انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** یزید کی ولیعہدی اورابن زبیرؓ کی مخالفت جنگ جمل میں خالہ کی محبت اورناموس نبوت کی حمایت میدان جنگ میں کھینچ لائی تھی،لیکن اس کے بعد صفین کی خانہ جنگی میں مطلق کوئی حصہ نہیں لیا؛بلکہ رفع شر کے خیال سے امیر معاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اوراس وقت تک اس بیعت پر قائم رہے جب تک امیر معاویہ نے اسلامی خلافت کو موروثی سلطنت بنانے کی کوشش نہیں کی، لیکن جب انہوں نے یزید کو ولیعہد بنانے کا ارادہ کیا تو ابن زبیرؓ نے اس کی بڑی پر زور مخالفت کی ؛چنانچہ جب امیر معاویہؓ یزید کی بیعت لینے کے لئے مدینہ آئے اورحضرت حسینؓ، عبدالرحمن بن ابی بکرؓ، وغیرہ کو بلایا تو ان لوگوں نے ان سے گفتگو کرنے کے لئے ابن زبیرؓ کو اپنا نمائندہ منتخب کیا،امیر معاویہؓ نے ان بزرگوں سے کہا کہ تم لوگوں کے ساتھ میرا جو طرز عمل ہے تمہارے ساتھ جس قدر صلہ رحمی کرتا ہوں اورتمہاری جتنی باتیں انگیز کرتا ہوں وہ سب تم کو معلوم ہیں، یزید تمہارا بھائی اورتمہارا ابن عم ہے میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ تم لوگ صرف نام کے لئے اس کو خلیفہ کا لقب دیدو، باقی عمال کا عزل ونصب خراج کی تحصیل وصول اوراس کا صرف سب تم ہی لوگوں کے ہاتھوں میں رہےگا اوروہ اس میں کوئی مزاحمت نہ کریگا، یہ سن کر سب خاموش ہوگئے، کسی نے کوئی جواب نہ دیا، ان کی خاموشی پر امیر معاویہؓ نے ابن زبیرؓ سے کہا تم ان کے خطیب اورنمائندہ ہو اس لئے تم جواب دو، انہوں نے کہا اگر آپ رسول اللہ ﷺ ،ابوبکرؓ اورعمر ؓ میں سے کسی ایک کا طریقہ انتخاب بھی اختیار کیجئے تو اس کے قبول کرنے میں ہم کو کوئی عذر نہ ہوگا، امیر نے کہا ان لوگوں کا طریقہ کیا تھا؟ ابن زبیرؓ نے جواب دیا رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات کے وقت کسی کو اپنا خلیفہ نہیں بنایا، آپ کے بعد مسلمانوں نے ابوبکرؓ کو منتخب کرلیا،امیر معاویہؓ نے کہا یہ سچ ہے،لیکن آج ہم میں ابوبکرؓ جیسی شخصیت کسی کی ہے جس پر سب کا اتفاق ہوجائے، ایسی صورت میں تو اختلاف کے اورزیادہ بڑھنے کا خطرہ ہے،ابن زبیرؓ نے کہا تو پھر ابوبکرؓ کا طریقہ اختیار کیجئے کہ انہوں نے ایک ایسے شخص کو خلیفہ بنایا، جس کا نسبی تعلق قریش سے بہت دور پر ملتا تھا اور وہ ان کا عزیز بھی نہ تھا، یا عمرؓ کا طریقہ اختیار کیجئے کہ انہوں نے چھ آدمیوں کا انتخاب کرکے ان میں سے ایک کا انتخاب مجلس شوریٰ پر چھوڑ دیا اورچھ آدمیوں میں سے کوئی بھی نہ ان کی اولاد میں تھا اورنہ ان کے باپ کی اولاد میں ،امیر معاویہ نے کہا اس کے علاوہ کوئی اور صورت ہے؟ ابن زبیرؓ نے کہا نہیں۔ (ابن اثیر:۳/۴۲۲) اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کی تفصیل امیر معاویہؓ کے حالات میں گذر چکی ہے، اس لئے یہاں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ،امیر معاویہؓ ابن زبیرؓ کی اس دلیری اورجرأت سے ہمیشہ ان سے کھٹکتے رہے؛چنانچہ اپنی وفات کے وقت جب انہوں نے ابن زبیرؓ اور ان کے معاصرین کے متعلق یزید سے وصیت کی تو ابن زبیرؓ کے خطرہ سے اس کو خاص طور سے آگاہ کیا کہ جو شخص لومڑی کی طرح کا داؤدے کر شیر کی طرح حملہ آور ہوگا وہ عبداللہ بن زبیرؓہے اگر وہ مصالحت کرلیں تو فبہا ورنہ قابو پانے کے بعد ان کو ہرگز نہ چھوڑنا۔