انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** پانچ دن پہلے حضرت کعب ؓ بن مالک کہتے ہیں کہ انتقال سے پانچ دن پہلے آپﷺ نے ایک خطبہ میں تین وصیتیں فرمائیں : (۱) ہر بنی کے لئے اسکی امت میں ایک خلیل ہوتا ہے ، میرے خلیل ابو بکرؓ بن قحافہ ہیں اورتمہارا نبی اللہ کا خلیل ہے، (۲) تم سے پہلی امتوں نے نبیوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا، تمہیں اس سے منع کرتا ہوں ائے اللہ : گواہ رہ کہ میں نے انہیں تبلیغ کر دی، کمزوری کی وجہ سے غشی طاری ہو گئی، جب ہوش آیا تو فرمایا ‘: (۳) سنو : میں اللہ کے واسطے سے تمہیں ما تحتوں( غلام ‘ لونڈیوں ‘ بیویوں ‘ نوکروں) کے بارے میں تاکید کرتا ہو ں، ان پر ظلم نہ کرنا ، انہیں پیٹ بھر کھانادینا ، تن ڈھانپنے کپڑامہیا کرنا ، درشتی او ر بد خلقی کے بجائے دلجوئی کرنا،علالت کے دوران آپﷺ نے ایک دن حضرت فاطمہؓ کو طلب کیا ، جب وہ آئیں تو فرمایا: ائے بیٹی مرحبا کہہ کر ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ رونے لگیں، اس کے بعد کچھ سرگوشی کی تو وہ ہنسنے لگیں، حضرت عائشہؓ نے اُس کی وجہ دریافت کی تو کہا کہ یہ ایک راز ہے ، وصال کے بعد پوچھا تو بتایا کہ پہلی بار فرمایا ، جبرئیلؑ ہر سال رمضان میں قرآن مجید کا ایک دورکیا کرتے تھے اس دفعہ دو دور مکمل کئے ، میں گمان کرتا ہو ں کہ اس بیماری میں میری وفات ہو گی، یہ سن کر میں رونے لگی، دوسری بار فرمایا: میرے اہل بیت میں تم سب سے پہلے مجھ سے آکر ملو گی اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں جنت کی عورتوں کا سردار بنایا ہے، یہ سن کر میں خوشی سے ہنسنے لگی، چنانچہ حضور ﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد ہی حضرت فاطمہؓ کی وفات ہوئی، حضور ﷺ نے وصال سے کچھ پہلے اپنے چالیس غلام آزاد فرمائے،اس بیماری کے دوران ایک دن حضرت علیؓ اور فضلؓ بن عباس کے سہارے ظہر کے وقت منبر پر تشریف لائے ، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد اصحاب اُحد کے لئے دعائے مغفرت فرمائی ، پھر ارشاد فرمایا :لوگو : اگر کسی کا حق میر ذمہ ہو تو وہ مجھ سے لے لے، اگر میں نے کسی کی پیٹھ پر کوڑا مارا ہے تو میری پیٹھ حاضر ہے وہ انتقام لے لے، کسی کی عزت و آبرو کے خلاف میں نے سخت الفاظ کہے ہوں تو وہ میری عزت لے لے، میں نے کسی کامال لیا ہو تو وہ میرے مال سے اپنا حصہ لے لے، مجھے کسی سے کینہ نہیں، کوئی میری طرف عداوت کا اندیشہ نہ کرے ، خبر دار رہو اور اچھی طرح سن لو کہ جو شخص اپنا حق مجھ سے وصول کرلے تو وہ مجھے زیادہ محبوب ہوگا، اپنا حق ہے تو وہ اپنا حق لے لے یا پھر اپنا حق مجھ پر حلال کر دے ، میں چاہتا ہوں کہ جب اپنے رب سے ملوں تو میرے نفس پاک ہو ، اس کے بعد آپﷺ منبر سے اترے اور ظہر کی نماز پڑھائی، نماز کے بعد پھر منبر پر بیٹھ کر ان باتوں کو دُہرایا، ایک شخص نے اُٹھ کر کہا کہ میرے تین درہم آپﷺ دینے ہیں، کہا وہ کیسے ؟ عرض کیا : مجھ سے لے کر ایک مسکین کو دئیے تھے اور پھر لوٹانا بھول گئے، فضلؓ سے کہا انہیں یہ رقم دے دو، لوگو : سن لو کہ دنیا کی رسوائیاں آخرت کی رسوائیوں سے بہترہیں، پھر ایک اور شخص اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ میرے ذمہ آپﷺ کے تین درہم ہیں، فرمایا وہ کیسے ؟ عرض کیا : بہت ضرورت مند تھا مال غنیمت سے لے لئے ، فرمایا : فضل اس سے تین درہم وصول کر لو، جو شخص جو کچھ بھی کہنا چاہتا ہو کہہ دے اور میری توہین کی پرواہ نہ کرے، کسی میں کوئی بری عادت ہو تو بتلا دے تا کہ اس کے لئے دعا کی جائے ، ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ جھوٹ بولنے اور گالیاں دینے کی عادت ہے ، آپﷺ نے اس کے لئے دعا فرمائی، دوسرے شخص نے کہا ، یا رسو ل اللہ: مجھ میں کنجوسی ‘ بزدلی اور زیادہ سونے کی عادت ہے دعا فرمائیے کہ یہ دو عادتیں دور ہو جائیں ، تیسرے شخص نے عرض کیا : میں منافق ہوں اور کوئی بدی ایسی نہیں جو مجھ میں نہ ہو، حضرت عمرؓ نے فرمایا : ائے بندۂ خدا اپنے کو کیوں رسوا کرتا ہے ؟ مسکرا کر فرمایا : عمرؓ میرے ساتھ اور میں عمرؓ کے ساتھ ہوں ، وہ جہاں ہوں گے حق ان کے ساتھ ہے، تھوڑی دیر انتظار فرمایا ، جب کسی نے کچھ نہ کہا تو سب کے لئے دعائے رحمت و مغفرت فرمائی ، ایک خاتون حجرہ پرآئی اور اپنا حال بیان کیا، آپﷺ نے عصائے مبارک اس خاتون کے سر پر رکھی، وہ کچھ دیر تک سجدے کرتی رہی، آپﷺ نے فرمایا :سجدے طویل کرو کیونکہ بندہ حالت سجدہ میں اپنے معبود سے قریب تر ہوتا ہے، ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندہ کو اختیاردیا ہے کہ وہ چاہے دنیا میں رہے یا چاہے اس چیز کو پسند کرے جو اللہ کے پاس ہے، اس بندہ نے آخرت کی نعمتوں کو اختیار کر لیا ، یہ سن کر حضرت ابو بکرؓ بلک بلک کر رونے لگے، کہنے لگے ، میر ے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں ، حضرت ابو سعیدؓ حذری کہتے ہیں کہ میں نے دل میں کہا، یہ رونے کا کونسا وقت ہے ؟ آپﷺ ایک بندہ کا ذکر فرما رہے ہیں، بعد میں معلوم ہوا کہ ابو بکرؓ کو ہم میں سب سے زیادہ علم تھا وہ سمجھ گئے کہ یہ بندہ خود آپﷺ ہیں، فرمایا : ائے ابو بکرؓ مت رو، پھر ارشادفرمایا: مسجد میں جتنے دروازے کھلے ہوئے ہیں ان کو بند کر دیاجائے ، صرف ابو بکرؓ کا ایک دروازہ کھلا رہے، جان ، مال ، صحبت اور رفاقت کے اعتبار سے مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابو بکرؓ کا ہے، میں نے ہر ایک کے احسان کا بدلہ چکا دیا ہے بجز ابو بکرؓ کے، اس کا صلہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اد ا کرے گا، اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکرؓ کو بناتا لیکن اسلامی اخوت کافی ہے ، حضور اکرمﷺ کی بیماری کے دوران انصار کا اضطراب بڑھتاجا رہا تھا، حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ نے حضورﷺ سے اس کا تذکرہ کیا، اس حالت میں کہ سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی سہارے کے ساتھ مسجد میں تشریف لائے اور منبر کے آخری زینہ پر تشریف فرما ہوئے اور ارشاد فرمایا : ائے مہاجرین ! تم اس حالت میں ہو کر بڑھ رہے ہو اور انصار نہیں بڑھ رہے ہیں، انصار عہد کے حامل ہیں، میں نے ان کے پاس پناہ لی ، انھوں نے تم سے پہلے مدینہ کو اپنا وطن بنا لیا ، اپنے پر ایمان کو لازم کر لیا، انھوں نے پہلو ں میں تمہیں شریک کیا ، اپنے گھروںمیں تمہارے لئے جگہ بنائی، شریف انصاریوں کی تعظیم اور تکریم کرو، جوان میں کوتاہی کریں ا ن سے در گزر کرو، یاد رکھو کہ انھوں نے باوجود احتیاج کے اپنے نفس پرتم کو ترجیح دی ،