انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** پانسہ پلٹ گیا غرض مشرکوں کی شکست اورمسلمانوں کی فتح میں اب کوئی شک وشبہ باقی نہ رہا تھا کفار جب مسلمانوں کے مقابلے سے بھاگے ہیں تو دوپہر کا وقت تھا،کفار کو بھاگے ہوئے اوراُن کے جھنڈے کو دیرتک زمین پر پڑے ہوئے دیکھ کر تیر اندازوں کو جو گھاٹی کی حفاظت کے لئے تعینات کئے گئے تھے،اس بات کا شوق اورجوش پیدا ہوا کہ ہم بھی کفار کے تعاقب میں شریک ہوجائیں اُن کے سردار حضرت عبداللہ بن جبیرؓ نے اُن کو ہر چند روکا کہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہ ہو ہم کو اپنی جگہ سے نہیں ہلنا چاہئے مگر فتح کی خوشی اورکفار کے تعاقب کے شوق نے اُن کو کچھ نہ سننے دیا اور انہوں نے اپنی جگہ کو چھوڑدیا،خالد بن ولید جو لشکرِ قریش کے دستہ میمنہ کے افسر تھے،اس گھاٹی کی اہمیت کو خوب تاڑ گئے تھے،انہوں نے اپنے سو سواروں کا دستہ لے کر اورایک میل کا چکر کاٹ کر پہاڑی کے پیچھے ہوکر اسی گھاٹی سے نکل کر ایک لخت مسلمانوں پر حملہ کردیا، عبداللہ بن جبیرؓ اورچند ہمراہی اپنی جگہ موجود تھے لیکن وہ اس دستہ کو روک نہ سکے کیونکہ ان کے ماتحت قریبا ً تمام تیر انداز پہلے ہی اس مقام سے جاچکے تھے،عبداللہ بن جبیرؓ اسی جگہ شہید ہوگئے،اس اچانک حملہ نے جو بالکل غیر متوقع طور پر ہوا اورتیر اندازوں کے جگہ چھوڑدینے کی وجہ سے ہوا مسلمانوں میں کچھ پریشانی سی پیدا کردی اورکفار کا تعاقب چھوڑدیا۔ مسلمانوں کو اس حالت میں دیکھ کر عکرمہ بن ابو جہل نے بھی دوسری طرف سے اپنے سواروں کا دھاوا بول دیا،ساتھ ہی ابو سفیان جو میدان چھوڑ کر فرار ہوچکے تھے،اپنے آدمیوں کو سمیٹ کر اورسب بھاگتے ہوؤں کو روک کر لوٹے اور لشکر کفار نئے جوش اورنئی ہمت کے ساتھ حملہ آور ہوا،مسلمانوں پر یہ تمام حملے یکے بعد دیگرے اوراچانک طور پر ہوئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لڑائی کا رنگ بدل گیا،مسلمان ہر طرف سے کفار کے نرغہ میں آگئے اوران کی جمعیت میں انتشار اورسراسمیگی پیدا ہوگئی،میدانِ جنگ میں یہ صورت ہوگئی کہ جا بجا تھوڑے تھوڑے مسلمان بہت بہت کافروں کے غول میں گھر گئے،ایک کو دوسرے کی خبر نہ رہی اور ہر طرف سے ان پر تلواریں برسنے لگیں،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی صرف بارہ صحابیوں کے ساتھ ایک کفار کے نرغے میں آگئے،حضرت مصعب ؓ بن عمیر علم لئے ہوئے آپ کے قریب ہی استادہ تھے،کفار کے ایک مشہور شہسوار ابن قمیہ لیثی نے حملہ کیا اور حضرت مصعبؓ بن عمیر کو شہید کردیا،حضرت مصعبؓ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم شبیہ تھے اس لئے اس نے سمجھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے،ابن قمیہ نے ایک بلند مقام پر چڑھ کر بلند آواز سے کہا:قَدْ قَتَلْتُ مُحَمَّدًا اس آواز سے مشرکوں کے دل بڑھ گئے اور وہ خوشی سے اُچھلنے لگے، مسلمان اس آواز کو سن کر اپنی اپنی جگہ حیران وششد رہ گئے،کعب بن مالک ؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو بلند آواز سے کہا کہ مسلمانو! خوش ہوجاؤ رسول اللہ زندہ وسلامت موجود ہیں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا:اِلَیَّ عِبَادُاللہِ اَنَاْ رَسُوْلُ اللہِ( خدا کے بندو! میری طرف آؤ میں خدا کا رسول ہوں یہ آواز سُن کر مسلمان ہر طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنے شروع ہوئے کفار سے لڑتے اُن کے حملوں کو روکتے اوران کو مارتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچے ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آواز نے کفار کو بھی بتادیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس جگہ تشریف فرما ہیں،نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی سب اُسی طرف متوجہ ہوگئے اوروہ مقام جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتےتھے لڑائی کا مرکز بن گیا۔ کچھ لوگ مسلمانوں کی فوج کے ایسی حالت اورایسے مقامات پر تھے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچ سکے اورادھر ادھر منتشر ہوگئے،اس پریشانی اورکارزار کے عالم میں عبداللہ بن شہاب زہری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وار کیا،جس سے چہرۂ مبارک زخمی ہوا،ابن قمیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ کر تلوار کا ایسا زبردست ہاتھ مارا کہ خود کے دو حلقے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک میں آنکھ سے نیچے کی ہڈی میں گھس گئے،ان کو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے دانت سے پکڑ کر کھینچا تو ان کے دو دانت ٹوٹ گئے،کفار کی پوری طاقت اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک پر حملے میں صرف ہونے لگی۔