انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جہنم سے دوزخیوں کا نجات طلب کرنا اللہ تعالی سے نجات کی درخواست "قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّينَ ، رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ ، قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُکَلِّمُونِ" (المؤ منون:۱۰۶،۱۰۸) (ترجمہ)اے ہمارے رب ہماری بد بختی نے ہم کو(ہمارے ہاتھوں)گھیر لیا تھا اور(بے شک)ہم گمراہ لوگ تھے (یعنی ہم جرم کا اقرار اور اس پر ندامت و معذرت کا اظہار کرکے درخواست کرتے ہیں کہ)اے ہمارے رب ہم کو اس (جہنم)سے (اب)نکالدیجئے(اوردوبارہ دنیا میں بھیج دیجئے)پھر اگر ہم (دوبارہ (ایسا)کریں تو ہم بے شک پورے قصور وار ہیں (اس وقت ہم کو خوب سزا دیجئے اور اب چھوڑ دیجئے) ارشاد ہوگا کہ اس(جہنم)میں راندے ہوئے پڑے رہو اور مجھ سے بات مت کرو(یعنی ہم منظور نہیں کرتے) مالک فرشتہ سے موت کی درخواست اللہ تعالی کا دوسرا فرمان: "وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّکَ قَالَ إِنَّكُمْ مَاكِثُونَ" (الزخرف:۷۷) (ترجمہ)اور(جب نجات سے بالکل مایوس ہوجائیں گے اس وقت موت کی تمنا کریں گے اور دوزخ کے داروغہ مالک نامی فرشتہ کو)پکاریں گے کہ اے مالک !(تم ہی دعا کرو کہ)تمہارا پروردگار (ہم کو موت دے کر) ہمارا کام ہی تمام کردے وہ(فرشتہ)جو اب دے گا تم ہمیشہ اسی حال میں رہو گے۔(نہ نکلو گے نہ مروگے) دوزخ کے داروغوں سے عذاب کی کمی کی درخواست اللہ تعالی کا تیسرا فرمان: "وَقَالَ الَّذِينَ فِي النَّارِ لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ ادْعُوا رَبَّكُمْ يُخَفِّفْ عَنَّا يَوْمًا مِنَ الْعَذَابِ،قَالُوا أَوَلَمْ تَكُ تَأْتِيكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا بَلَى قَالُوا فَادْعُوا وَمَا دُعَاءُ الْکَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ" (مومن:۴۹،۵۰) (ترجمہ)اورجتنے لوگ دوزخ میں ہوں گے(سب ملکر)جہنم کے مؤکل فرشتوں سے(درخواست کے طور پر)کہیں گے کہ تم(ہی)اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ کسی دن تو ہم سے عذاب ہلکا کردے (یعنی عذاب کے بالکل ہٹ جانے یا ہمیشہ کے لئے کم ہو جانے کی امید تو نہیں، کم از کم ایک روز کی تو کچھ چھٹی مل جایا کرے)فرشتے کہیں گے کہ (یہ بتلاؤ)کیا تمہارے پاس پیغمبر معجزات لے کر نہیں آتے رہے تھے(اور دوزخ سے بچنے کا طریقہ نہیں بتلاتے رہے تھے) دوزخی کہیں گے ہاں(آتے رہے تھے)مگر ہم نے ان کا کہانہ مانا) فرشتے کہیں گے کہ تو پھر(ہم تمہارے لئے دعا نہیں کرسکتے کیونکہ کافروں کے لئے دعا کرنے کی ہم کو اجازت نہیں ہے) تم ہی(اگر جی چاہے تو خود) دعا کرلواور (تمہاری دعا کا بھی کچھ نتیجہ نہ ہوگا کیونکہ) کافروں کی دعاء (آخرت میں )محض بے اثر ہے (کیونکہ آخرت میں کوئی دعا بغیر ایمان کے قبول نہیں ہوسکتی اور ایمان کا موقع دنیا ہی میں تھا وہ تم کھوچکے) دوزخ سے نکل کر دنیا میں نیک عمل کرنے کی درخواست اللہ تعالی کا فرمان ہے: "وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَکَرُ فِيهِ مَنْ تَذَکَرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ نَصِيرٍ" (فاطر:۳۷) (ترجمہ)اور وہ لوگ اس (دوزخ) میں (پڑے ہوئے) چلائیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو(یہاں سے )نکال دیجئے ہم (اب خوب) اچھے(اچھے)کام کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو (پہلے)کیا کرتے تھے (ارشاد ہوگا کہ) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا اور(صرف عمر ہی دینے پر اکتفاء نہیں کیا؛بلکہ)تمہارے پاس (ہماری طرف سے)ڈرانے والا (نبی پیغمبر) بھی پہنچا تھا(خواہ بواسطہ یا بلا واسطہ مگر تم نے ایک نہ سنی)سو (اب اس نہ ماننے کا)مزہ چکھو کہ ایسے ظالموں کا (یہاں)کوئی مدد گار نہیں (ہم تو بوجہ ناراضی کے مدد نہ کریں گےاور دوسرے لوگ بوجہ عدم قدرت کے)۔ دوزخیوں کی فریاد (حدیث) دوزخیوں کے ذکر میں حضرت ابو الدرداءؓ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے دوزخیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "فیقولون:ادعوا خزنۃ جھنم فیقولون:أَوَلَمْ تَكُ تَأْتِيكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا بَلَى قَالُوا فَادْعُوا وَمَا دُعَاءُ الْکَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ " (مؤمن:۵۰) "قال :فیقولون: ادعوا مالکا فیقولون:يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّکَ قَالَ إِنَّكُمْ مَاكِثُونَ" (الزخرف:۷۷) (ترجمہ)اہل جہنم کہیں گے دوزخ کے داروغوں کو(مدد کیلئے)پکارو تو وہ داروغے جواب میں کہیں گے کیا تمہارے پاس پیغمبر معجزات لے کرکے نہیں آئے تھے؟ وہ کہیں گے ہاں آئے تھے، تو فرشتے کہیں گے،اب خود ہی دعا کرتے رہو لیکن (اس وقت )کافروں کی دعا بے فائدہ ہوگی،حضورﷺ نے فرمایا اس کے بعد وہ کہیں گے کہ(داروغہ جہنم)مالک (فرشتہ)کو(مدد کے لئے) پکارو تو و ہ کہیں گے اے مالک اپنے رب سے(دعا کرو کہ)وہ ہمارے لئے موت کا فیصلہ فرمادے،تو وہ جواب دے گا(اب)تم (ہمیشہ کے لئے یہاں جہنم میں ہی) رہو گے۔ دوزخیوں کی پکار اور مالک فرشتہ کے جواب کا درمیان (فائدہ)امام اعمشؒ فرماتے ہیں مجھے بتلایا گیا ہے کہ دوزخیوں کی پکار اورمالک (فرشتہ)کے جواب کے درمیان ایک ہزار سال کا زمانہ گذر جائے گا۔ امام اعمش فرماتے ہیں پھر دوزخی لوگ کہیں گے کہ تم اپنے پرور دگار کو ہی پکارو تمہارے رب کے علاوہ کوئی بھی تمہارے حال پر رحم کھانے والا نہیں ہے، تو وہ اس وقت کہیں گے اے ہمارے رب ہم پر ہماری بد بختی غالب آگئی اور ہم گمراہ لوگ تھے،اے ہمارے رب (اب)ہمیں دوزخ سے نکال دیجئے(اور دنیا میں بھیج دیجئے) اس کے بعد اب اگر ہم نے ویسا کیا تو ہم بڑے ظالم ہوں گے فرمایا کہ اللہ تعالی انہیں جواب میں فرمائیں گے اسی(جہنم)میں راندے ہوئے پڑے رہو اور مجھ سے بات مت کرو۔ امام اعمش فرماتے ہیں، پس اس وقت یہ لوگ ہرطرح کی خیر سے نا امید ہوجائیں گے اور اسی وقت سے وہ حسرت،چیخنے چلانے اور موت کو طلب کرنا شروع کردیں گے۔ (ترمذی مرفوعا وموقوفا علی ابی الدرداء) (منہ)