انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت حمید ساعدیؓ نام ونسب عبدالرحمن نام، ابو حمید کنیت، قبیلہ خزرج کے خاندان ساعدہ سے ہیں،سلسلۂ نسب یہ ہے، عبدالرحمن بن سعد بن منذر بن سعد بن خالد بن ثعلبہ بن حارثہ بن عمروبن خزرج بن ساعدہ،والدہ بھی اسی قبیلہ سے تھیں، ان کا پورا نام یہ ہے، امامہ بنت ثعلبہ بن جبل بن امیہ بن عمرو بن حارثہ بن عمرو بن خزرج۔ اسلام غالباً ہجرت کے بعد اسلام قبول کیا۔ غزوات احد اور ما بعد کے تمام غزوات میں شریک ہوئے ،وادی القریٰ اورتبوک کی شرکت خود ان کی روایت سے ثابت ہوتی ہے۔ وفات امیر معاویہؓ کے آخر عہدِ خلافت یا یزید کے ابتدائی دور حکومت میں وفات پائی ۔ اولاد ایک لڑکا چھوڑا، منذر نام تھا۔ فضل وکمال ان کے سلسلہ سے ۲۶ حدیثیں مروی ہیں، حضرت جابرؓ بن عبداللہ،عروہ بن زبیر، عباس بن سہل،محمد بن عمروبن عطاء خارجہ بن ثابت عبدالملک بن سعید بن سوید، عمروبن سلیم زرقی، اسحاق بن عبداللہ بن عمرو، سعید بن منذر (پوتے تھے) عبدالرحمن بن سعید جیسے اکابر اِن سے حدیث روایت کرتے ہیں۔ روایت حدیث میں سخت محتاط تھے،ایک مرتبہ ایک حدیث بیان کی تو فرمایا :" سَمِعَ أُذُنِي وَأَبْصَرَ عَيْنِي وَسَلُوا زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ"(مسند احمد،باب حدیث ابی حمید الساعدیؓ،حدیث نمبر:۲۲۴۹۲) اس واقعہ کو میرے کانوں نے سنا اورآنکھوں نے دیکھا، اس کو زید بن ثابت سے پوچھ سکتے ہو۔ اس کا سبب جیسا کہ ابو حمیدؓ کی حدیث سے ثابت ہے،آنحضرتﷺ کا یہ ارشاد ہے۔ (مسند احمد:۵/۲۲۴) أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا سَمِعْتُمْ الْحَدِيثَ عَنِّي تَعْرِفُهُ قُلُوبُكُمْ وَتَلِينُ لَهُ أَشْعَارُكُمْ وَأَبْشَارُكُمْ وَتَرَوْنَ أَنَّهُ مِنْكُمْ قَرِيبٌ فَأَنَا أَوْلَاكُمْ بِهِ وَإِذَا سَمِعْتُمْ الْحَدِيثَ عَنِّي تُنْكِرُهُ قُلُوبُكُمْ وَتَنْفِرُ أَشْعَارُكُمْ وَأَبْشَارُكُمْ وَتَرَوْنَ أَنَّهُ مِنْكُمْ بَعِيدٌ فَأَنَا أَبْعَدُكُمْ مِنْهُ (مسند احمد،باب حدیث ابی اسید الساعدیؓ،حدیث نمبر:۱۵۴۷۸) آنحضرتﷺنے فرمایا جب تم کسی سے میری کوئی حدیث سنو تو یہ دیکھو تمہارا دل کیا گواہی دیتا ہے، اگر دل بول اٹھے، نفس نرم ہوجائے اورعقل صحیح سمجھے تو میرا کلام ہونے میں کچھ شک نہیں اور اگر دل کراہت کرے،طبیعت متنفر ہو اور بعید از قیاس معلوم ہو تو میرا قول ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہ حدیث درحقیقت احادیث کے پرکھنے اورجانچنے کی کسوٹی ہے،شارع علیہ السلام کا ہر ہر لفظ احکام ،اسرار شریعت،مصالح عامہّ تزکیۂ باطن اور اثر وتاثیر میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے، اس بنا پر جو حدیث ان اوصاف سے خالی ہو اس کے جعلی اور موضوع ہونے میں کیا کلام ہوسکتا ہے، صحابہ میں فن درایت اسی کی بدولت پیدا ہوا تھا۔ اخلاق ان کے تمام اوصاف میں خدمت رسول اللہ ﷺ زیادہ نمایاں ہے ،ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں خالص دودھ جس کو خوب سر د کیا تھا پیالہ میں لے کر آئے، لیکن کھلا لائے تھے، ارشاد ہوا اس کو ڈھانپ کے لاتے خواہ لکڑی ہی رکھ کر۔ (مسند:۵/۴۲۵) آنحضرتﷺ کی نماز اچھی طرح محفوظ رکھی تھی، ایک مرتبہ صحابہؓ کے مجمع میں( جن کی تعداد مسند میں ۱۰ ہے اور ابو قتادہؓ کے بھی وہاں موجود ہونے کا تذکرہ ہے)انہوں نے کہا:" ان احفظکم بصلاۃ رسول اللہ"یعنی مجھے رسول اللہ ﷺکی نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے۔ (مسند:۵/۴۲۵،بخاری باب سنۃ الجلوس فی التشہد،جلد۱)