت عمرفاروقؓ نے حج میں خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے جب حجرِاسود کا بوسہ لیا تو فرمایا: "وَإِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ وَأَنَّكَ لَاتَضُرُّ وَلَاتَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَكَ مَاقَبَّلْتُكَ"۔ (مسلم، بَاب اسْتِحْبَابِ تَقْبِيلِ الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فِي الطَّوَافِ’حدیث نمبر:۲۲۳۰) ترجمہ:میں جانتا ہوں کہ توایک پتھر ہے نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان پہونچا سکتا ہے؛ اگرمیں نے اپنے حبیب رسول اللہ کوتیرابوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا توتجھے نہ چومتا۔ حضرت عمرؓ کا یہ ارشاد بتاتا ہے کہ آپﷺ کا فعل حجت ہے؛ اسی لیے توحضرت عمرؓ نے آپﷺ کے فعل سے استدلال کرتے ہوئے حجرِاسود کوبوسہ دیا۔ حدیث عقل کی روشنی میں عقلی طور سے بھی سنت رسول کی اتباع کا ضروری ہونا معلوم ہوتا ہے؛ چنانچہ امیربادشاہ لکھتے ہیں:سنت رسول حجت ہونا چاہیے، وہ مفید فرضیت ہویاوجوب یاکچھ اور ایسی ضرورت دینیہ میں داخل ہے، جس کا علم بالبداہت ہراُس شخص کو حاصل ہے جوصاحبِ عقل وتمیز ہو؛ یہاں تک کہ عورتیں اور بچے بھی اس باب کو جانتے ہیں کہ جس کی نبوت ثابت ہے وہ اللہ کی طرف سے جوخبر دیتا ہے اس میں وہ سچا ہے اور اس کی اتباع واجب ہے۔ (التیسر علی التحریر:۳/۲۲)