انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خلافتِ یزید کی مخالفت عبداللہ نے کہا کہ یزید ہرگز مستحق خلافت نہیں؛ کیونکہ وہ خلافِ شرع کاموں میں مصروف دیکھا جاتا ہے، اس کے مسلمان ہونے میں بھی کلام ہے، اس سے تومسلمانوں کا جہاد کرنا چاہیے، اہلِ مدینہ نے کہا کہ ہم نے توسنا ہے یزید نے آپ کوخوب انعام واکرام دیا ہے، عبداللہ نے کہا ہم نے اس لیے قبول کرلیا کہ ہم میں مقابلہ کی طاقت نہ تھی، ان باتوں کوسن کرلوگ یزید سے بے حدمتنفر ہوگئے، عبداللہ بن حنظلہ نے تجویز پیش کی کہ یزید کومعزول کردیا جائے؛ چنانچہ قریش نے عبداللہ بن مطیع کواور انصار نے عبداللہ بن حنظلہ کواپنا اپنا سردار منتخب کرکے یزید کی خلافت وحکومت کا انکار کیا، عثمان بن محمد ومروان بن حکم کی حویلی میں پناہ گزیں ہوئے، اہلِ مدینہ نے تمام بنوامیہ کوجوان کے ہاتھ آ:ے گرفتار وقید کرلیا، صرف مروان کے بیٹے عبدالملک کوجوحضرت سعید بن المسیب فقیہ مدینہ کی خدمت میں ہمہ وقت موجود رہتا اور مسجد سے باہر کم نکلتا تھا اور بہت ہی عابد، زاہد اور نیک سمجھا جاتا تھا، کچھ نہیں کہا، ان حالات کی اطلاع بنوامیہ نے یزید کے پاس دمشق پہنچائی، یزید نے فوراً ایک خط عبیداللہ بن زیاد کولکھا کہ منذر بن زبیر تمہارے پاس کوفہ میں گیا ہوا ہے، فوراً اس کوگرفتار کرکے قید رکھو اور مدینہ کی طرف ہرگز نہ جانے دو، عبیداللہ بن زیاد چونکہ یزید سے خوش نہ تھا؛ کیونکہ اس کی کوئی قدردانی اور عزت افزائی قتلِ حسین کے صلہ میں یزید نے نہیں کی تھی؛ لہٰذا اس نے منذر کوفوراً مدینہ کی طرف رخصت کردیا اور یزید کولکھ دیا کہ آپ کا خط آنے سے پہلے منذر مدینہ کی طرف روانہ ہوچکا تھا، منذر نے مدینہ میں پہنچ کرعبداللہ بن حنظلہ اور عبداللہ بن مطیع سے کہا کہ تم کوچاہیے کہ علی بن حسین (امام زین العابدین) کے ہاتھ پربیعت خلافت کرو؛ چنانچہ یہ سب مل کرعلی بن حسین کے پاس گئے؛ انھوں نے صاف انکار کیا اور کہا کہ میرے باپ اور دادا، دونوں نے خلافت کے حصول کی کوشش میں اپنی جانیں گنوائیں، میں اب ہرگز ایسے خطرناک کام کی جرأت نہیں کرسکتا، میں اپنے آپ کوقتل کرانا پسند نہیں کرسکتا، یہ کہہ کروہ مدینے سے باہر ایک موضع میں چلے گئے۔ مروان جومعہ دیگر بنی اُمیہ اپنی حویلی میں قید تھااس نے عبدالملک کے ہاتھ علی بن حسین علیہ السلام کے پاس کہلوا بھجوایا کہ آپ نے جوکچھ کیا، بہت اہی اچھا کیا، ہم اس قدر امداد کے اور خواہاں ہیں، ہمارے بعض قیمتی اموال اور اہل وعیال جن کی اس جگہ گنجائش نہیں ہے، آپ کے پاس بھجوائے دیتے ہیں، آپ ان کی حفاظت کریں، علی بن حسین نے اس کومنظور کرلیا اور مروان بن حکم نے رات کی تاریکی میں پوشیدہ طور پراپنے اہل وعیال اور قیمتی اموال علی بن حسین کے پاس اس کے گاؤں میں بھیج دیئے، علی بن حسین نے مدینہ کے حالات یزید کولکھ کربھیجے اور اپنی نسبت لکھا کہ میں آپ کا وفادار ہوں اور بنوامیہ کی حمایت وحفاظت میں ممکن کوششیں بجالارہا ہوں، یزید نے مدینہ کے حالات سے واقف ہوکر نعمان بن بشیر انصاری کوبلاکر کہا کہ تم مدینہ جاکر لوگوں کوسمجھاؤ کہ ان حرکات سے باز رہو اور مدینہ میں کشت وخون کے امکانات پیدا نہ کریں؛ نیز عبداللہ بن حنظلہ کوبھی نصیحت کرو کہ تم یزید کے پاس گئے اور وہاں سے انعام واکرام حاصل کرکے خوش وخرم رخصت ہوئے؛ لیکن مدینہ میں آکریزید کے مخالف بن گئے اور بیعت فسخ کرکے یزید پرکفر کا فتویٰ لگاکر لوگوں کوبرانگیختہ کیا یہ کوئی مردانگی اور دانائی کا کام نہیں کیا، علی بن حسین (امام زین العابدین) سے مل کرمیری طرف سے پیغام پہنچاؤ کہ تمہاری وفاداری وکارگذاری کی ضرور قدر کی جائے گی، بنوامیہ سے جووہاں موجود ہیں کہو کہ تم سے اتنا بھی کام نہ ہوا کہ مدینہ میں فتنہ پیدا کرنے والے دوشخصوں کوقتل کرکے اس فتنے کودبا دیتے، یہ باتیں سن کرنعمان بن بشیر ایک سانڈنی پرسوار ہوئے اور مدینہ کی طرف چلے، مدینہ میں آکرانھوں نے ہرچند کوشش کی اور سب کوسمجھایا؛ مگرکوئی نتیجہ پیدا نہ ہوا، مجبوراً وہ مدینہ سے دمشق واپس گئے اور تمام حالات یزید کوسنائے، یزید نے مطلح ہوکر مسلم بن عقبہ کوطلب کیا اور کہا کہ ایک ہزار چیدہ جنگ جوہمارہ لے کرمدینہ پہنچو، لوگوں کواطاعت کی طرف بلاؤ؛ اگروہ اطاعت اختیار کرلیں توبہتر ہے، نہیں توجنگ کرکے سب کوسیدھا کردو۔ مسلم نے کہا کہ میں فرماں بردار ہوں؛ لیکن آج کل بیمار ہوں، یزید نے کہا کہ توبیمار بھی دوسرے تندرستوں سے بہتر ہے اور اس کام کوتیرے سوا دوسرا انجام دینے کی قابلیت نہیں رکھتا، مجبوراً مسلم نے فوج انتخاب کرکے اپنے ہمراہ لی اور تیسرے روز دمشق سے روانہ ہوگیا، یزید نے رخصت کرتے وقت مسلم کونصیحت کی کہ جہاں تک ممکن ہونرمی اور درگذر سے کام لے کراہلِ مدینہ کوراہِ راست پرلانے کی کوشش کرنا؛ لیکن جب یہ یقین ہوجائے کہ نرمی اور نصیحت کام نہیں آسکتی توپھر تجھ کواختیارِ کامل دیتا ہوں کہ کشت وخون اور قتل وغارت میں کمی نہ کرنا؛ مگراس بات کا خیال رکھنا کہ علی بن حسین کوکوئی آزار نہ پہنچے؛ کیونکہ وہ میرا وفادار اور خیرخواہ ہے اور اس کا خط میرے پاس آیا ہے، جس میں لکھا ہے کہ مجھ کواس شورش اور بغاوت سے کوئی تعلق نہیں ہے، یزید نے مسلم بن عقبہ سے یہ بھی کہا کہ اگرتیری بیماری بڑھ جائے اور توفوج کی سپہ سالاری خود نہ کرسکے تومیں مناسب سمجھتا ہوں کہ حصین بن نمیر تیرا قائم مقام ہو توبھی اس کواپنا نائب مقرر کردے، اس فوج کورخصت کرنے کے بعد اسی روز یزید نے عبیداللہ بن زیاد کے پاس ایک قاصد خط دیکر بھیجا، خط میں لکھا تھا کہ توکوفہ سے فوج لے کرمکہ پرحملہ کر اور عبداللہ بن زبیر کے فتنے کومٹا، عبیداللہ بن زیاد نے جواباً لکھا کہ دوکام مجھ سے نہیں ہوں گے، میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کرنے کا ایک کام کرچکا ہوں، اب خانہ کعبہ کے ویران کرنے کا دوسرا کام مجھ سے نہ ہوگا، یہ کام کسی دوسرے شخص کوسپرد کرنا چاہیے، مسلم بن عقبہ جب فوج لیے ہوئے مدینہ کے قریب پہنچا تومدینہ والوں نے عبداللہ بن حنظلہ سے کہا کہ بنوامیہ جومدینہ میں موجود ہیں، یہ دمشق کی فوج آنے پرسب دشمنوں سے جاملیں گے اور ہم کواندرونی لڑائی میں مبتلا کرکے سخت نقصان پہنچائیں گے، مناسب یہ ہے کہ ان سب کومسلم کے پہنچنے سے پہلے ہی قتل کردیا جائے، عبداللہ بن حنظلہ نے کہا کہ اگرہم نے بنی امیہ کوقتل کیا تویزید تمام شامیوں کواور عبیداللہ بن زیاد تمام عراقیوں کولے کرچڑھ آئیں گے اور ہم سے ان کا قصاص طلب کریں گے، مناسب یہ ہے کہ ہم تمام بنی اُمیہ کوبلاکر ان سے اقرار کرلیں اور اس بات کی قسم دیں کہ وہ ہم سے نہ لڑیں گے اور ہمارے خلاف کسی قسم کی مدد حملہ آور فوج کونہ دیں گے، یہ عہدواقرار لیکر ہم ان کومدینہ سے باہر نکالے دیتے ہیں، سب نے اس رائے کوپسند کیا اور عبداللہ بن حنظلہ نے تمام بنی اُمیہ سے مذکور عہد واقرار لے لے کرمدینہ سے رخصت کردیا، بجز عبدالملک بن مروان کے، کہ اس کومدینہ میں رہنے کی آزادی حاصل رہی، ان لوگوں کی وادی القریٰ میں مسلم بن عقبہ کے لشکر سے ملاقات ہوئی، مسلم نے ان سے پوچھا کہ ہم کومدینہ پرکس طرف سے حملہ آور ہونا چاہیے؟ انھوں نے اپنے عہدواقرار کا لحاظ کرکے مسلم کوجواب دینے سے انکار کردیا اور اپنے عہدواقرار کا عذر پیش کیا، مسلم نے پوچھا کہ تم میں سے کوئی ایسا بھی ہے جس نے کوئی عہد نہ کیا ہو اور اس سے قسم نہ لی گئی ہو؛ انھوں نے کہا کہ ہاں! عبدالملک بن مروان ایک ایسا شخص ہے اور وہ مدینہ میں موجود ہے، مسلم نے کہا کہ وہ نوجوان ہے، ہم کوتجربہ کاربوڑھے شخص کی ضرورت ہے، جوضروریاتِ جنگ سے واقف ہو؛ انھوں نے کہا کہ وہ نوجوان بوڑھوں سے بہت بہتر ہے؛ چنانچہ مسلم نے کسی کوبھیج کرمدینہ سے عبدالملک کوبلوایا اور اس کے مشوروں کوسن کرحیران رہ گیا اور انھیں پرعامل ہوا، اس نے مدینہ کے قریب پہنچ کراہلِ مدینہ کے پاس پیغام بھیجا کہ امیرالمؤمنین یزید تم کوشریف سمجھتے اور تمہاری خون ریزی کوپسند نہیں کرتے ہیں، بہتر یہی ہے کہ تم اطاعت اختیار کرو؛ ورنہ مجبوراً مجھ کوشمشیر نیام سے نکالنی پڑے گی، یہ پیغام بھیج کرتین دن مسلم نے انتظار کیا؛ مگراہلِ مدینہ لڑائی پرآمادہ ہوگئے، آخر مسلم نے حرّہ کی جانب سے مدینہ پرحملہ کیا، اہلِ مدینہ نے بڑی بہادری سے مقابلہ کیا اور لشکرِشام کا منھ پھیردیا؛ لیکن مسلم بن عقبہ کی بہادری وتجربہ کاری سے اہلِ مدینہ کوشکست ہوئی، عبداللہ بن حنظلہ، فضیل بن عباس بن عبدالمطلب، محمد بن ثابت بن قیس، عبداللہ بن زید بن عاصم، محمد بن عمروبن حزم انصاری، وہب بن عبداللہ بن زمعہ، زبیر بن عبدالرحمن بن عوف، عبداللہ بن نوفل بن حرث بن عبدالمطلب وغیرہ بہت سے سردارانِ مدینہ جنگ میں کام آئے، فتح مند فوج مدینہ میں داخل ہوئی، مسلم بن عقبہ نے تین دن تک قتل عام اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا، اس لڑائی اور قتل عام میں ایک ہزار کے قریب آدمی مارے گئے، جن میں تین سوسے زیادہ شرفائے قریش وانصار شامل تھے، چوتھے روز مسلم نے قتلِ عام کوموقوف کرکے بیعت کا حکم دیا، جس نے مسلم کے ہاتھ پرآکربیعت کی وہ بچ گیا، جس نے بیعت سے انکار کیا وہ قتل ہوا۔ ۲۷/ذی الحجہ سنہ۶۳ھ مسلم بن عقبہ فاتحانہ مدینہ میں داخل ہوا اور قتلِ عام کا حکم ہوا؛ اسی روز محمد بن عبداللہ بن عباس بن عبدالمطب پیدا ہوا؛ یہی وہ محمد بن عبداللہ ہے جومحمد ابوالعباس سفاح کے نام سے مشہور ہے اور عباسیوں کا پہلا خلیفہ ہے، منذر بن زبیر کومسلم نے بہت تلاش کرایا؛ مگروہ بچ کرمکہ کی طرف نکل گئے تھے۔