انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تاریخ مؤرخینِ عرب کا بیان چونکہ عرب کے مؤرخین کوقحطان کی اولاد سمجھتے ہیں؛ اِس لیے وہ ان کی تاریخ قحطان کے عہد سے شروع کرتے ہیں، قحطان کی اولاد میں عبدشمس نامی ایک شخص تھا جوسبا کے لقب سے مشہور ہے اور یمن کی سبائی سلطنت کا بانی سمجھا جاتا تھا، اس کے دوبیٹے تھے، حمیر اور کھلان، اس نے اپنی وفات کے وقت دونوں بیٹوں، خاندان شاہی اور عمائد سلطنت کوطلب کیا اوروصیت کی کہ حمیر کوجومیرا بڑا لڑکا ہے سلطنت کا دایاں قطعہ اور کھلان کو بایاں قطعہ؛ چونکہ داہنے ہاتھ کے لیے تلوار، کوڑے اور قلم کی ضرورت ہوتی ہے اور بائیں کے لیے عنان، ڈھال اور کمان کی، اس لیے سب نے طے کیا کہ بادشاہ حمیر کو بنانا چاہیے اور کھلان صرف سلطنت کا محافظ رہے گا؛ چنانچہ حمیر یمن کا بادشاہ بنادیا گیا اور اس کے بعد اس کی اولاد نسلاً بعد نسل مسندحکومت پر متمکن ہوتی رہی، کھلان اور اس کی اولاد سلطنت کے استحکام، حفاظت اور مدافعت کے کام انجام دیتی تھی، الحارث الرائش کے زمانہ میں عامر بن حارثہ جوماء السماء کے لقب سے مشہور ہے اور اس کے بعد اس کا بیٹا عمرمزیقیا بھی یہی خدمت انجام دیتے رہے، عمروکی بیوی نے جس کا نام طریفہ بنت جبر تھا اور کاہنہ تھی، ایک روز یہ خواب دیکھا کہ یمن کوایک سیاہ بادل محیط ہوگیا ہے، بجلی نے چمک چمک کر تمام یمن میں زلزلہ ڈال دیا ہے اور جہاں گرتی ہے وہ مقام ایک تودۂ خاکستر ہوجاتا ہے، گھبراکر اُٹھی توعمروسے یہ خواب بیان کیا اور کہا: اب خیر نہیں، عمرو نے کہا پھر کیا کرنا چاہیے؟ بولی کہ یمن کو جلدی چھوڑکر کسی طرف نکل جانا چاہیے؛ ورنہ دیوار (عرم) ٹوٹنے والی ہے، جس سے تمام یمن غرقاب ہوجائے گا۔ عمر کے پاس سازوسامان، مال ودولت اور خیل وحشم کی وہ فراوانی تھی کہ دفعۃً کوچ نہیں کرسکتا تھا، اس کے علاوہ لوگوں سے کیا کہتا؟ اس لیے اُس نے ایک تدبیر سوچی اور اپنے بڑے لڑکے ثعلبہ سے کہا کہ میں تم کوازدیوں کے سامنے کوئی حکم دونگا تم اس کی تعمیل سے انکار کرنا اور جب تنبیہ کروں توایک تھپڑمارنا، ثعلبہ نے کہا یہ گستاخی کیونکر ممکن ہے؟ بولا کہ مصلحت اسی میں ہے؛ غرض تمام سرداروں کو ایک پرتکلف دعوت دی، جب سب جمع ہوگئے توثعلبہ کوکسی کام کا حکم دیا، اس نے انکار کیا توعمرو نے نیزہ اُٹھایا، ثعلبہ نے فوراً ایک تھپڑ کھینچ مارا، عمروبولا: ہائے افسوس! یہ ذلت! اتنا سننا تھا کہ ثعلبہ کے بھائی اس کے قتل پر کمربستہ ہوگئے، عمرو نے روکا اور کہا، اس کو چھوڑدو، میں اپنی جائداد فروخت کرکے کہیں نکلا جاتا ہوں اور اسکو اس گستاخی کے عوض ایک حبہ بھی نہ دونگا، غرض اس بہانہ سے عمرو نے اپنی تمام جائداد نہایت اچھے داموں فروخت کی اور اپنے بیٹوں، پوتوں اور کنبہ والوں کولے کر یمن سے نکل کھڑا ہوا، اس کے بعد یمن میں عام تباہی آئی اور سدعرم ٹوٹ گیا، عمرو نے مارب سے نکل کر بلادعک میں پناہ لی اور اپنے تین بیٹوں یعنی حارث، مالک اور حارثہ کو آگے روانہ کیا، یہ لوگ ابھی واپس بھی نہ ہوئے تھے کہ عمرو نے وفات پائی اور ثعلبۃ العنقاءاس کا بڑا بیٹا جانشین ہوا (العقود اللؤلؤیۃ فی تاریخ الرسولیۃ:۱/۱۔۱۲) اس کے بعد ان لوگوں نے "عک" سے بھی کوچ کیا اور عرب کے مختلف حصوں میں پھیل گئے؛ چنانچہ خزاعہ، حجاز (مکہ) میں، غسان شام میں اور اوس وخزرج "یثرب" میں مقیم ہوئے (ابن اثیر:۱/۴۹۲) اور اس طرح سباء اولیٰ کا خاتمہ ہوگیا، عرب میں یہ مثل "تفرقوا ایدی سبا" اسی وقت سے مستعمل ہوئی۔ یہ روایت اگرچہ تمام ترخرافات کا مجموعہ ہے؛لیکن اس میں اصولی حیثیت سےجوغلطیاں ہیں اُن کا ظاہرکرنا نہایت ضروری ہے: (۱)مزیقیا نے محض ایک کاہنہ کے کہنے سے یمن کوخیرباد کہا اور چاروں طرف مارا مارا پھرا، نہایت لغو ہے اور اگرہمارے مؤرخین کی یہ روایت صحیح ہے کہ عمران بن عامر اور اس کا بھائی عمرو (مزیقیا) یمن کے بادشاہ تھے اور عمران کے زمانہ میں سلطنت حمیر سے کہلان میں منتقل ہوگئی تھی (تاریخ أبی الفداء:۱/۶۷) تواس لغویت کی کیا انتہا رہ جاتی ہے۔ (۲)بند، مارب میں تھا، اس لیے اس کے ٹوٹنے سے تمام یمن تباہ نہیں ہوسکتا تھا اور نہ ہوا، اس لیے مزیقیا کومارب چھوڑنے کی ضرورت تھی نہ کہ تمام یمن کی۔ (۳)یہ بند، مزیقیا کے بعد بھی کئی بار ٹوٹا ہے؛ چنانچہ ابرہہ کے زمانہ میں بھی سنہ ۵۴۲ء سنہ۶۸۷حمیری، میں ٹوٹ گیا تھا؛ لیکن اس کی مرمت کرادی گئی اور جیسا کہ ابرہتہ نے کتبہ میں ظاہر کیا ہے، اس کی تعمیر میں ۱۱/ماہ لگے اور عمرومزیقیا جویمن کا بادشاہ گذرا ہے کیا اس کی تعمیر سے عاجز تھا؟۔ (۴)سب سے اخیر یہ کہ سباء اولیٰ کی تباہی سیلاب کی وجہ سے نہیں ہوئی، اس کی وجہ سے مارب کے صرف وہ باغ ویران ہوئے جواس کے دائیں اور بائیں واقع تھے اور جن کوقرآن مجید نے "جَنَّتَيْنِ" (سبأ:۱۶) کے نام سے یاد کیا ہے، سبا کی بربادی کا اصلی راز حبش پر اکسومی خاندان کا تسلط شمالی عرب میں اسماعیلیوں کا خروج اور یمن میں حمیر کا ظہور تھا، جس کی وجہ سے ان کی نوآبادیاں نکل گئیں، تجارت مسدود ہوگئی اور قوت وشوکت کا شیرازہ بکھر گیا۔ ہمارا خیال ہم انصار کو نابط کی اولاد بتلاچکے ہیں، اس لیے ہم کو ان کی تاریخ نابط کے عہد سے شروع کرنا چاہیے۔ نابط نابط (نابت) یانبت، عبرانی میں نبایوت ہے، توراۃ میں ان کا نام حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بیٹوں کے سلسلہ میں آیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ ان کے سب سے بڑے بیٹے تھے (سفرتکوین:۱۴۰۲۵) مؤرخینِ عرب نے بھی ان کا نہایت اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے، علامہ ابنِ جریر طبری لکھتے ہیں: "ومن نابت وقيدر نشر الله العرب"۔ (تاریخ الطبری:۱/۳۵۲) یعنی خدا نے عرب کونابت اور قیدار سے پھیلایا۔ ابنِ ہشام نے اپنی سیرت میں لکھا ہے: "وَلِيَ الْبَيْتَ بَعْدَهُ ابْنُهُ نَابِتُ بْنُ إسْمَاعِيلَ"۔ (سیرۃ عمربن ہشام:۱/۶۳) یعنی حضرت اسماعیل کے بعد کعبہ کی تولیت ان کے بیٹے نابت کو پہنچی۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نابت مکہ میں رہتے تھے اور خانہ کعبہ جس کوحضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا، ان کی تولیت میں تھا، اس کے علاوہ ان کے حالات کچھ معلوم نہیں اور معلوم بھی کیونکر ہوں؟ اس زمانہ تک اسماعیلی عربوں نے کوئی تمدن پیدا نہیں کیا تھا؛ بلکہ محض بدویانہ حیثیت سے رہتے تھے۔ نابطہ کی اولاد چونکہ مکہ کی سرزمین بالکل بے آب وگیاہ تھی، اس لیے نابت کی وفات کے بعد ان کی اور ان کے بھائیوں کی اولاد عرب کے مختلف حصوں میں جاکر آباد ہوگئی (یعقوبی:۱/۲۵۳) چنانچہ دوماہ دومۃ الجندل میں تیماءنجد میں، نافیش، وادی القریٰ میں........ قیدماہ یمن میں اور نابت کی اولاد عرب کے شمالی مغربی حصہ میں مقیم ہوئی؛ لیکن قیدار بن اسماعیل اب تک مکہ ہی میں تھے (الاخبار الطوال:۱۱) لیکن جب مضاض جرہمی نے خانہ کعبہ پر قبضہ کرلیا (طبری:۱/۳۵۲) توانہوں نے بھی مکہ کی سکونت ترک کردی اور کاظمہ، غمرذی کندہ اور شعثمین وغیرہ میں جابسے اور اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس بیان کی تصدیق کی جس میں انہوں نے آلِ اسماعیل علیہ السلام کی آبادی کی نسبت فرمایا ہے کہ وہ حویلاہ (یمن) سے شور (شام) تک آباد ہوئے۔ (تکوین:۱۸۔۲۵) انباط اوپرگذرچکا ہے کہ نابت کی اولاد حجاز کے شمالی حصہ میں مقیم ہوئی تھی؛ چنانچہ یہاں انھوں نے ایک زمانہ کے بعد حضرت مسیحؑ سے چارسو برس پہلے ایک حکومت قائم کی جوتاریخ میں دولۃ الانباط کے نام سے مشہور ہے، اس حکومت کا پایہ تخت حجر (پڑا) تھا، جس کویہودی "سلاع" کہتے ہیں، سکندرِاعظم کے زمانہ میں یہ حکومت اس درجہ قوی تھی کہ جب اس نے ایران ومصر پر فوج کشی کی تواس کی فوجیں بھی رومی فوجوں کے پہلو بہ پہلو لڑرہی تھیں انٹینگون (Antigun) جانشین سکندر نے سنہ ۳۱۲ ق م میں اس پر حملہ کیا؛ لیکن شکست کھائی، اس کے بعد ڈیمتریوس نے پڑا کا محاصرہ کیا اور ناکام واپس ہوا۔ (Sharpe:1/274) سنہ۲۰۰ق م میں نبطی حکومت نہایت پرزور ہوگئی اور سبا کا اثر شمال سے اکھاڑدیا، سنہ ۶۲ق م میں حارث تخت نشین ہوا، جواس حکومت کا سب سے بڑا بادشاہ گذرا ہے، اس کے عہد میں اس حکومت کے حدود، جنوب میں وادی القریٰ تک، مشرق میں حدود عراق تک اور مغرب میں جزیرۂ نمائے سینا تک تھے، اسطرابواس (Strabo’s) نے نبطیوں کا ملک اس سے بھی وسیع بتایا ہے اور بائبل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم اپنے زمانہ میں نہایت مشہور اور زبردست تھی۔ (اشعیاء:۷،۶) غرض دوسری صدی عیسوی کے اوائل تک نبطیوں نے نہایت زور وقوت کے ساتھ حکومت کی؛ یہاں تک کہ سنہ ۱۰۶ء میں ٹراگان شاہنشاہِ روم نے ایک کثیر لشکر بھیج کر ان کوبالکل برباد کردیا۔ فسبحان من يرث الأرض ومن عليها۔ ازد انباط کی طرح آل نابت کی ایک شاخ اور بھی ہے، جوکسی نامعلوم زمانہ میں یمن جاکرآباد ہوئی، ہماری مراد اس سے قبیلۂ ازد (التنبیہ والاشراف:۳۴) یااسد ہے (الشاب سمعانی:۱۰۶) جونبت بن مالک کی اولاد میں تھا؛ چنانچہ حضرت حسانؓ کہتے ہیں ؎ إمّا سَأَلْتِ فَإِنّا مَعْشَرٌ نُجُبٌ (۱) الْأَسْدُ نِسْبَتُنَا وَالْمَاءُ غَسّانُ ونحن بنو الغوث بن نبت بن مالكِ (۲) زيد بن كهلانٍ وأهل المفاخر فإنْ تكُ عنّا، معَشرَ الأَسْدِ، سائلاً (۳) فنحنُ بنو الغوثِ بنِ زيدِ بنِ مالكِ (۱)سیرۃ ابنِ ہشام:۱/۸۔ (۲)تاریخ یعقوبی:۱/۲۳۰۔ (۴)خلاصۃ الوفا بأخبارِ دارالمصطفیٰ:۸۳۔ اوپرگذرچکا ہے کہ اسماعیلیوں کے چند خاندان یمن میں مقیم ہوئے تھے؛ غالباً اسی زمانہ میں یااس کے بعد یہ لوگ بھی یمن گئے ہوں گے؛ چنانچہ ان کی اقامت کا سب سے پہلے مارب میں پتہ چلتا ہے، جب یہ خاندان وسیع ہوا توقحط سالی یادوسرے اسباب کی بناء پر مارب کو چھوڑنے کی ضرورت لاحق ہوئی، اس زمانہ میں اس خاندان کا رئیس عمروبن عامر تھا جوتاریخ عرب میں مزیقیا کے لقب سے مشہور ہے اور جوتمام انصار وغسان کا مورث اعلیٰ ہے؛ چنانچہ اوس بن حارثہ پدر قبیلۂ اوس کہتا ہے ؎ تقربهم من آل عمرو بن عامر عيون لدى الداعي إلى طلب الوتر (خلاصۃ الوفا بأخباردارالمصطفی:۸۳) حضرت حسانؓ فرماتے ہیں: ؎ أروُني سُعُوداً كالسُّعودِ التي سَمَتْ (۱) بمكة َ منْ أولادِ عمرو بنِ عامرِ أَلَم تَرَنا أَولادَ عَمروِ بنِ عامِرٍ (۲) لَنا شَرَفٌ يَعلو عَلى كُلِّ مُرتَقي كجفنة َ والقمقامِ عمرو بنِ عامرٍ، وأولادِ ماءِ المزن وابنيْ محرقِ (۱)الإصابۃ فی تمییزالصحابۃ:۲/۷۶۔ (۲)دیوان حسان بن ثابتؓ:۷/۷۴۔ حضرت اوس بن صامت رضی اللہ عنہ کا شعر ہے ؎ أنا ابن مِزيقيا عمرو وجدّي أنا ابن مِزيقيا عمرو وجدّي (الاستیعاب:۱/۳۷) انصار کی تاریخ اسی کے زمانہ سے روشنی میں آئی ہے؛ چنانچہ اس کے اور اس کی اولاد کے مقاماتِ سفر نہایت تفصیل سے کتابوںمیں قلم بند ہیں اور ہم ان ہی کی مدد سے انصار کی تاریخ مرتب کرنا چاہتے ہیں، عمرو نے اولاً مالک بن یمان اور قبیلۂ ازدکو مارب سے کوچ کیا، نواح خولان، سرزمین عنس اور کشت زارصنعا میں قیام کرتے ہوئے ازال اور ہمدان میں مقیم ہوئے؛ چونکہ آدمیوں کا ایک جمِ غفیر ساتھ تھا اور اونٹ، گھوڑے، گائے، بکریاں بھی بافراط تھیں، اس لیے ان کوشاداب مقاموں کی تلاش رہتی تھی اور ان کے آدمی اس مقصد کے لیے عرب کے مختلف حصوں میں گشت لگاتے تھے، جب پانی اور سبزی کا ذخیرہ ختم ہوجاتا اور کسی دوسرے مقام کی اطلاح ملتی تووہاں روانہ ہوجاتے اور اس جگہ کوچھوڑدیتے تھے، ہمدانی لکھتے ہیں: "فاقبلوا لايمرون بماء إلاانزفوه ولابكلأ إلاسحقوه"۔ (صفۃ جزیرۃ العرب:۲۰۷) یہ لوگ جہاں جاتے تھے پانی کوصاف کردیتے تھے اور گھانس کو چرادیتے تھے۔ غرض کچھ زمانہ تک ازال اور ہمدان میں ٹھہرنے کے بعد جب پہاڑوں پر چڑھنے کی قوت پیدا ہوگئی تو"سہام" اور "رمع" کی سمت سے پہاڑوں پر چڑھ کر وادیٔ "ذوال" میں اترے اور قبیلہ غافق کوشکست دی (صفۃجزیرۃ العرب:۲۰۹) اس کے بعد یہاں سے نکل کر تہامہ یاغور کے اس حصہ میں قیام کیا، جہاں قبیلۂ عک کی آبادی تھی، یہ ایک تالاب تھا، جس کا نام غسان تھا (العقدالفرید:۲/۵۲) قبیلۂ عک جوایک اسماعیلی قبیلہ تھا، یمن آکرآباد ہوا تھا؛ چنانچہ عباس بن مرواے عدنانی کہتا ہے: ؎ أما سألت فأنا معشر نجب الأزد نسبتنا والماء غسان (خلاصۃ الوفا بأخباردارالمصطفی:۸۲) لیکن اس کے قیام کا زمانہ مؤرخینِ عرب متعین نہیں کرتے؛ البتہ یونانی مؤرخین نے متعین کیا ہے؛ چنانچہ بطلیموس نے سنہ۲۰۰ء کے اواسط میں قبیلہ غسان کا تذکرہ کیا ہے (اسپرنگر:۴۲۔۵۲) اور یہ معلوم ہے کہ غسان اور مزیقیاء کوئی جداگانہ چیز نہیں۔ (خلاصۃ الوفا بأخباردارالمصطفی:۸۲) معارف ابن قتیبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عمرو نے اولاد عک سے کسی قدر دور سکونت اختیار کی تھی؛ لیکن جب وباء پھیلی اورعمرو نے انتقال کیا توثعلبہ بن عمرو نے جوعنقا کے لقب سے مشہور ہے، عک کے رائیس شملقہ بن الجباب کے پاس کہلا بھیجا کہ ہمارے ہاں کی آب وہوا خراب ہوگئی ہے اس لیے ہم تمہارے پاس آنا چاہتے ہیں اور چند روز ٹھہرکر کہیں اور چلے جائیں گے؛ لیکن عک نے اس کو نامنظور کیا اور دونوں قبیلوں میں ایک خونریز جنگ چھڑگئی، جس میں عک نے شکست کھائی اور شملقہ ماراگیا، اب ثعلبہ کو غسان میں رہنے کا موقع تھا؛ لیکن جیسا کہ علامہ ہمدانی نے لکھا ہے کہ عک کا تمام خاندان ان لوگوں کا دشمن ہوگیا تھا، اس کے علاوہ جذع بن سنان جوخود ثعلبہ کا سپہ سالار تھا سخت چالاک اور مکار واقع ہوا تھا، اس کی چالبازیوں نے ثعلبہ کو اور بھی تکلیفیں پہنچائیں جن کی وجہ سے وہ غسان سے کوچ کرنے پر بالکل آمادہ ہوگیا۔ (صفۃ جزیرۃ العرب:۲۰۹) ثعلبۃ العنقا، عمرومزیقیاء کا سب سے بڑا لڑکا اور اوس وخزرج کا جداعلیٰ ہے، حضرت حسانؓ اس کی نسبت فرماتے ہیں ؎ وَلَدْنَا بَنِي الْعَنْقَاءِ وَابْنَيْ مُحَرِّقٍ فَأَكْرِمْ بِنَا خَلالً وَأَكْرِمْ بِنَا إِبْنَمَا (دیوان حسان بن ثابت:۹۷) اس نے بلادعک سے نکل کر نجران میں اقامت کی اور یہاں قبیلہ مذحج سے جنگ ہوئی، اس کے بعدحجازکا قصد کیا اور چلتے پھرتے مکہ کے قریب آکر فروکش ہوا، مکہ میں قبیلۂ جرہم آبادتھا، اس لیے ثعلبہ نے اس سے سکونت کی اجازت طلب کی اور کہلا بھیجا کہ ہم جہاں گئے وہاں ہمارا نہایت تپاک سے خیرمقدم ہوا ہے، اس بناپر ہم تم سے بھی اسی کے آرزومند ہیں، ہم کوچند روز مکہ میں قیام کرنے دو جس وقت کوئی عمدہ اور پرفضا مقام مل جائے گا؛ یہاں سے چلے جائیں گے، ہمارے آدمی شام اور مشرق میں اس غرض سے گئے ہوئے ہیں؛ لیکن جرہم پر ان باتوں کا کچھ اثر نہ ہوا اور اس کوٹھہرانے سے صاف انکار کردیا، ثعلبہ نے کہا اب ہم ضرور ٹھہریں گے؛ خواہ تم خوش ہویاناخوش؛ غرض تین دن تک لڑائی ہوئی، جس میں جرہم نے شکست کھائی (خلاصۃ الوفا بأخباردارالمصطفی:۸۲) اور ثعلبہ نے مکہ، طوویا سراۃ (عرفہ کا پہاڑ) سروم اور حدودطائف تک تمام مقامات پر قبضہ کرلیا۔ (صفۃ جزیرۃ العرب:۲۱۰) چونکہ یہاں کی آب وہوا ان لوگوں کے ناموافق تھی، اس لیے ایک ہی سال قیام کے بعد بخار میں مبتلا ہوگئے (خلاصۃ الوفا بأخباردارالمصطفی:۸۲) اور ثعلبہ مکہ میں وفات پاگیا، اب ان قبائل کودوسرے مقامات تلاش کرنے کی ضرورت ہوئی؛ چنانچہ ثعلبہ کی اولاد مکہ سے نکل کر ثعلبیہ اور ذی قارتک مقیم ہوئی اور وہاں کے تالاب پر قبضہ کرلیا (معجم البلدان:۷/۲۵۷) خزاعہ نے مکہ ہی میں رہنا پسند کیا اور تمام وادی مر (مرالظہران) پر اپنا تسلط جمالیا، عوف بن ایوب انصاری سلمیٰ کہتے ہیں: ؎ فَلَمّا هَبَطْنَا بَطْنَ مَرّ تَخَزّعَتْ خُزَاعَةُ مِنّا فِي خُيُولِ كَرَاكِرِ (ابوالغدا:۱/۱۰۱) اسماعیل بن رافت انصاری کا شعر ہے ؎ فَلَمّا هَبَطْنَا بَطْنَ مَكّةَ أَحْمَدَتْ خُزَاعَةُ دَارَ الْآكِلِ الْمُتَحَامِلِ (سیرۃ ابنِ ہشام:۱/۵۴) نضربن ازو نے عمان اور بحرین میں اقامت کی، مالک بن فہم نے عراق کا راستہ لیا اور جضنہ بن عمرو نے شام کی سکونت اختیار کی؛ غرض اس طرح یہ تمام قبائل نجد، یمامہ، بحرین، عمان، عراق، حجاز اور شام تک پھیل گئے۔ (صفۃ جزیرۃ العرب:۲۱۰) اوس وخزرج ثعلبہ میں ان قبائل کی جوشاخ قیام پذیر تھی، جب اس کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تووہ اس مقام سے کوچ کرکے یثرب کی سمت روانہ ہوئی اور قریظہ، نضیر،خیبر، تیما، وادی القریٰ کے درمیان اقامت کی اور ان کا بیشتر حصہ یثرب میں اترا (معجم البلدان:۳۵۷) اور ضرار میں مقیم ہوا۔ (الآغانی:۱۹/۹۵) یثرب میں اس وقت یہودیوں کی آبادی تھی، جوبقول بعض حضرت سلیمان کے زمانہ یاایک خیال کے مطابق بنو خذنصر (بختِ نصر) کی تباہی بیت المقدس کے بعد سے عرب میں آباد ہوئے اور یثرب اس کے نواح پر قابض تھے، اوس وخزرج نے یہاں قلعے اور مکانات بناکر رہنا شروع کیا اور یہود سے جان ومال کی محافظت کا عہدوپیمان کرلیا اور عرصہ تک کچھ خراج دیتے رہے (معجم البلدان:۷/۴۲۶) لیکن جب ان کی اولاد اور مال ودولت میں ترقی ہونے لگی تویہودی خائف ہوئے کہ مبادا کہیں ہم پر غالب نہ آجائیں اوس وخزرج کوبھی یہ خیال دامن گیر ہوا کہ یہودی ان کو جلاوطن نہ کردیں، اس بنا پر سخت کشمکش پیدا ہوئی اور دونوں قبیلے جنگ وجدل پر بالکل آمادہ ہوگئے۔ مالک بن عجلان کے زمانہ میں جواوس وخزرج کا سردار تھا (خلاصۃ الوفا بأخباردارالمصطفی:۸۳) اور سلام بن عوف ابن خزرج کے خاندان سے تھا، فیطون یہودیوں کا سردار مقرر ہوا؛ چونکہ وہ نہایت جابر اور بدباطن شخص تھا، اس لیے مالک نے اس کے ظلم واستبداد کی غسان کے ایک رئیس سے فریاد کی، غسانی رئیس جس کا نام ابوجبیلہ تھا، ایک کثیر لشکر لے کر شام سے یثرب آیا اور ذی حرض نامی ایک مقام میں یہود کے تمام سرداروں کو جمع کرکے قتل کرادیا، اس وقت سے یہود کی قوت بالکل ٹوٹ گئی اور اوس وخزرج کا تمام یثرب پرتسلط ہوگیا، رمق بن زیدخزرجی ابوجبلیہ کی تعریف میں کہتا ہے ؎ وابو جُبَيْلَة خَيْر مِن يَمشِي وأَوْفَاهُ يَمِيناً وأبرّهم برّاً وأع ملهم بهدي الصالحينا أبقت لنا الأيّام وال حرب المهمّة تعترينا كبشاً له قرنٌ يع ضّ حسامه الذكر السّنينا (ابن اثیر:۱/۴۹۴،۴۹۳) اس کے بعد یمن کا ایک تبع جس کا نام مسعودی نے ابن حسان بن کلیکرب (مروج الذہب بہ نفح الطیب:۱/۵۷۵) اور طبری نے تبان اسعد ابوکرب بتایا ہے، یثرب سے گذرا چونکہ یہاں اس کا ایک لڑکا مارا گیا تھا، اس لیے اس نے یثرب کے بالکل تباہ کردینے کا فیصلہ کیا، اوس وخزرج کے رئیس عمربن طلحۃ نجاری کو خبر ہوئی تومدافعت کے لیے آمادہ ہوا اور تبع سے چند لڑائیاں ہوئیں؛ لیکن ان ایام میں اوس وخزرج نے اس کے ساتھ نہایت شریفانہ برتاؤ کیا تھا، یعنی باایں ہمہ کہ برسرِ پیکار تھے، رات کو اس کی ضیافت کرتے تھے، وہ ان کریمانہ اخلاق پر سخت متعجب تھا اور ان کی دل سے عزت کرتا تھا، اسی اثنا میں یہود کے دوعالم اس کے پاس گئے اور اس نے یہودی مذہب قبول کیا اور محاصرہ اٹھاکر یمن چلاگیا، انصار کے ایک شاعر خالد بن عبدالعزی نجاری نے اس واقعہ کو نظم کیا ہے، وہ کہتا ہے: ؎ أصحا أم انتهى ذكره أم فضى من لذة وطره أم تذكرت الشباب وما ذكرك الشباب أو عصرة إنها حرب رباعية مثلها آتى الفتى عبره فسلا عمران أو فسلا أسدا اذ يغدو مع الزهره فيلق فيها أبو كرب سابغا أبدانها ذفرة ثم قالوا من يؤم بها أبني عوف أم النجره يا بني النجار إن لنا فيهم قبل الأوان تره فتلقتهم عشنقة مدها كالغبية النثره سيد سامى الملوك ومن يغز عمرا لا يجد قدره (تاریخ طبری،ذکربقیۃ خبرتبع أیام قباذ وزمن أنو:۱/۴۲۷،۴۲۶،شاملہ،الناشر:دارالكتب العلمية،بيروت) دوسرا انصاری کہتا ہے: ؎ تكلِّفنِي مِن تَكاليفها نَخِيلَ الأَساوِيف والمصَنْعَه نخيلاً حَمَتْها بنو مالكٍ جُنودُ أبي كَرِبَ المُفْظِعَه (حمزہ:۱۲۴۔ الأغانی، صوت:۱۵/۴۲، شاملہ،الناشر:دارالفكر،بيروت) یہ واقعہ ہجرت سے تقریباً ۲۴۰/ برس قبل کا ہے۔