انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ترجمان القرآن مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر ہے، جو پہلی بار غالباً ۱۹۳۱ءمیں طبع ہوئی تھی، دوسرا ایڈیشن ۱۹۶۴ء میں ساہتیہ اکادمی رابندرابھون، نئی دہلی سے مالک رام کے حواشی کے ساتھ منظر عام پر آیا ہے، مصنف نے خود اپنی تفسیر کے شروع میں وضاحت کی ہے کہ اس تفسیر کے لکھنے کا محرک کیا ہوا؟۔ "غالباً ڈسمبر ۱۹۱۸ءکا واقعہ ہے کہ میں رانچی میں نظر بند تھا، عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے نکلا تو مجھے محسوس ہوا کوئی شخص پیچھے آرہا ہے، مڑکر دیکھا تو ایک شخص کمل اوڑھے کھڑا تھا، آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ ہاں جناب! میں بہت دور سے آیا ہوں، کہاں سے؟ سرحد پار سے، یہاں کب پہنچے؟ آج شام کو پہنچا، میں بہت غریب آدمی ہوں، قندھار سے پیدل چل کر کوئٹہ پہنچا، وہاں چند ہم وطن سوداگر مل گئے تھے انھو ں نے نوکر رکھ لیا اور آگرہ پہنچا دیا، آگرہ سے یہاں تک پیدل چل کر آیا ہوں، افسوس تم نے اتنی مصیبت کیوں برداشت کی؟ اس لیے کہ آپ سے قرآن مجید کے بعض مقامات سمجھ لوں، میں نے "الہلال" اور "البلاغ" کا ایک ایک حرف پڑھا ہے، یہ شخص چند دنوں تک ٹھہرا اور یکا یک واپس چلا گیا، مجھے اس کا نام یاد نہیں، مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یانہیں؛ لیکن اگر میرے حافظے نے کوتاہی نہ کی ہوتی تو میں یہ کتاب اس کے نام سے منسوب کرتا"۔ (۱۲،ستمبر ۱۹۳۱ء) یہ تفسیر سورۂ بنی اسرائیل تک ہے، زیادہ تر ترجمہ اور مختصر حواشی ہیں، حواشی اختصار کے باوجود جامع ہیں؛ البتہ سورۂ فاتحہ کی تفسیر کا حصہ بہت ہی مبسوط اور مفصل ہے اور گویا قرآن مجید کے مقاصد کا خلاصہ اور خود مولانا آزاد کے بہ قول قرآن کا عطر اور نچوڑ ہے، اس تفسیر کے بعض مقامات سے علماء کو اختلاف رہا ہے؛ کیونکہ مولانا نے بعض معجزات سے متعلق تاویل سے کام لیا ہے اور آیتِ قرآنی: إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَالَّذِیْنَ ہَادُواْ وَالنَّصَارَی وَالصَّابِئِیْنَ مَنْ آمَنَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ وَلاَخَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُونَ۔ (البقرۃ:۶۲) کی ایسی تشریح کی ہے، جس سے بظاہر وحدت ادیان کے تصور کو تقویت پہنچتی ہے؛ گویقین ہے کہ مولانا کا مقصد ومنشاء یہ نہیں ہوگا،اس تفسیر سے متعلق بڑی سلجھی ہوئی گفتگومولانا بنوریؒ نے مشکلات القرآن کے مقدمہ میں (جس کا نا م انہوں نےیتیمۃ البیان رکھا ہے)کی ہے ،جو لائق مطالعہ ہے۔