انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** نفاق یہود حجاز جن اخلاقی کمزوریوں کا شکار تھے، ان میں سب سے اہم منافقت ہے، یہ روح انسانی کے لیے ایسا روگ ہے جوانسان کی تمام اخلاقی خوبیوں اور فطری صلاحیتوں کو ختم کردیتا ہے، جس فردیاجماعت میں یہ مرض پیدا ہوجائے اس سے کسی خیر کی اُمید نہیں کی جاسکتی؛ چنانچہ یہود حجاز کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ان میں بھی نفاق نے اچھی طرح گھر کرلیا تھا؛ انھوں نے اسلام کے بارے میں مسلسل نفاق کا ثبوت دیا اور ان کی وجہ سے مدینہ منورہ میں ایک ایسا گروہ تیار ہوگیا تھا جومرتے دم تک اس روگ میں مبتلا رہا اور اسلام اور مسلمانوں کونقصان اور اذیت پہنچاتا رہا، قرآن کہتا ہے: وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنْزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ۔ (آل عمران:۷۲) ترجمہ:اہلِ کتاب کے ایک گروہ نے (ایک دوسرے) کہا ہے کہ: جوکلام مسلمانوں پرنازل کیا گیا ہے، اس پردن کے شروع میں توایمان لے آؤ اور دن کے آخری حصے میں اس سے انکار کردینا، شاید اس طرح مسلمان (بھی اپنے دین سے) پھرجائیں۔ (توضیح القرآن:۱/۲۰۲، مفتی تقی عثمانی) بعض یہودیوں نے مسلمانوں کواسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے یہ اسکیم بنائی تھی کہ ان میں سے کچھ لوگ صبح کے وقت اسلام لانے کا اعلان کردیں اور پھرشام کویہ کہہ کراِسلام سے پھرجائیں کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوقریب سے جاکر دیکھ لیا، آپ وہ پیغمبر نہیں ہیں جن کی خبر تورات میں دی گئی تھی، ان کا خیال تھا کہ اس طرح کچھ مسلمان یہ سوچ کراِسلام سے برگشتہ ہوسکتے ہیں کہ یہ لوگ جوتورات کے عالم ہیں جب اسلام میں داخل ہونے کے بعد بھی اس نتیجے پرپہنچے ہیں توان کی بات میں ضرور وزن ہوگا۔ (توضیح القرآن:۱/۲۰۲، ۲۰۳،مفتی تقی عثمانی،ناشر: فرید بکڈپو، نئی دہلی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلماور اسلام کے ساتھ انھوں نے مستقلاً جومنافقانہ طرزِ عمل اختیار کرکھا تھا، اس کی پوری تصویر ان آیتوں میں آگئی ہے، وہ مسلمانوں ہی کے ساتھ نفاق نہیں برتتے تھے؛ بلکہ اس عادتِ بد کی وجہ سے اپنوں تک سے منافقانہ پیش آتے تھے او رایک دوسرے کودھوکا اور فریب دیتے تھے، غزوات کے سلسلہ میں متعدد مواقع پرانھوں نے خود ایک دوسرے کودھوکا دیا، مثلاً غزوۂ بنو نضیر اور غزوۂ خندق وغیرہ کے مواقع پر۔