انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مکہ ومدینہ کے واقعات یزید نے جب عمروبن سعد کومدینہ سے کوفہ کی جانب عبیداللہ بن زیاد کے پاس روانہ ہونے کا حکم دیا توعمروبن سعد کی جگہ پھرولید بن عتبہ کومدینہ کا عامل بناکر بھیج دیا تھا؛ یہی ولید بن عتبہ عاملِ مدینہ تھا، جس نے عبداللہ بن جعفر کی فرمائش سے ایک تحریر اس امر کی لکھ دی تھی کہ اگرامام حسین رضی اللہ عنہ مدینہ میں آجائیں توان کوامان ہے، یہ تحریر اپنے خط کے ساتھ عبداللہ بن جعفر نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے بیٹوں عون ومحمد کے ہاتھ بھیجی تھی، جب وہ کوفہ جارہے تھے، مکہ سے یزید کی حکومت اٹھ چکی تھی، وہاں عبداللہ بن زبیر حکمران تھے، جب امام حسین رضی اللہ عنہ کے شہید ہونے کی خبر مکہ میں پہنچی توعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کوجمع کرکے ایک تقریر کی اور کہا کہ: لوگو! دنیا میں عراق کے آدمیوں سے برے کہیں کے آدمی نہیں ہیں اور عراقیوں میں سب سے بدتر کوفی لوگ ہیں؛ انھوں نے بار بار خطوط بھیج کرباصرار امام حسین رضی اللہ عنہ کوبلایا اور ان کی خلافت کے لیے بیعت کی؛ لیکن جب ابنِ زیادکوفہ میں آیا تواسی کے گرد ہوگئے اور امام حسینؓ کوجونماز گذار، روزہ دار، قرآن خواں اور ہرطرح مستحقِ خلافت تھے، قتل کردیا اور ذرا بھی خدا کا خوف نہ کیا۔ یہ کہہ کر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ روپڑے، لوگوں نے کہا کہ اب آپ سے بڑھ کرکوئی مستحقِ خلافت نہیں ہے، آپ ہاتھ بڑھائیے، ہم آپ کے ہاتھ پربیعت کرتے اور آپ کوخلیفہ وقت مانتے ہیں؛ چنانچہ تمام اہلِ مکہ نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پربیعت کی، بیعتِ خلافت کی یہ خبریزیدکوپہنچی تواس نے ایک چاندی کی زنجیر بنواکر دوآدمیوں کے ہاتھ ولید بن عتبہ کے پاس مدینہ میں بھیجی اور لکھا کہ عبداللہ بن زبیر کے گلے میں یہ زنجیر ڈال کراور مکہ سے گرفتار کرکے میرے پاس بھیجو؛ لیکن بعد میں وہ اپنی اس حرکت پرخود ہی متاسف ہوا؛ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ آسانی سے اپنے گلے میں زنجیر ڈلوانے والے نہیں ہیں؛ چنانچہ ولید بن عتبہ نے اس حکم کی کوئی تعمیل نہیں کی، یزید بھی سوچتا رہا کہ کس طرح عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کوقابو میں لایا جائے اور خانہ کعبہ کی حرمت کوبھی کشت وخون سے نقصان نہ پہنچایا جائے۔ ماہ ذی الحجہ سنہ۶۱ھ میں حج کے لیئے مکہ میں اطراف وجوانب سے لوگ آنے شروع ہوئے، یزید کی طرف سے ولید بن عتبہ عاملِ مدینہ حج امیر ہوکرمکہ میں گئے، ادھر عبداللہ بن زبیر جدا امیرحج تھے؛ غرض دونوں نے جدا جدا اپنے گروہ کے ساتھ حج کیا اور کسی نے کسی کی مخالفت نہ کی، ولید بن عتبہ نے ایسی تدبیریں شروع کردیں کہ کسی طرح عبداللہ بن زبیر کوگرفتار کرکے یزید کی خوشنودی حاصل کرسکے، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ولید کےارادوں سے واقف ہوگئے اور انھوں نے ایامِ حج کے بعد مطمئن ہوکر یزید کوایک خط لکھا کہ: ولید اگرچہ تیرا چچازاد بھائی ہے؛ لیکن بہت ہی بیوقوف ہے اور اپنی بیوقوفی سے کاموں کوتباہ کررہا ہے، مناسب یہ ہے کہ کسی دوسرے کومدینہ کا عامل بنا۔ اس خط کے پڑھنے سے یزید بہت متاثر ہوا، اس نے سمجھا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا دل میری طرف سے صاف ہے اور وہ ہرگز میرے مخالف نہیں ہیں، اس سے پیشتر چونکہ مروان بن حکم بھی ولید کی شکایت میں اس قسم کے الفاظ لکھ چکا تھا، اس لیے عبداللہ بن زبیر کے اس خط کی نسبت یزد کوکسی بدگمانی کا موقع نہیں ملس کتا تھا؛ لہٰذا اس نے فوراً ولید بن عتبہ کومعزول کرکے اس جگہ اپنے دوسرے چچازاد بھائی عثمان بن محمد ابی بن سفیان کومدینہ کا حاکم بناکر بھیج دیا۔ عثمان بن محمد نے مدینہ میں آکرمے خوری شروع کردی جس سے لوگ بہت ہی ناخوش اور بددل ہوئے، عثمان محرم سنہ۶۲ھ میں مدینہ کا عامل مقرر ہوکر آیا، چند روز کے بعد اس نے شرفائے مدینہ میں سے دس شخص انتخاب کرکے یزید کے پاس دمشق کی جانب بھیجے، اس وفد میں منذر بن زبیر اور عبداللہ بن حنظلہ، عبداللہ بن عمرو بن حفص بن مغیرہ بھی شامل تھے، یہ لوگ جب دمشق میں پہنچے تویزید نے ان کی خوب خاطر مدارات کی اور اوّل الذکر دونوں شخص کوایک ایک لاکھ روپے اور باقی آٹھ شخصوں کودس دس ہزار درہم انعام کے دے کررخصت کیا؛ انھوں نے دمشق میں یزید کوبھی گانے بجانے کی محفلیں برپاکرنے اور خلافِ شرع کاموں میں مصروف دیکھا تھا، واپسی میں سب نے ارادہ کیا کہ یزدی کی خلافت کے خلاف کوشش کرنی چاہیے، دمشق سے نوشخص تومدینہ کی طرف واپس آئے تھے اور ایک شخص منذر بن زبیر کوفہ کی طرف چلے گئے تھے؛ کیونکہ عبیداللہ بن زیاد اور منذر بن زبیر کے درمیان دوستی تھی؛ انھوں نے عبیداللہ کی ملاقات کے لیئے کوفہ کا عزم کیا تھا، جب عبداللہ بن حنظلہ معہ ہمرائیوں کے مدینہ میں آئے تولوگ حالات معلوم کرنے کی غرض سے اُن کے گرد جمع ہوئے۔