انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۳۴۔صفوان بن محرزؒ نام ونسب صفوان نام،نسبی تعلق قبیلہ بنی تمیم کی شاخ بنی مازن سے تھا، بصرہ کے عابد وزاہد تابعین میں تھے۔ فضل وکمال علم میں کوئی امتیازی حیثیت نہ رکھتے تھے،تاہم اس سے بالکل تہی دامن بھی نہ تھے،بصرہ کے علماء با عمل میں شمار تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کان لہ فضل وورع حافظ ذہبی لکھتے ہیں صفوان بن محرز المازنی احد العلماء العاملین (تہذیب التہذیب:۴/۲۳۰) حدیث میں انہوں نے عبداللہ بن عمرؓ، ابن مسعودؓ،ابن عباسؓ، ابو موسیٰ اشعریؓ عمران بن حصینؓ اورحکیم بن حزام وغیرہ اکابر صحابہ سے استفادہ کیا تھا۔ ابو حمزہ،جامع بن شداد،خالد بن عبداللہ الاشیخ،عاصم الاحول،قتادہ،محمد بن واسع اور علی بن زید بن جدعان وغیرہ آپ کے زمرۂ تلامذہ میں تھے۔ (تہذیب التہذیب:۴/۴۳۰) عمل کا درجہ صفوان کے نزدیک تنہا علم کی کوئی حیثیت نہ تھی جب تک اس کے ساتھ عمل نہ ہو،فرماتے تھے کہ ہم کو علم سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا، جب تک اس پر عمل نہ کریں، کاش میں کچھ نہ جانتا ہوتا۔ (صفوۃ الصفوۃ:۱۵۹) زہد وعبادت ان کی پوری زندگی اس اصول کا عملی نمونہ تھی،حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ وہ بڑے عابد تابعین میں تھے۔ (ایضاً:۵۹۱،وتہذیب التہذیب:۴/۴۳۰) گداز قلب روح کاآئینہ زنگار اشک سے جلا پاتا ہے اور دل کی کھیتی آنسوؤں کی آبیاری سے ہری ہوتی ہے،صفوان کی آنکھیں شمع ہوزان تھیں، انہوں نے ایک کنج یا غار بنالیا تھا، جس میں بیٹھ کر رویا کرتے تھے اورصرف نماز کے اوقات میں اس سے باہر نکلتے تھے،نماز پڑھنے کے بعد پھر فوراً اسی میں چلے جاتے تھے۔ (ابن سعد،ج ۷،ق اول،ص ۱۰۷) ذکر وشغل آپ کا ذکر وشغل حدیث خوانی تھا،جریر کا بیان ہے کہ صفوان اوران کے بھائی مذاکرہ حدیث کے لیے جمع ہوتے تھے، اس حلقہ میں جب کیفیت اوررقتِ قلب محسوس نہ ہوتی تو حاضرین ان سے حدیث بیان کرنے کی درخواست کرتے،ان کی زبان سے جیسے ہی الحمد للہ نکلتا حاضرین پر عجیب کیفیت طاری ہوجاتی ،اورمشکیزہ کے منہ کی طرح ان کے آنکھوں سے آنسو پھوٹ نکلتے۔ (ایضاً) قیام لیل آپ کی عباست کا خاص وقت شب کا تھا، تہجد پابندی کے ساتھ پڑھتے تھے۔ (تہذیب التہذیب:۴/۴۳۰) دنیا سے کنارہ کشی دنیا اوراس کی نعمتوں سے کبھی دامن آلودہ نہ ہوا،فرماتے تھے،اگر مجھے کھانے کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا جس سے توانائی قائم رہ سکے اور پینے کے لیے پانی کا ایک کوزہ مل جائے تو پھر مجھے دنیا اوراہل دنیا کی ضرورت نہیں۔ (ایضاً) دنیا کو کارواں سے زیادہ نہ سمجھتے تھے؛چنانچہ مستقل گھر نہیں بنایا،رہنے کے لیے ایک چھپر تھا،اس کی مرمت تک نہ کراتے تھے،ایک مرتبہ اس کی ایک لکڑی ٹوٹ گئی،لوگوں نے کہا اس کو درست کرلیجئے،فرمایا کل مرنا ہے،اگر گھر کا حقیقی مالک اس میں زیادہ ٹھہرنے کا موقع دیتا تو درست کرلیتا۔ (ایضاً) خانہ خدا کا احترام خانہ خدا میں ہنگامہ آرائی مسجد کے احترام کے خلاف سمجھتے تھے اور ایسے مواقع پر مسجد سے چلے جاتے تھے ایک مرتبہ کچھ لوگ مسجد میں لڑرہے تھے،آپ یہ کہہ کر وہاں سےہٹ گئے کہ تم لوگ جنگجو ہو۔ (ابن سعد،ج ۷،ق اول،ص ۱۰۸) فرمان رسول کا پاس فرمان رسول کا مرتے دم تک پاس رہا، مرض الموت میں گھر والوں سے فرمایا رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان پیش نظر رہے کہ چلا کر بین کرنے والا سر نوچنے والا اورکپڑے پھاڑنے والا ہماری جماعت میں نہیں ہے۔ (ایضاً) (نسائی، شَقُّ الْجُيُوبِ،حدیث نمبر:۱۸۴۲) وفات اس مرض میں وفات پائی، سنہ وفات معین طور پر نہیں بتایا جاسکتا،ابن جان نے ۱۷۴ ھ لکھا ہے لیکن یہ قابل اعتبار نہیں