انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** منسوخ آیات قرآنی متقدمین کی اصطلاح میں نسخ کا مفہوم بہت وسیع تھا ،اسی لیے انھوں نے منسوخ آیات کی تعداد بہت زیادہ بتائی ہے لیکن علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے متأخرین کی اصطلاح کے مطابق لکھا ہے کہ پورے قرآن میں کل انیس آیتیں منسوخ ہیں۔ (الاتقان ،علامہ سیوطی:۲،۲۲) پھر آخری دور میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ نے ان انیس آیتوں پر مفصل تبصرہ کرکے صرف پانچ آیتوں میں نسخ تسلیم کیا ہے اور باقی آیات میں ان تفسیروں کو ترجیح دی ہے جن کے مطابق انھیں منسوخ ماننا نہیں پڑتا ان میں سے اکثر آیتوں کے بارے میں شاہ صاحب کی توجیہات نہایت معقول اور قابل قبول ہیں لیکن بعض توجیہات سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے ،جن پانچ آیات کو انھوں نے منسوخ تسلیم کیا ہے وہ یہ ہیں : (۱)کُتِبَ عَلَیْْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَکَ خَیْْراً الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْْنِ وَالأقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُتَّقِیْن۔ (البقرۃ: ۱۸۰) جب تم میں سے کسی کے سامنے موت حاضر ہوجائے اگر وہ مال چھوڑ رہا ہو تو اس پر والدین اور اقرباء کے لیے وصیت بالمعروف کرنا فرض قرار دیدیا گیا ہے ،یہ حکم متقیوں پر لازم ہے ۔ یہ آیت اس زمانے میں لازم تھی جب میراث کے احکام نہیں آئے تھے اور اس میں ہر شخص کے ذمے یہ فرض قرار دیا گیا تھا کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے ترکہ کے بارے میں وصیت کرکے جائے کہ اس کے والدین یا دوسرے رشتہ دار کو کتنا کتنا مال تقسیم کیا جائے ؟بعد میں آیات میراث یعنی یوصیکم اللہ فی اولادکم، الخ (النساء:۱۱) نے اس کو منسوخ کردیا اور اللہ تعالی نے تمام رشتہ داروں میں ترکے کی تقسیم کا ایک ضابطہ خود متعین کردیا اب کسی شخص پر مرنے سے پہلے وصیت کرنا فرض نہیں رہا۔ سورہ ٔ انفال میں ارشاد ہے : إِنْ یَکُن مِّنکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ یَغْلِبُواْ أَلْفاً مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُونَ۔ (الأنفال:۶۵) اگر تم میں سے بیس آدمی استقامت رکھنے والے ہونگے تو وہ دوسو پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سے سو آدمی ہوں گےتو ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے کیونکہ یہ کافر ایسے لوگ ہیں جو صحیح سمجھ نہیں رکھتے۔ یہ آیت اگرچہ بظاہر ایک خبر ہے لیکن معنی کے لحاظ سے ایک حکم ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو اپنے سے دس گنازائددشمن کے مقابلہ سے بھاگنا جائز نہیں یہ حکم اگلی آیت کے ذریعے منسوخ کردیا گیا : اَلآنَ خَفَّفَ اللّہُ عَنکُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفاً فَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُمْ أَلْفٌ یَغْلِبُواْ أَلْفَیْْنِ بِإِذْنِ اللّہِ وَاللّہُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ۔ (الأنفال:۶۶) اب اللہ نے تمہارے لیے آسانی پیدا کردی ہے اور اللہ کو علمٹ ہے کہ (اب)تم میں کچھ کمزوری ہے پس اب اگر تم میں سے ایک ہزار افراد استقامت رکھنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہوں گے تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب ہوں گے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ اس آیت نہ پہلی آیت کے حکم میں تبدیلی پیدا کردی اور دس گنے دشمن کے بجائے دوگنے کی حد مقرر کردی کہ اس حد تک راہ فرار اختیار کرنا جائز نہیں ۔ تیسری آیت جسے حضرت شاہ صاحب نے منسوخ قرار دیا ہے سورۂ احزاب کی یہ آیت ہے : لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَاء مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَکَ حُسْنُہُن۔ (الاحزاب:۵۲) (اے نبی )آپ کے لیے اس کے بعد عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ یہ حلال ہے کہ ان(موجودہ ازواج) کو بدل کر دوسری عورتوں سے نکاح کریں خواہ ان کا آپ کا حسن پسند آئے۔ اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید نکاح کرنے سے منع فرمادیا گیا تھا بعد میں یہ حکم منسوخ کردیا گیا اور اس کی ناسخ آیت وہ ہے جو قرآن کریم کی موجودہ ترتیب میں مذکور بالا آیت سے پہلے مذکور ہے یعنی: "یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِیْ آتَیْتَ أُجُورَہُنَّ"۔ (الاحزاب:۵۰) (اے نبی) ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ ازواج حلال کردی ہیں جنھیں آپ نے ان کا مہر دے دیا ہو۔ حضرت شاہ صاحب وغیرہ کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعہ سابقہ ممانعت منسوخ ہوگئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں نسخ یقینی نہیں ہے’ بلکہ اس کی وہ تفسیر بھی بڑی حد تک بے تکلف اور سادہ ہے جو حافظ ابن جریر نے اختیار کی ہے یعنی یہ کہ یہ دونوں آیتیں اپنی موجودہ ترتیب کے مطابق ہی نازل ہوئی ہیں: یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ۔ (الاحزاب:۵۰) والی آیت میں اللہ تعالی نے کچھ مخصوص عورتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ ان کے ساتھ نکاح آپ کے لیے حلال ہے پھر اگلی آیت لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَاء مِن بَعْد(احزاب:) میں ارشاد فرمایا ہے کہ ان کے علاوہ دوسری عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں۔ (تفسیر ابن جریر) (۴) چوتھی آیت جو حضرت شاہ صاحب کے نزدیک منسوخ ہے ،سورۂ مجادلہ کی یہ آیت : یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا نَاجَیْْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْْنَ یَدَیْْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَۃً ذَلِکَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَأَطْہَرُ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ۔ (المجادلہ: ۱۲) اے ایمان والو جب تم کو رسول سے سرگوشی کرنی ہو تو سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ کردیا کرو یہ تمہارے لیے باعث خیر وہ طہارت ہے پھر اگر تمہارے پاس (صدقہ کرنے کے لیے) کچھ نہ ہوتو اللہ تعالی بخشنے والا اور مہربان ہے، یہ آیت اگلی آیت سے منسوخ ہوگئی۔ أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللہُ عَلَیْْکُمْ فَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ وَأَطِیْعُوا اللہ وَرَسُولَہُ۔ (المجادلہ:۱۳) کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقات پیش کرو پس جب تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے تمہاری توبہ قبول کرلی (اب)نماز قائم رکھو اور زکوۃ ادا کرتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو"اس طرح سرگوشی سے پہلے صدقہ کرنے کا حکم منسوخ قرار دیا گیا ۔ پانچویں آیت سورۂ مزمل کی مندرجہ ذیل آیات ہے : (۱)یَا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ (۲)قُمِ اللَّیْْلَ إِلَّا قَلِیْلاً (۳)نِصْفَہُ أَوِ انقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً اے مزمل(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں)رات کو (تہجد میں) کھڑے رہیے مگر تھوڑا سا حصہ آدھی رات یا اس میں سے بھی کچھ کم کردیجیے"اس آیت میں رات کے کم از کم آدھے حصہ میں تہجد کی نماز کا حکم دیا گیا تھا ،بعد میں اگلی آیتوں نے اس میں آسانی پیدا کرکے سابقہ حکم منسوخ کردیا وہ آیتیں یہ ہیں: عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوہُ فَتَابَ عَلَیْْکُمْ فَاقْرَؤُوا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ :الخ (المزمل: ۲۰)" اللہ کو معلوم ہے کہ تم (آئند)ہے اس حکم کی پابندی نہیں کرسکوگے اس لیے اللہ نے تمہیں معاف کردیا پس تم( اب) قرآن کا اتنا حصہ پڑھ لیا کرو جو تمہارے لیے آسا ن ہو۔ حضرت شاہ صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ تہجد کا حکم واجب تو پہلے بھی نہیں تھا؛ لیکن پہلے اس میں زیادہ تاکید بھی اور اس وقت بھی زیادہ وسیع تھا بعد میں تاکید بھی کم ہوگئی اور وقت کی اتنی پابندی بھی نہ رہی۔ یہ ہیں وہ پانچ آیتیں جن میں حضرت شاہ صاحب کے قول کے مطابق نسخ ہوا ہے لیکن یہ واضح رہے کہ یہ پانچ مثالیں صرف اسصورت کی ہیں جس میں ناسخ اور منسوخ دونوں قرآن کریم کے اندر موجود ہیں اس کے علاوہ ایسی مثالیں قرآن کریم میں باتفاق بہت سی ہیں جن میں ناسخ تو قرآن کریم میں موجود ہے لیکن منسوخ موجود نہیں ہے مثلاً تحویل قبلہ کی آیات وغیرہ۔ (علوم القرآن:۱۷۲)