انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عاصم بن ثابت نام ونسب عاصم نام، ابو سلمان کنیت، قبیلۂ اوس سے ہیں ،نسب نامہ یہ ہے، عاصم بن ثابت بن قیس ابی الاقلح بن عصمۃ بن نعمان بن مالک بن امتہ بن ضبیعہ بن زید بن مالک بن عوف بن عمرو بن عوف بن مالک بن اوس اسلام ہجرت سے قبل اسلام لائے۔ غزوات بدر میں شریک تھے، آنحضرتﷺ نے پوچھا کیونکر لڑوگے؟ تیر وکمان لے کر اٹھے اورکہا کہ جب ۲۰۰ ہاتھ کا فاصلہ ہوگا تو تیر مارونگا ،اس سے قریب ہوں گے تو نیزہ اور نزدیک تر ہونگے تو تلوار کا وار کرونگا، آنحضرتﷺ نے فرمایا لڑائی کا یہی قاعدہ ہے تم لوگ اسی طرح لڑنا۔ (اصابہ:۴/۳) صفر ۳ھ میں آنحضرتﷺ نے ان کی ماتحتی میں دس آدمی دیکر جاسوسی کے لئے روانہ کیا، عسفان اور مکہ کے درمیان ہدہ ایک مقام ہے وہاں پہنچے تو بنو لحیان کو خبر ہوگئی اس نے سو تیر انداز بھیجے کہ مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روک دیں، ،صحابہؓ کے پاس مدینہ کے خرمے تھے، ان کی گٹھلیاں راستہ میں پڑی تھیں، تیر اندازوں نے کہا یہ ضرور یثرب کے چھوہارے ہیں عاصمؓ کو ان کی آمد کا پتہ چلا، تو اپنے ساتھیوں کو لے کر ایک پہاڑی پر چڑھ گئے ان لوگوں نے آکر محاصرہ کرلیا اور کہا کہ نیچے اتر آؤ تو جان بخشی کی جائے گی، عاصمؓ نے کہا مسلمانو! میں کسی کافر کے ذمہ نہ رہوں گا، پھر فرمایا خدایا! رسول اللہ ﷺ کو ہماری خبر کردے۔ شہادت کفار نے یہ دیکھ کر تیر برسانا شروع کئے جس سے حضرت عاصمؓ نے سات آدمیوں کے ساتھ شہادت پائی۔ (بخاری:۲/۵۶۸،۵۸۵) قریش کو ان کے قتل ہونے کی خبر معلوم ہوئی تو نہایت خوش ہوئے کہ عقبہ بن ابی معیط کا قاتل دنیا سے اٹھ گیا،آدمی بھیجے کہ ان کے جسم کا کوئی حصہ لاکر دکھائیں مصنف استیعاب کا بیان ہے کہ ان کے جسم کو جلا کر قریش آتشِ انتقام کو سرد کرنا چاہتے تھے۔ (کتاب مذکور:۲/۵۱۳) عقبہ کے ساتھ طلحہ کے دو بیٹوں کو بھی انہوں نے قتل کیا تھا، ان کی ماں نے جس کا نام سلافہ تھا منت مانی تھی کہ حضرت عاصمؓ کا سر ملے گا تو کھوپڑی میں شراب پیوں گی! قریش کو تجارت کا موقع ملا کہ اس کے ہاتھ عاصمؓ کا سرفروخت کریں۔ (اسد الغابہ:۳/۳) عاصمؓ نے خدا سے دعا کی تھی کہ مجھے کوئی مشرک نہ چھوئے اور نہ میں ان میں سے کسی کو مس کرونگا یہ لوگ وہاں پہنچے، تو کثرت سے شہد کی مکھیاں دیکھیں، لاش کے اٹھانے میں کامیابی نہ ہوئی تو مشورہ کیا کہ رات کو جب مکھیاں نہ ہونگی، اس وقت سرکاٹیں گے،اتفاق یہ کہ خوب بارش ہوئی اوراس نے سیلاب کی شکل اختیار کرلی اورحضرت عاصمؓ کا جسم اطہر اسی میں بہہ گیا۔ (اسدالغابہ:۷۳،۷۴) اولاد لڑکے کا نام محمد تھا، عرب کا مشہور شاعر ا حوص انہی کا بیٹا تھا۔ حضرت عاصمؓ کی بہن جمیلہ حضرت عمرؓ کو منسوب تھیں،عاصم بن عمر انہی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ اخلاق جوش ایمان، حب رسول، پاکبازی اوربہادری کے عظیم الشان اوصاف حضرت عاصمؓ کی سیرت کے جلی عنوانات ہیں، ان تمام باتوں کی تفصیل اوپر گذرچکی ہے۔