انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بعد از اسلام انصار میں اسلام کی ابتداء یہ بار بار لکھا جاچکا ہے کہ انصار ایام جاہلیت میں حج کرتے تھے اورسالانہ مکہ آتے تھے،اس کے علاوہ باہمی خانہ جنگیوں کے باعث ان میں جو کمزوری پیدا ہوگئی تھی،اس کا یہ اثر تھا کہ یہود ان کو دبانا چاہتے تھے اورمدینہ کو ان کے قبضہ سے نکال لینے کی فکر کرتے تھے ،پھر خود اوس وخزرج میں اس قدر عنا د پیدا ہوگیا تھا کہ اوس قریش کے حلیف بننے کے لئے مکہ آئے تھے؛لیکن ابوجہل کی وجہ سے یہ تعلقات قائم نہ ہوسکے اوران کو ناکام واپس ہونا پڑا، یہ وجوہات تھے جن کی وجہ سے انصار کو مکہ آنا پڑتا تھا۔ نبوت کے ابتدائی زمانہ میں انصار کی آمدورفت مکہ میں برابر جاری تھی؛چنانچہ سب سے پہلے اہل مدینہ میں سے جس کو حاملِ وحی کی زبان سے دعوت اور قرآن مجید کی آیات سننے کا اتفاق ہوا، وہ سوید بن صامت تھا، سوید قبیلۂ عمرو بن عوف میں ایک ممتاز آدمی تھا اور چونکہ صحت جسمانی،شرافتِ نسب اورشاعری کا جامع تھا،اس لئے اس کے قبیلے والے اس کو عام عرب کی عادت کے مطابق کامل کے لقب سے پکارتے تھے ،وہ حج یا عمرہ کی غرض سے مکہ آیا،تو آنحضرتﷺ سے ملاقات ہوئی، اسلام کی تبلیغ سن کر بولا کہ جو تمہارے پاس ہے وہی میرے پاس بھی ہے، آنحضرتﷺ نے فرمایا:تمہارے پاس کیا ہے؟ کہا صحیفہ لقمان، ارشاد ہوا،مجھ کو سناؤ، اس نے کچھ سنایا تو آنحضرتﷺ نے خوشنودی ظاہر کی اورفرمایا،میرے پاس اس سے بھی بہتر چیز ہےاوروہ قرآن ہے،اس نے قرآن سنا توبہت پسند کیا؛لیکن نتیجہ صرف اس قدر نکلا کہ ابن ہشام کے قول کے مطابق:فلم یبعد منہ،وہ اسلام سے دور نہیں رہا۔ مکہ سے مدینہ واپس ہوا اوروہاں خزرج نے اس کو قتل کردیا،عمروبن عوف کا گمان ہے کہ وہ مسلمان مرا،یہ بعاث سے قبل کا واقعہ ہے۔(سیرۃ ابن ہشام:۱/۲۳۲،۲۳۳) اس کے بعد ابو المیسر انس بن رافع ،عبدالاشہل کے چند آدمیوں کو لے کر جن میں ایاس بن معاذ بھی تھے قریش سے حلف قائم کرنے کے لئے مکہ آئے،آنحضرتﷺ کو خبر ہوئی تو اس مجمع کے پاس تشریف لے گئے اوراسلام کی دعوت دی۔ قرآن مجید کو سن کرایاس جو ابھی کمسن تھے ،بول اٹھے کہ تم جس کام کے لئے آئے ہو، یہ اس سے بہتر ہے،ابوالمیسر نے یہ سن کر ایاسؓ کے کچھ کنکریاں پھینک ماریں،وہ خاموش ہورہے اورمدینہ پہنچ کر وفات پائی، آنحضرتﷺ کی اتنی دیر کی صحبت میں ایاسؓ نے اسلام کو جو کچھ سمجھا تھا ،وہ اس سے ظاہر ہے کہ مرتے وقت وہ برابر تکبیر کہتے اورخدا کی حمدلوگوں کو سناتے رہے،اسی وجہ سے ان کے قبیلے کے لوگ ان کو مسلمان سمجھتے تھے۔(مسند ابن حنبل:۵/۲۴۷) اوربے شبہ وہ مسلمان بھی تھے۔ رضی اللہ تعالی عنہ ابن واضح کاتب عباسی نے لکھا ہے کہ ایاسؓ اوسیوں کے ساتھ آئے تھے اوران کے ہمراہ اسعد بن زرارہ بھی تھے؛لیکن ہمارے خیال میں یہ ان کی غلطی ہے اوسی جس مقصد سے آئے تھے وہ یہ تھا کہ خزرج سے مقابلہ کرنے کے لئے قریش کے حلیف بنیں،اس بنا پر وہ خزرج کے کسی آدمی کو اپنے ساتھ نہیں لاسکتے تھے اورچونکہ اسعد بن زرارہ بنو نجار سے تھے جو خزرج کا ایک خاندان تھا،اس لئے ان کا ساتھ آنا کیونکر ممکن تھا؟ یہ صرف ہمارا قیاس نہیں ہے ؛بلکہ واقعات بھی اس کی تائید کرتے ہیں، جنگ معبس اورمضر س میں جب اوس نے شکست کھائی تو قریش سے حلف کا تعلق قائم کرنے مکہ گئے تھے؛لیکن کس طرح گئے تھے؟ اس کا جواب ابن اثیر کی زبان سے سننا چاہئے: (ابن اثیر:۱/۵۰۷،۵۰۸) واظھروانھمیریدون العمرۃ وکانت عادتھم انہ اذااراداحدھم العمرۃ اوالحج لم یعرض الیہ خصمہ ویعلق المعتمر علی علی بیتہ کرانیف النخل ففعلواذلک اور انہوں(اوس) نے (حلف کے لئے جاتے وقت) ظاہر کیا کہ وہ عمرہ کی غرض سے جارہے ہیں اوریہ ان کی عادت تھی کہ جب کوئی حج یا عمرہ کی غرض سے جاتا تو دشمن اس سے تعرض نہ کرتا تھا اور عمرہ کرنے والا اپنے دروازہ پر کھجور کی جڑیں کاٹ کر ٹکادیتا تھا؛چنانچہ ان لوگوں نے بھی جڑیں ٹکائی تھیں۔ جب اوس وخزرج کی باہمی عداوتوں کا یہ حال تھا تو پھر وہ ایسے اہم معاملہ میں دوسرے خاندان کے آدمی کو کیونکر ساتھ لاسکتے تھے؟ اصل یہ ہے کہ ہمارے مورخ نے دوجداگانہ واقعات کو ایک واقعہ سمجھ لیا ہے اوراسی وجہ سے غلط مبحث ہوگیا ہے؛چنانچہ انہوں نے آگے چل کر لکھا ہے کہ یہ تمام لوگ مسلمان ہوگئے تھے :حالانکہ جس جماعت میں ایاس تھے،اس میں سے ایک متنفس بھی مسلمان نہیں ہوا، اورخود ایاس نے بھی علانیہ اسلام کا اظہارنہیں کیا؛بلکہ کنکریاں کھا کر چپ ہورہے اور سب کے ساتھ مدینہ واپس گئے، ہمارے مورخ نے اس واقعہ اور عقبہ اولی کی بیعت کو ایک سمجھ لیا؛حالانکہ ان دونوں میں کم از کم ایک سال کا فصل ہے عقبۂ اولیٰ میں اسعد بن زرارہ بے شک موجود تھے، لیکن اس وقت ایاس بن معاذؓ کا پتہ تک نہ تھا؛کیونکہ وہ جنگِ بعاث میں فوت ہوچکے تھے۔ اس غلطی کی ایک وجہ اوربھی ہے،اس امر میں اختلاف ہے کہ انصار میں سب سے پہلے کون صاحب مسلمان ہوئے؟ بعض لوگوں نے رافع بن مالک زرقی اورمعاذ بن عفراء کا نام لیا ہے،بعض اسعد بن زرارہ اورذکوان کو پہلا مسلمان سمجھتے ہیں،(سیرت ابن ہشام:۱/۲۳۳) اوربعض جابر بن عبداللہ بن رباب کو اولیت کا مستحق جانتے ہیں (ابن سعد،۱/ق۱،صفحہ:۱۴۶) ابن واضح نے غالبا دوسری جماعت کا ساتھ دیا ہے؛ لیکن اس سے اولاً تو ان کا مقصد حاصل نہیں ہوا یعنی یہ نہ لکھ سکے کہ اسعد بن زرارہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ،دوسرے اس غلط مبحث کی وجہ سے کچھ ایسی پیچیدگیاں پیدا ہوگئیں جو قدیم مورخین کی تشویش واضطراب سے بدرجہا زیادہ خطرناک ہیں۔ بیعت عقبہ اولی یہ بیعت درحقیقت انصار میں اشاعتِ اسلام کا دیباچہ تھی،آنحضرتﷺ،ابتداءً اسلام کی نہایت مخفی طورپر اشاعت کرتے تھے؛لیکن جب اس پر بھی مشرکین کا بغض وعناد بڑھتا گیا اوراسلام کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہونے لگیں، توآنحضرتﷺ نے توحید کا وعظ علی الاعلان شروع کردیااور مجنہ عکاظ اورذی المجاز وغیرہ میں جاکر عرب کے دیگر قبائل کے سامنے دین الہی کی منادی شروع کی اوراپنے کو ان کے وطن چلنے کے لئے پیش کیا؛لیکن بار بار کی تکرار کے باوجود کچھ نتیجہ نہ نکلا؛چنانچہ آپ اس عرصہ میں جن جن قبائل کے پاس تشریف لے گئے ان کے نام یہ ہیں: عامر بن صعصعہ،محارب،فزارہ،غسان،مرۃ،حنیفہ،سلیم،عبس،نضر،نکا،کندہ،کلب،حارث بن کعب،عذرہ،حضارمۃ (زادالمعاد ابن قیم:۱/۳۰۵) لیکن جب خدا کو اپنے دین کو غالب،آنحضرتﷺ کی مدد اورآپ سے جو کچھ وعدے کئے تھے،ان کے پورا کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس نے آنحضرتﷺ کو انصار کے خیموں میں پہنچادیا،جو ایام حج میں بمقام منی نصب تھے،انصار کا یہ گروہ جس کی تعداد ۶یا۸ بیان کی جاتی ہے ،قبیلہ خزرج سے تھا،(زرقانی:۱/۳۶۰) آپ نے ان کو دین الہی کی دعوت دی اورقرآن مجید کی چند آیتیں سنائی تو سب کے سب مسلمان ہوگئے اورآپ سے مدد اورنصرت کا وعدہ کیا اوریہ کہا کہ ہمارے درمیان باہمی لڑائیوں کی وجہ سے سخت عداوت پھیلی ہوئی ہے،اس لئے پہلے ہم کو ان نزاعوں کا فیصلہ کرنا ہے پھر آپ کو اپنے ہاں بلائیں گے اور اگر موجودہ حالت میں آپ تشریف لے گئے تو کامیابی کی کچھ زیادہ امید نہیں اور ہم آیندہ سال آپ کے پاس پھر آئیں گے۔ یہ مختصر جماعت حسب ذیل اصحاب پر مشتمل تھی،اسعد بن زرارہؓ،عوفؓ بن حارث بن عفراء،رافع بن مالکؓ،قطبہؓ بن عامربن حدیدہ،عقبہؓ بن عامر بن نابی جابرؓ بن عبداللہ بن ریاب ۔ (طبقات ابن سعد،جلد۱،قسم۱،صفحہ:۱۴۶،۱۴۷) اس امر میں اختلاف ہے کہ اس جماعت میں سب سے پہلے کن بزرگ نے اسلام کی دعوت کو لبیک کہا تھا؟ابن کلبی اور ابونعیم نے رافع بن مالک کو پہلا مسلمان سمجھا ہے(اسدالغابہ:۲۶/۱۵۷) اورطبقات میں اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ مسجد بنی زریق میں سب سے پہلے قرآن پڑھا گیا، (طبقات :۱۴۶) قاضی ابن عبدالبر نے جابر بن عبداللہ بن ریاب کی نسبت گمان کیا ہے (استیعاب:۱/۷۸۶) مغلطائی نے اسعدبن زرارہ اورذکوان ابن عبدقیس کو سب پر مقدم رکھا ہے،(زرقانی:۱/۳۶۱) اورایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے معاذؓ ابن عفراء نے بیعت کی تھی،(اسد الغابہ:۴/۳۷۹) لیکن اصل یہ ہے کہ اس کا فیصلہ بہت مشکل ہے اس لئے ہم بھی صاحب طبقات کے ساتھ مل کر صرف اس قدر کہتے ہیں کہ لم یکن قبلھم احد یعنی ان لوگوں سے قبل اور کوئی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ بعض لوگوں نے اس تعداد میں دو آدمیوں کا اوراضافہ کیا ہے وہ دو بزرگ یہ ہیں ابوالہیثمؓ بن الیتھان اور عدیمؓ بن ساعدہ،لیکن یہ دونوں خزرج کے قبیلے سے نہ تھے؛بلکہ اوس سے تھے اور یہ یقیناً معلوم ہے کہ اس جماعت میں قبیلہ اوس کا ایک آدمی بھی موجود نہ تھا علامہ ابن قیم لکھتے ہیں۔ عِنْدَ الْعَقَبَةِ فِي الْمَوْسِمِ سِتّةَ نَفَرٍ مِنْ الْأَنْصَارِ كُلّهُمْ مِنْ الْخَزْرَجِ (زاد المعاد:۳/۳۸) آنحضرتﷺ حج کے زمانہ میں انصار کے ۶ آدمیوں سے ملے جو کل کے کل خزرج سے تھے۔ ابن ہشام اپنی سیرت میں لکھتے ہیں: قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ وَهُمْ فِيمَا ذُكِرَ لِي سِتّةُ نَفَرٍ مِنْ الْخَزْرَجِ (سیرۃ ابن ہشام:۱/۴۲۹) ابن اسحاق کا قول ہے کہ جہاں تک مجھے علم ہے خزرج کے ۶ آدمی تھے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: فاسلم منھم ستۃ نفروکلھم من الخزرج (زرقانی:۱/۳۶۰) پس ان میں سے ۶ آدمی مسلمان ہوئے جو سب کے سب خزرجی تھے۔ بعض لوگوں نے عبادہؓ بن صامت کا جابرؓ بن عبداللہ بن ریاب کے بجائے نام لیا ہے؛ لیکن یہ وہ خیال ہے جس کی خود حضرت عبادہؓ نے تردید کردی ہے؛چنانچہ فرماتے ہیں۔ كنت فيمن حضر العقبة الأولى وكنا أثنى عشر رجلا (مسند احمد ،حدیث عبادۃ بن الصامتؓ،حدیث نمبر:۲۲۸۰۶) میں ان لوگوں میں ہوں جو عقبہ اولی میں موجود تھے اورہم بارہ آدمی تھے۔ بخاری میں حضرت عبادہؓ سے منقول ہے: إِنِّي مِنْ النُّقَبَاءِ الَّذِينَ بَايَعُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (بخاری، كِتَاب الْمَنَاقِبِ، بَاب وُفُودِ الْأَنْصَارِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ،حدیث نمبر:۳۶۰۴) میں ان نقبا میں ہوں جنہوں نے آنحضرتﷺ سے بیعت کی تھی۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ۱۲ آدمیوں کی تعداد ہمارے موجودہ عنوان کے ایک سال بعد پوری ہوئی ہے،علامہ ابن اثیر،حضرت عبادہؓ کے حالات میں لکھتے ہیں۔ شهد العقبة الأولى والثانية (اسد الغابۃ:۱/۳۵۲) انہوں نے عقبہ اولی اورثانیہ میں شرکت کی۔ اس مقام پر یہ بات لحاظ کے قابل ہے کہ مذکورہ بالا روایتوں میں جس عقبہ اولیٰ اورثانیہ کا ذکر آیا ہے وہ ہمارے نزدیک ثانیہ اور ثالثہ ہے،پہلی بیعت ہمارے نزدیک وہ ہے جس کا ہم موجود عنوان میں تذکرہ کررہے ہیں اوراس کا ہمارے مصنفین رجال اور مورخین کے ہاں کوئی نام نہیں اصل یہ ہے کہ عقبہ میں انصار نے ۳ مرتبہ بیعت کی ہے،پہلے سال ۶ آدمی تھے، دوسرے سال ۱۲ اور تیسرے سال ۷۵،مورخین ۱۲،اشخاص کی بیعت کو عقبہ اولی اور۷۰ کی بیعت کو عقبہ ثانیہ کہتے ہیں،ولا مشاحۃ فی الاصطلاح ؛لیکن ہم نے جو تقسیم کی ہے وہ زیادہ صاف اورواضح ہے اور علامہ ابن حجر عسقلانی بھی ہماری تائید میں موجود ہیں وہ فرماتے ہیں۔ ان الانصاراجتمعوا بالنبی ﷺثلث مرات بعقبۃ منیٰ انصار آنحضرتﷺ سے منی کی گھاٹی میں ۳ مرتبہ ملے۔ علامہ ابن اثیر نے بھی ہماری تقسیم سے موافقت ظاہر کی ہے اور لکھا ہے کہ بعض لوگ اس بیعت کو جس میں ۶/آدمی شامل تھے عقبہ نہیں کہتے ہیں؛بلکہ صرف ۲ بیعتوں کام نام عقبہ رکھتے ہیں، بیعت عقبہ ثانیہ،یہ ہمارے مورخین کی اصطلاح میں عقبہ اولی ہے ،یادہوگا کہ گزشتہ بیعت میں انصار نے آنحضرتﷺ سے دوسرے سال آنے کا وعدہ کیا تھا؛چنانچہ ان لوگوں نے مدینہ پہنچ کر اسلام کی دعوت دی تو اس کا یہ اثر ہوا کہ کچھ لوگ مسلمان ہوئے اوراکثر گھروں میں آنحضرتﷺ کا چرچا ہونے لگا،(طبقات ابن سعد،جلد۱،قسم۱،صفحہ:۱۴۰) دوسرے سال ان ۶/آدمیوں کے ساتھ ۶ /مسلمان اورساتھ ہوگئے اور ۱۲ / اصحاب کا مقدس قافلہ حامل وحی ورسالت کی زیارت کے لئے مکہ روانہ ہوا۔ یہاں آنحضرتﷺ سے عقبہ میں ملاقات ہوئی اوران شرائط پر بیعت لی گئی (۱)شرک نہ کریں گے (۲)چوری نہ کریں گے (۳)زنا نہ کریں گے (۴)اولاد کو قتل نہ کریں گے (۵)کسی پر بہتان نہ باندھیں گے (۶)آنحضرتﷺ کی اچھی باتوں میں نافرمانی نہ کریں گے۔ چونکہ اس وقت تک جہاد فرض نہیں ہواتھا اس لئے ان شرائط میں اس کا تذکرہ نہیں ،آنحضرتﷺ نے بیعت لینے کے بعد فرمایا اگر تم اس عہد کو پورا کرو گے تو تم کو جنت ملے گی ورنہ خدا کو اختیار ہوگا خواہ مغفرت کرے خواہ عذاب دے۔ (مسند ابن حنبل:۵/۳۲۳) بیعت کرکے یہ لوگ واپس ہوئے تو اب مدینہ میں نہایت سرعت سے اسلام ترقی کرنے لگا،حضرت اسعدؓ بن زرارہ نے باجماعت نماز کا انتظام کیا،(طبقات ابن سعد،جلد۱،قسم۱،صفحہ:۱۴۸) اورقبیلہ نبیت کی نشیبی زمین میں گویا ایک مسجد کی بنیاد پڑی،بنوزریق میں بھی ایک مسجد بن چکی تھی (طبقات،جلد۱،قسم۱:۱۴۶) ان کوششوں کے ساتھ آنحضرتﷺ کو ایک خط لکھا اوراس میں درخواست کی کہ ہماری تعلیم کے لئے ایک قاری بھیج دیجئے؛چنانچہ آنحضرت ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو اس اہم کام کے لئے روانہ فرمایا، حضرت مصعبؓ ،اسعدبن زراہؓ کے مکان میں اترے اورقرآن مجید کی تعلیم شروع کی اہل مدینہ ان کو مقری کہا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی نماز کی امامت بھی انہی کے سپرد ہوئی اوراس کی وجہ یہ تھی کہ انصار اپنی دیرینہ باہمی عداوتوں کے باعث ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا پسند نہیں کرتے تھے(اسد الغابہ:۱/۳۶۱) غرض حضرت مصعبؓ کے مدینہ پہنچ جانے سے اشاعت اسلام میں نہایت نمایاں ترقی ہوئی اورسب سے بڑی کامیابی یہ ہوئی کہ حضرت سعد بن معاذؓ اوراسید بن حضیرؓ نے دین اسلام اختیار کیا یہ دونوں بزرگ قبیلہ عبدالاشہل کے سردار تھے۔ سعدؓ بن معاذ اور راسید بن حضیرؓ کا اسلام مصعب ؓ بن عمیر نے اسلام کی منادی کا یہ طرز اختیار کیا تھا کہ اسعد بن زرارہؓ کے ہمراہ ہر قبیلے میں جاتے اور وہاں جو لوگ مسلمان ہوتے ان سے باتیں کرتے اوراسلام کی تبلیغ کرتے تھے ،ایک روز عبدالاشہل اور ظفر کے محلہ میں گئے تو؛ چونکہ سعد بن معاذ ابھی تک مشرک تھےان کو سخت ناگوار ہوا،لیکن اسعد بن زرارہ کی وجہ سے کچھ بول نہ سکے (سعدبن معاذؓ اسعدؓ بن زرارہ کے خالہ زاد بھائی تھے) تاہم اسید بن حضیر سے کہا کہ تم جاکر مصعب کو منع کرو کہ وہ آئندہ سے ہمارے کمزور لوگوں کو بیوقوف بنانے نہ آئیں،اسید نے نیزہ اٹھایا اوراس باغ میں آپہنچے جہاں مصعبؓ چند مسلمانوں کے ساتھ بیٹھے تھے،اسعد بن زرارہؓ نے کہا دیکھنا! جانے نہ پائیں! یہ اپنی قوم کے سردار ہیں، مصعبؓ نے جواب دیا اگر بیٹھیں گے تو میں گفتگو کروں گا، اسید بن حضیر نے آتے ہی نہایت سخت گفتگو کی جس کو حضرت مصعبؓ نے نہایت متانت سے سنا اورکہاآپ بیٹھ کر میری کچھ باتیں سن سکتے ہیں؟ اگر پسند ہوں تو قبول فرمائیے گا ورنہ آپ کو اختیار ہے، اسید نے کہا تم نے انصاف کی بات کہی، اس کے بعد نیزہ گاڑ کر بیٹھ گئے، حضرت مصعبؓ نے ان کے سامنے اسلام کی حقیقت بیان کی اورقرآن کی کچھ آیتیں سنائیں، اثنائے تقریر ہی میں اسید پر جادو چل چکا تھا، قرآن ختم ہواتو بولے کتنا اچھا کلام ہے،پھر پوچھا اس دین میں داخل ہونے کا کیا طریقہ ہے؟ فرمایا: غسل کیجئے کپڑے دھوئیے ،پھر کلمہ پڑھ کر نماز پڑھئے،اسید نے اٹھ کر غسل کیا اور کپڑے پاک کرکے دو رکعت نماز پڑھی،مسلمان ہونے کے بعد بولے، ابھی ایک آدمی باقی ہے اگر وہ مسلمان ہو گیا تو تمام قوم مسلمان ہوجائے گی، یہ کہہ کر نیزہ لیا اورسعد بن معاذ کے گھر پہنچے، سعد چند آدمیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اسید کے چہرے پر اسلام کا جونور چمک رہا تھا اس کو دیکھ کر بولے کہ "واللہ!اب وہ چہرہ نہیں،اسید ان کے سامنے جاکر کھڑے ہوگئے،سعد نے کہا :کیا ہواجواب دیا میں نے ان سے گفتگو کی اوران کے مذہب میں کچھ مضائقہ نہیں پایا اور مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ بنو حارثہ،اسعد بن زرارہ کو قتل کرنے جارہے ہیں جن سے ان کا منشاء تمہاری توہین ہے ؛کیونکہ اسعد تمہارے خالہ زاد بھائی ہیں،سعدؓ بن معاذ نے سنا تو غصہ سے بے تاب ہوگئے اورنیزہ لے کر نہایت تیزی سے باغ میں پہنچے، وہاں کچھ بھی نہ تھا، حضرت مصعبؓ اوراسعدؓ بن زرارہ نہایت امن وسکون سے بیٹھے ہوئے تھے،سعد نے بھی وہی گفتگو شروع کی جو اسید کرچکے تھے،حضرت مصعبؓ نے ان کے وہی جوابات دیئے اورقرآن سنایا جس کو سنتے ہی سعد بن معاذؓ کلمہ شہادت پکار اُٹھے۔ وہاں سے مکان واپس ہوئے تو عبدالاشہل نے کہا، اب وہ چہرہ نہیں،کھڑے ہوکر لوگوں سے پوچھا،تم میرے بارہ میں کیا جانتے ہو، سب نے کہا ہمارے سردار ہیں، سب سے زیادہ صائب الرائے ،ہمارے معتمد علیہ رئیس، کہا تو پھر مجھے تمہاری عورتوں اورمردوں سے گفتگو حرام ہے تاوقتیکہ تم بھی خدا اوراس کے رسول پرایمان نہ لاؤ، حضرت سعدؓ کا عبدالاشہل میں جواثر تھا اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ تمام مردوزن شام ہوتے ہوئے مسلمان ہوگئے اور حضرت سعدؓ اور مصعبؓ اسدؓ بن زرارہ کے مکان میں منتقل ہوگئے اورسب ساتھ مل کر اشاعت اسلام کی خدمت انجام دینے لگے۔ (سیرت ابن ہشام :۱/۲۳۷،۲۳۹) اس کا یہ اثر ہوا کہ انصار کے تمام خاندانوں میں اسلام نہایت سرعت سے پھیلنے لگا،ابن سعد لکھتے ہیں۔ (طبقات:۳/۸۳) وكان مصعب يأتي الأنصار في دورهم وقبائلهم فيدعوهم إلى الإسلام ويقرأ عليهم القرآن فيسلم الرجل والرجلان حتى ظهر الإسلام وفشا في دور الأنصار كلها والعوالي (طبقات الکبری لابن سعد:۳/۱۱۸) مصعبؓ انصار کے گھروں اورخاندانوں میں جاکر ان کو اسلام کی دعوت دیتے تھے اورقرآن سناتے تھے؛چنانچہ ان میں ایک دو آدمی مسلمان ہوجایا کرتے تھے،یہاں تک کہ اسلام بالکل ظاہر ہوگیا اورانصار کے تمام گھروں اوربالائی حصوں میں پھیل گیا۔ قبیلۂ خزرج میں تو پہلے ہی سے اسلام اشاعت پاچکا تھا،سعد بن عبادہؓ سردار خزرج کے ایمان نے اوربھی لوگوں کو متوجہ کردیا اوراب ان کی تعداد روز بروز بڑھنے لگی،البتہ امیہ بن زید، حطمہ، وائل اور واقف (اوس اللہ) ابو قیس بن اسلت کی وجہ سے بدر اوراحد تک رکے رہے۔ (ابن ہشام:۱/۲۳۹) بیعت عقبۂ کبیرہ آخر وہ وقت آیا کہ اسلام کا خدائے قدوس اپنے پورے جاہ وجلال اوراس کی آتشیں شریعت اپنی پوری آب وتاب سے نمایاں ہو، مدینہ میں حضرت مصعبؓ بن عمیر نے اپنے چند روزہ قیام میں جو کامیابی حاصل کی وہ درحقیقت اسلام کی سب سے نمایاں فتح تھی؛چنانچہ حج کے زمانہ میں جب وہ مکہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے تو ان کے ساتھ اوس وخزرج کا وہ مقدس قافلہ بھی تیار ہوا جوگو تعداد کے لحاظ سے تو صرف چند نفوس سے عبارت تھا؛ تاہم ان کے جوش وولولہ نے وہ منظر پیش کیا کہ روم وفارس کی سلطنتیں بھی زیروزبر ہوگئیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ انصار کا قافلہ جس میں کافر اورمسلم دونوں شریک تھے اورجس کی تعداد ۵۰۰ تھی (طبقات ابن سعد،جلد۱،قسم۱) ذوالحجہ کے مہینہ میں مکہ آیا(زرقانی:۱/۳۶۷) اورمنی میں عقبہ کے قریب مقیم ہوا، اس اثنا میں براء بن معرور رئیس خزرج کو آنحضرﷺ سے ملنے کی ضرورت پیش آئی،براء مصعبؓ کے ہاتھ پر ایمان لائے تھے اور تمام مسلمانوں کے خلاف کعبہ کی سمت نماز پڑہتے تھے اور مسلمان اورخود آنحضرتﷺ بھی اس وقت تک شام کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے ،لوگ ٹوکتے اور عام جماعت کی مخالفت پر ان کو برا کہتے تھے،لیکن وہ اپنی رائے پر نہایت شدت سے عمل پیرا تھے؛ لیکن مکہ پہنچ کر یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید اس عمل میں غلطی ہوئی ہو، چنانچہ کعب بن مالک سے کہا کہ ہم کو آنحضرتﷺ کے پاس چلنا چاہئے ،براء اورکعبؓ دونوں رسول اللہ سے ناواقف تھے،البتہ حضرت عباسؓ سے شناسائی تھی لوگوں نے پتہ بتلایا کہ آپ عباسؓ کے پاس بیٹھے ہیں گئے تو آنحضرتﷺ نے حضرت عباسؓ سے ان کے متعلق استفسار کیا، حضرت عباسؓ نے دونوں بزرگوں کا تعارف کرایا ،کعب بن مالکؓ کانام آنحضرتﷺ نے سنا تو فرمایا شاعر؟ حضرت عباسؓ نے جواب دیا جی ہاں اس قدر گفتگو کے بعد اصل مسئلہ پیش ہوا،براء نے کہا یا نبی اللہ ! میں اس سفر میں مسلمان ہو کر نکلا ہوں اور میرا خیال ہے کہ کعبہ کی طرف پشت کرنے کے بجائے میں اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھوں اور میں ایسا کرتا ہوں ،لیکن میرے ساتھی مخالفت کرتے ہیں، اب آپ جو کچھ ارشاد فرمائیں، آنحضرتﷺ نے فرمایا تم ایک قبلہ پر ضرور ہو،لیکن ابھی صبر کرنا چاہئے؛چنانچہ براء اس کے بعد سے شام کی طرف رخ کرکے نماز پڑہنے لگے،عون بن ایوب انصاری نے اس واقعہ کو ایک شعر میں نظم کیا ہے کہتے ہیں: ومنا المصلی اول الناس مقبلا علی کعبۃ الرحمن بین المشاعر براء کے ساتھ انصار کے ایک اور رئیس عبداللہ بن عمرو بن حرام بھی اس جماعت کے ساتھ آئے تھے اور اب تک مشرک تھے،انصار نے خفیہ طورسے ان کو اسلام کی تبلیغ کی اور وہ بھی مسلمان ہوگئے۔ (سیرت ابن ہشام:۱/۲۴۱،۲۴۰) حج سے فارغ ہونے کے بعد آنحضرتﷺ نے ایک رات مقرر کی (طبری:۳/۱۲۱۹) اور تہائی رات کو یہ ۷۳ مسلمان عقبہ کی گھاٹی میں ایک درخت کے نیچے جمع ہوئے ،آپ حضرت عباسؓ کے ہمراہ تشریف لائے اورحسبِ ذیل گفتگو ہوئی۔ حضرت عباسؓ نے کہا گروہ خزرج! محمدﷺ ہم میں جس درجہ کے آدمی ہیں اس سے تم بھی واقف ہو اورہم نے ان کی حفاظت میں کوشش کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا ہے، اگر تم اپنے وعدوں کا پورا کرسکتے اوران کو دشمنوں سے بچا سکتے ہو،تو بہتر اوراگر ان کو چھوڑدینے کا ارادہ ہے تو صاف صاف اسی وقت کہہ دو ؛کیونکہ یہاں وہ اپنی قوم میں نہایت مامون ہیں۔ انصارنے کہا ہم نے تمہاری گفتگو سنی اب یارسول اللہﷺ آپ فرمائیے اورجو کچھ اپنے اوراپنے خدا کے لئے پسند ہو اس کو لیجئے اس درخواست پرآنحضرتﷺ نے تکلم کا آغاز فرمایا اورقرآن مجید سنا کر اسلام کی دعوت دی اورفرمایا کہ میں تم سے اس شرط پر بیعت لیتا ہوں کہ میری حفاظت اپنی جانوں کے برابر کروگے براء بن معدور رئیس خزرج نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا،بے شک ہم آپ کی اس طرح حفاظت کریں گے،آپ ہم سے بیعت لیں گے، ہم نسلا بعد نسلا سپہ گر اورجنگ جو واقع ہوئے ہیں، براء ابھی یہ گفتگو کرہی رہے تھے کہ ابو الہیثمؓ بن الیتھان بولے، یا رسول اللہ! ہم یہودیوں کے ہم عہد ہیں اوراب ہم اس کو قطع کردیں گے، اس بنا پر اگر آپ کبھی غلبہ پائیں تو کیا ہم کو چھوڑ کر اپنے قوم میں جاملیں گے،آنحضرتﷺ یہ سن کر مسکرائے اورفرمایا: بل الدم الدم !والھدم الھدم!انا منکم وانتم منی! احارب من حابتم واسالم من سالمتم بلکہ میرا خون تمہارا خون اورمیرا ذمہ تمہارا ذمہ ہے! میں تم سے ہوں اورتم مجھ سے ہو! تم جس سے لڑوگے میں بھی لڑوں گا اورجس سے تم صلح کروگے میں بھی صلح کروں گا۔ عباسؓ بن عبادہ بن نضلہ انصاری نے کہا اےوہ خزرج!تمہیں خبر ہے کہ تم ان سے کس چیز پر بیعت کررہے ہو؟ تم ان سے عرب وعجم کی جنگ پر بیعت کررہے ہو! خوب سمجھ لو کہ اس میں تمہاری جائدادیں ضائع ہوں گی اورشر فاء قتل ہوں گے، اگر ایسی حالت میں تم نے ان کو چھوڑا تو خدا کی قسم اس میں دین و دنیا دونوں میں رسوائی ہے اگر تم اپنے عہد پر قائم رہے اور وعدہ کو پورا کیا تو دین و دنیا دونوں میں یہ سب سے بہتر ہے اوراس کو تم حاصل کرسکتے ہو۔ (سیرت ابن ہشام:۱/۲۴۴،۲۴۲) یہ باتیں نہایت جوش میں ہورہی تھیں اور لوگوں کی آوازیں کسی قدر بلند ہوگئی تھیں، حضرت عباسؓ نے کہا ،آواز پست کرو؛کیونکہ مشرکین کے جاسوس ادھر ادھر پھر رہے ہوں گے اورتم میں سے ایک شخص نہایت اختصار کے ساتھ گفتگو کرے،حضرت اسعدؓ بن زرارہ اس مقصد کے لئے سامنے آئے اورکہا: محمد! تم اپنے رب کے لئے جو چاہو مانگو،پھر اپنے لئے اور اپنے اصحاب کے لئے مانگو پھر ہم کو بتلاؤ کہ ہم کو خدا اور تم سے اس کا کیا اجر ملے گا، آنحضرتﷺ نے فرمایا: تم سے خدا کے متعلق یہ کہتا ہوں کہ تم اس کی عبادت کرو اوراس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اوراپنے اوراپنے اصحاب کے لئے یہ چاہتا ہوں کہ ہم کو پناہ دو،مدد کرو اورجس طرح اپنی جانوں کی حفاظت کرتے ہو،ہماری بھی کرو، انصار نے کہا اگر یہ تمام باتیں کریں تو ہم کو کیا ملے گا؟ ارشاد ہوا، جنت ،بولے تو جو کچھ آپ چاہتے ہیں ہم اس کے لئے راضی ہیں۔ (مسند ابن حنبل:۴/۱۱۹،۱۲۰) شعبی کہا کرتے تھے کہ اتنا مختصر اوربلیغ خطبہ آج تک نہیں سناگیا۔ (طبقات ابن سعد:۴/۴) خطبہ ختم ہونے کے بعد لوگ بیعت کے لئے بڑھے کہتے ہیں کہ سب سے پہلے برا ء بن معرور نے بیعت کی،بعض کا خیال ابو الہیثمؓ اور اسعدؓ بن زرارہ کی طرف بھی ہے (طبقات ابن سعد،جلد۱،قسم۱،صفحہ:۱۵۰) ان لوگوں کے بعد باقی جماعت نے بیعت کی،آنحضرتﷺ نے بیت لے کر فرمایا کہ موسیٰ نے بنو اسرائیل کے۱۲ /نقیب منتخب کئے تھے تم بھی اپنی جماعت میں سے ۱۲ /آدمی منتخب کرو؛چنانچہ جو لوگ منتخب ہوئے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ ابوامامہ اسعدؓ بن زرارہ،سعدؓ بن ربیع،عبداللہ بن رواحہؓ،رافع ؓ بن مالک بن عجلان ،براءؓ بن معرور،عبدؓ اللہ بن عمروبن حرا، عبادہؓ بن صامت، سعدؓ بن عبادہ، منذر بن عمروبن خنیس (یہ ۱۹ صحابہ خزرج سے تھے) اسیدؓ بن حضیر، سعدؓ بن ابوالہیشم بن الیتھان (اسد الغابہ:۱/۷۱) (یہ تین صاحب اوس سے تھے) بعض لوگوں نے ابو الہیثم کے بجائے رفاعہ بن عبدالمنذر کا نام لیا ہے؛ لیکن یہ کچھ زیادہ قابل لحاظ نہیں،حضرت کعبؓ بن مالک نے جو انصار کے مشہور شاعر تھے اوراس بیعت میں شریک تھے نقبا کے نام اپنی ایک نظم میں بیان کئے ہیں،لیکن اس میں رفاعہؓ کا نام نہیں؛بلکہ ان کے بجائے ابو الہیثم کا ہے۔ (سیرت ابن ہشام:۱/۲۴۴) غرض نقباء کا انتخاب ہوچکا تو آنحضرتﷺ نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا تم اپنی آبادی کے اسی طرح ذمہ دار ہو جس طرح کہ حواری عیسیٰؑ بن مریم کے ذمہ دار تھے اورمیں اپنی قوم کا ذمہ دار ہوں سب نے کہا بے شک۔ (طبقات ،جلد۱،قسم۱،صفحہ:۱۵۰) یہ تمام مراحل طے ہوچکے تو حضرت عباسؓ کا وہ خیال صحیح ثابت ہوا،یعنی ایک شیطان (جاسوس) نے زور سے آوازدی کہ یا اہل المنازل ! تمہیں کچھ مذمم (یہ مشرکین نے آنحضرتﷺ کا نام محمدﷺ کے بجائے رکھا تھا) اوران بے دینوں کی خبر ہے؟ یہ سب تم سے لڑنے کے لئے تیار ہوئے ہیں، آنحضرتﷺ نے یہ سن کر انصار سے کہا کہ تم اپنی فرودگاہ پر واپس جاؤ، حضرت عباسؓ بن عبادہ بن نضلہ سے نہ رہا گیا بولے خدا کی قسم اگر آپ چاہیں تو ہم کل اہل منیٰ پر تلواریں لے کر ٹوٹ پڑیں!فرمایا ابھی ہمیں اس کا حکم نہیں۔ (ابن ہشام:۱/۲۴۵) غرض انصار اپنے خیموں میں آکر سورہے ،صبح کو ان کے قیام میں رؤ سائے قریش کی ایک جماعت پہنچی اورکہا کہ ہم کو معلوم ہوا ہے کہ رات تم نے ہم سے لڑنے کے لئےمحمدﷺ سے بیعت کی؛حالانکہ تمام عرب میں ہم تم سے لڑنا سب سے برا سمجھتے ہیں،مشرکین انصار کو چونکہ اس بیعت کا بالکل علم نہ تھا، اس لئے سب نے قسم کھا کر انکار کیا، اورعبداللہ بن ابی رئیس خزرج نے کہا،یہ بالکل جھوٹ ہے اگر یہ واقعہ پیش آتا تو مجھ سے ضرور مشورہ لیا جاتا، قریش یہ سن کر واپس گئے؛لیکن ان کے آدمی ہر طرف موجود تھے اورانصار کے ان آدمیوں کی ہر جگہ تلاش تھی؛چونکہ ان لوگوں کو اب اپنی جانوں کا خوف پیدا ہوگیا تھا، اس لئے سب کے سب خفیہ مدینہ روانہ ہوئے ،قریش کو کچھ پتہ نہ چل سکا، لیکن سعد بن عبادہ سردار خزرج اتفاقا ًہاتھ آگئے،قریش کے آدمیوں نے ان کو سخت تکلیف دی اورمارتے پیٹتے مکہ لائے، یہاں مطعم بن عدی اورحارث بن امیہ نے ان کو چھڑایا۔ اب انصار کو سعد بن عبادہؓ کی فکر لاحق ہوئی اور سب نے بالاتفاق مکہ چلنے کی نسبت طے کرلیا،اتنے میں حضرت سعدؓ آتے دکھائی دیئے، اوران کو لے کر سب خوش خوش مدینہ روانہ ہوگئے۔ (طبقات ابن سعد،جلد۱،قسم۱،صفحہ:۱۵۰) جیسا کہ اوپر معلوم ہوا یہ بیعت عرب وعجم کی جنگ پر بیعت تھی،اس لئے ہم کو اب ان جانبازوں کے نام بتانے چاہئیں،جنہوں نے اسلام اورآنحضرت ﷺ کو اس وقت پناہ دی جبکہ ان کے لئے اورکوئی جائے پناہ نہ تھی اور اس وقت اپنے کو جان نثاری کے لئے پیش کیا؛جبکہ عرب کا کوئی قبیلہ اس میدان میں اترنے کی ہمت نہیں کرتا تھا، ان بزرگوں کی مجموعی تعداد ۷۵ہے ،۷۳ مرد اور ۲ عورتیں تفصیل حسب ذیل ہے۔ ۱۔قبیلۂ اوس عبدالاشہل: اسیدؓ بن حضیر،ابوالہیثم بن الیتھان، سلمہؓ بن سلامۃ بن وقش۔ حارثہ:ظہیربن رافعؓ، ابوبردہ بن نیار، نہیر بن الہیثم عمروبن عوف : سعدبن خثیمہ،رفاعہ بن عبدالمنذر، عبداللہ بن جبیر، معن بن عدی، عویم بن ساعدہ قبیلہ اوس سے کل گیارہ اصحاب اس بیعت میں شریک تھے۔ قبیلۂ خزرج نجار: ابوایوبؓ ،خالدبن زید، معاذ بن حارث بن رفاعہ، عوفؓ بن حارث ،عمارؓ ابن حزم، اسعد بن زرارہ، رفاعہؓ بن حارث، سہلؓ بن عتیک، اوسؓ بن ثابت بن منذر، ابو طلحہؓ زید بن سہل، قیس بن ابوصعصہؓ، عمروؓ بن غزیہ حارث بن خزرج:سعدؓ بن ربیع، خارجہ بن زیدؓ بن ابی زہیر، عبداللہ بن رواحہ،بشیر بن سعد،عبداللہ بن زید بن ثعلبہ، ابو مسعودؓ بن عمرو، خلاد بنؓ سوید بن ثعلبہ۔ بیاضہ: زیاد بن لبید،فروہ بن عمرو،خالد بن قیس بن مالک۔ زریق: رافعؓ بن مالک بن عجلان، ذکوانؓ بن عبدقیس، عباد قیسؓ بن عامر،عایث ابن قیس۔ سلمہ: براءؓ بن معرور،سنان بن صیفی،طفیلؓ بن نعمان،معقل بن منذر،یزید بن منذر ،مسعود بن یزید، ضحاک ؓ بن حارثہ، یزید بنؓ خذام،جباربن صخر،طفیلؓ بن مالک،بشرؓ بن براء،کعب بن مالک،سلیم بن عمرو، قطبہؓ بن عامر، یزید بن عامر، ابو الیسر کعب بن عمرو، صیفی بن سواد، ثعلبہ بن غنم، عمروبن غنمہ، عبسؓ بن عامر، عبداللہ بن انیس، خالد بن عمرو بن عدی ، عبداللہ بن عمروبن حرام، جابر بن عبداللہ،معاذ بن عمرو بن جموح،ثابتؓ بن الجذع،عمیرؓ بن حارث، خدیج بن سلامہ،معاذ بن جبل عوف بن خزرج:عبادہؓ بن صامت، عباس بن عبادہ بن نضلہ، ابو عبدالرحمن بن یزید، عمروبن حارث، رفاعہ بن عمرو سردار خزرج ،منذر بن عمرو بن خنیس وہ عورتیں بھی اس بیعت میں شریک تھیں، نسیبہؓ بنت کعب اورام منیعؓ اول الذکر بنو نجار اور دوسری بنو سلمہ سے تھیں۔ قبیلۂ خزرج کے بیعت کرنے والوں کی تعداد ۶۴ ہے اوراگر اس کے ساتھ قبیلہ اوس کے بیعت کرنے والے بھی شامل کرلئے جائیں تو یہ تعداد عورتوں کو ملاکر ۷۵ہوجاتی ہے۔ (سیرت ابن ہشام:۱/۲۴۹،۲۵۵) ان بزرگوں میں بعض ایسے بھی تھے جو بیعت کے بعد مدینہ واپس آئے؛لیکن پھر آنحضرتﷺ کے پاس مکہ چلے گئے اور کچھ دن اقامت کرکے مہاجرین کے ساتھ ہجرت کی،ایسے لوگوں کو مہاجرین انصاری کہاجاتا ہے،ان بزرگوں کی تعداد ۴ہے اوران کے اسمائے گرامی یہ ہیں،ذکوان بن قیسؓ ،عقبہ بن وہبؓ عباس بن عبادہ بن نضلہؓ ۔ مدینہ میں بیعت عقبہ کا اثر اس بیعت کا یہ اثر ہوا کہ انصار نے نہایت سرگرمی سے بت پرستی کی بیخ کنی شروع کی اورمذہب اسلام کو نہایت آزادانہ طور سے اہل شہر کے سامنے پیش کیا بنو سلمہ کی نسبت لکھا ہے کہ جب معاذ بن جبلؓ اورمعاذ بن عمروؓوغیرہ مسلمان ہوگئے تو انہوں نے عمرو بن جموح رئیس سلمہ کے مسلمان کرنے کی عجیب تدبیر نکالی، عمرو نے عام رؤسا کی طرح اپنے گھر میں پوجا کرنے کی ایک جگہ علیحدہ بنالی تھی اور وہاں مناۃ کی لکڑی کی ایک مورت رکھی تھی،جب عمرو کے بیٹے معاذ اورخاندان سلمہ کے چند نوجوان مسلمان ہوگئے تو وہ روزانہ رات کو مناۃ کو چھپ کر اٹھالے جاتے اورکسی گڑھے میں پھینک دیتے،صبح کو عمروڈھونڈھ کر اٹھا لاتا اور اسے دھوکر اورخوشبو لگا کر پھر اس کی جگہ پر رکھ دیتا،جب کئی دن تک برابر یہ واردات ہوتی رہی اور لے جانے والوں کا پتہ نہ چلا تو ایک دن عمرو نے جھنجلا کر بت کی گردن میں تلوار باندھ دی اورکہا مجھے تو کچھ پتہ چلتا نہیں،اگر تم خود کچھ کرسکتے ہو تو یہ تلوار حاضر ہے،حسب معمول جب رات کو لڑکے آئے تو تلوار اس کے گلے سے اتارلی اور رسی کے ایک سرے میں مرا ہوا کتا اور دوسرے میں اس بت کو باندھ کر کنوئیں میں لٹکا دیا،صبح کو لوگ آتے اوریہ تماشادیکھتے تھے،عمرو جب بت ڈھونڈ نے نکلا اوراس کو اس حالت میں پایا تو چشم بصیرت وا ہوگئی، مسلمانوں کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو انہوں نے اس کے سامنے اسلام پیش کیا اور وہ مسلمان ہوگیا، حضرت عمروبن ؓ جموح نے اپنے اس واقعہ کو خود نظم کیا ہے اوراس میں اپنے مسلمان ہونے پر خدا کا بڑا شکر ادا کیا ہے۔ (سیرت ابن ہشام:۱/۲۴۷) حضرت سہل بن حنیفؓ کے متعلق بھی تصریح ہے کہ وہ رات کو اپنی قوم کے بت خانوں اورپوجا کی جگہوں میں گھس جاتے اورلکڑی کے بتوں کو توڑ ڈالتے اورایک مسلمان بیوہ کو لاکر دیتے کہ وہ اس کو جلا ڈالے ،حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ اس عورت سے معلوم ہوا تھا؛چنانچہ جب حضرت سہلؓ کا انتقال ہوا تو حضرت علیؓ نے ان لوگوں سے ان کی اس خدمت جلیلہ کا تذکرہ فرمایا۔ (طبری:۳/۱۲۴۴) ان واقعات سے یہ معلوم ہوا کہ بیعت عقبہ کے بعد مشرکین انصار میں مدافعت کی قوت بھی باقی نہ تھی،یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن ابی اور دیگر منافقین گو حقیقۃً مسلمان نہ تھے؛لیکن چاروناچار ان کو بھی مسلمان بننا پڑا تھا،ورنہ ان کے لئے مدینہ میں زندگی بسر کرنے کی کوئی صورت باقی نہ رہ گئی تھی۔ ہجرت مہاجرین قریش نے انصار کے اسلام کو نہایت خوف اور دہشت کی نگاہ سے دیکھا تھا اور چونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ انصار ایک جنگجو قوم ہے اوروہ آنحضرتﷺ اورصحابہؓ کی پوری طرح حفاظت کرے گی اورمسلمان ضرور مدینہ ہجرت کریں گے اس لئے بیعت عقبہ کے بعد انہوں نے مسلمانوں پر پہلے سے زیادہ ظلم و ستم شروع کیا،یہاں تک کہ ایک وقت وہ بھی آگیا کہ سر زمین بطحا اپنی کشادگی کے باوجود مسلمانوں پر تنگ ہوگئی۔ صحابہؓ نے قریش کے اس ظلم و تعدی کی بارگاہ رسالت میں فریاد کی ،ارشاد ہوا میں نے تمہاری ہجرت گاہ خواب میں دیکھی ہے وہاں کھجور کے درخت کثرت سے ہیں اور وہ ریگستانوں کے درمیان واقع ہے ؛چونکہ یہ صفت مدینہ کے ساتھ سراۃ میں بھی پائی جاتی تھی اس لئے آپ کا ذہن سراۃ کی طرف منتقل ہوا، چند روز کے بعد آپ ایک دن بہت مسرور تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارا دارلہجرت متعین ہوگیا،اب جس کا جی چاہے یثرب(مدینہ) چلاجائے اجازت پاتے ہی صحابہ ؓ نے ہجرت کی خفیہ طورپر تیاریاں شروع کیں، ابو سلمہؓ بن الاسد نے سب سے پہلے ہجرت کی، ابن ہشام نے لکھا ہے کہ انہوں نے بیعت عقبہ سے بھی ایک سال قبل ہجرت کی تھی، ابو سلمہ ؓ کے بعد عامر بن ؓ ربیعہ اپنی بیوی لیلیٰؓ بنت ابی خثمہ کے ہمراہ مدینہ گئے، پھر عبداللہ بن جحشؓ،عبداللہ بن جحشؓ ابو احمد، مدینہ آئے پھر مہاجر ین متواتر پہنچنے لگے؛چنانچہ عکاشہ بنؓ محصن، شجاعؓ ،عقبہؓ (پسران وہب) اربد بن حمیرہ، مالک بن عمرو، صفوان بن عمرو، ثقیف بن عمروؓ، ربیعہ بن اکثم،زبیر بن عبیدہؓ، تمام سنجرہؓ،محمد بن عبداللہ جحش، زینب بنتؓ جحش،ام حبیبؓ،جذمہ بنتؓ جندل، ام قیس بنت محصن، ام حبیب بنت ثمامہ، آمنہ بنت رقیش، سنجرہ بنت تمیم،حمنہ بنت جحشؓ نے ہجرت کی، ان کے بعد حضرت عمرؓ اور عیاش بن ابی ربیعہؓ آئے اس کے بعدزید بن خطابؓ،عمروؓ،عبداللہ ؓ(پسران سراقہ بن معتمر)خنیسؓ بن حذافہ،سعید بن زیدؓ،واقدبن عبداللہؓ،خولیؓ،مالکؓ(پسران ابی خولہ) ایاسؓ،عاقلؓ،عامرؓ،خالدؓ،(پسران بکیر) اوران کے خلفاء آئے اور رفاعہ بنؓ عبدالمنذر کے گھر میں قبا میں قیام کیا پھر باقی اصحاب آئے اورمدینہ میں مختلف جگہوں میں قیام کیا؛ چنانچہ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے: اسمائے مہاجرین اسمائے انصار نام قبیلہ یا محلہ حضرت طلحہؓ،صہیبؓ خبیب بن اسافؓ سخ، حارث بن خزرج حضرت حمزہؓ،زید بن حارثہؓ،ابو مرثدؓ،ابومرثد،آنسہؓ ابوکبشہؓ کلثوم بن الہدمؓ قبا عبیدہ بن حارث،طفیلؓ،حصینؓ مسطح بن اثاثہؓ،سویطؓ بن سعد،طلیب بن عمیر،خبابؓ بن الارت عبداللہ حارث بن خزرج حضرت زبیرؓ،ابوسبرۃؓ منذر بن محإد حجبی عصبہ مصعب بن عمیرؓ، ابو حذیفہ،سالمؓ سعد بن معاذؓ،ثبیتہ بنت یعارؓ عبدالاشہل ،قبا عتبہ بن غزوان عبادبن بشرؓ عبدالاشہل حضرت عثمانؓ اوس بن ثابتؓ نجار غراب مہاجرینؓ سعدبن خثبہؓ قبا ان لوگوں کے ہجرت کرنے کے بعد مکہ میں آنحضرتﷺ حضرت ؓ ابوبکرؓ اورحضرت علیؓ کے سوا کوئی نہ رہ گیا تھا،البتہ وہ لوگ مستثنیٰ تھے،جو یا تو قید تھے یا بیمار اوریا ہجرت سے معذور۔ (طبقات ابن سعد،جلد۱،قسم۱،صفحہ:۵۲،سیرت ابن ہشام:۱/۲۵۷،۲۶۳) ہجرت نبویﷺ بیعت عقبہ سے تقریبا ڈھائی مہینہ کے بعد وہ زمانہ آیا کہ جب خود آنحضرتﷺ نے ہجرت کا عزم فرمایا،صحابہؓ کے مکہ چھوڑکر مدینہ چلے جانے سے گوایک حد تک قریش کو سکون نصیب ہوگیا تھا؛ لیکن آنحضرتﷺ کی موجودگی اب بھی ان کے دل میں کھٹک پیدا کرتی تھی اورآپ کی ہجرت کا خیال ان کو اور بھی آتش زیرپا بنا رہا تھا ؛چنانچہ اس مقصد کے لئے انہوں نے دارالندوہ میں ایک مجلس شوریٰ طلب کی اورنجد کے ایک بوڑھے شیطان کے مشورہ سے آپ کے قتل کا فتویٰ صادر کیا؛لیکن آپ حضرت ابوبکرؓ کے ہمراہ مکہ سے نکل کر ایک غار میں پناہ گزین ہوگئے اوروہاں سے خفیہ مدینہ کا رخ فرمایا۔ مدینہ میں آپ کا نہایت بیتابی سے انتظار ہورہا تھا،انصار اورمہاجرین روزانہ صبح اٹھ کر عقبہ کے سنگستان تک جاتے اورجب دھوپ سے زمین تپ اٹھتی اس وقت واپس آتے تھے،ایک روز اسی طرح انتظار کے بعد واپس ہورہے تھے کہ یہودی نے ٹیلہ پر سے آواز دی ،بنو قیلہ (انصار کی دادی کا نام ہے)لو تمہارے صاحب آگئے،انصار یہ سن کر پلٹے اورآنحضرتﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے اس وقت صحابہؓ کے جوش کی عجیب حالت تھی،تمام مسلمان ہتھیاروں سے آراستہ تھے اورعمروبن عوف کے محلہ میں تکبیر کا اس قدر شور تھا کہ زمین لرز اٹھتی تھی۔ آنحضرتﷺ پہلے قبا میں اترے اورکلثوم ؓ بن الہدم کے مکان میں قیام فرمایا،لوگوں سے ملنے جلنے کے لئے سعد بن خثیمہؓ کے مکان میں نشست رہتی تھی، اس لئے بعض کو شبہ ہوا اورانہوں نے آنحضرتﷺ کا مسکن سعد کے مکان کو سمجھا ،یہاں آپ ابن اسحٰق کی روایت کے مطابق ۴ روز اورصحیح بخاری کے رو سے ۱۴ روز مقیم رہے اورایک مسجد کی بنیاد قائم کی۔ جمعہ کے روز مدینہ تشریف لے جانے کا خیال ہوا اور بنو نجار کو اطلاع کرائی ،بنو نجا ہتھیار سج سج کر خیر مقدم کے لئے قبا پہنچے اورعرض کیا بسم اللہ تشریف لے چلئے،موکب رسالت قبا سے روانہ ہوا تو شہر یثرب کے درودیوار طلعت اقدس سے جگمگا اٹھے،اللہ اکبر! مدینہ منورہ کی تاریخ میں یہ کتنا مبارک دن تھا، انصار کے تمام قبیلے شہنشاہِ رسالت کے انتظار میں ہتھیاروں سے آراستہ دو رویہ صف بستہ تھے، روساء اپنے اپنے محلوں میں قریبہ سے ایستادہ تھے، پردہ نشین خواتین گھر سے باہر نکل آئی تھیں، مدینہ کے حبشی غلام جوش مسرت میں اپنے اپنے فوجی کرتب دکھارہے تھے اور خاندان نجار کی لڑکیاں دف بجا بجا کر "طلع البدر" کا ترانہ خیر مقدم گارہی تھیں ،غرض اس شان وشکوہ سے آنحضرتﷺ کا داخلہ ہوا کہ وداع کی گھاٹیاں مسرت کے ترانوں سے گونج اٹھیں اور مدینہ کے روز نہائے،دیوارنے اپنی آنکھوں سے وہ دیکھا جو کبھی نہ دیکھا تھا! اب ہر شخص منتظر تھا کہ دیکھئے میزبان دوعالم کی مہمانی کا شرف کس کو حاصل ہو؛چنانچہ جب آپ "رانونا "کی مسجد سے نماز پڑھ کر باہر آئے اور بنو سالم میں پہنچے تو عتبان بن مالکؓ اور عباسؓ بن عبادہ بن نضلہ نے اھلاً وسھلاً کہا اور قیام کے لئے اپنا مکان پیش کیا پھر بالترتیب بیاضہ میں زیاد بن لبیدؓ،اورفردہ بن عمروؓ، ساعدہ میں سعد بن عبادہؓ سردار قبیلہ خرزج اورمنذر بن عمروؓ،حارث بن خزرج میں سعد بن ؓ ربیع، خارجہ بنؓ زید اور عبداللہ ابن رواحہؓ ،عدی بن نجار میں سلیط ؓ بن قیس اور ابوسلیط اسیرہ بن ابی خارجہ نے آپ کا خیر مقدم کیا اوراپنے اپنے گھروں میں قیام کی خواہش ظاہر کی ؛لیکن کارکنان قضاوقدرنے اس شرف کے لئے جس گھر کو چنا تھا وہ حضرت ابو ایوبؓ کا کاشانہ تھا، اس لئے جس شخص نے آپ سے اس کی خواہش کی جواب ملا "خلوا سبیلھا فانھا مامورۃ "اس کو چھوڑ دو یہ حکم کی پابند ہے، آخر ندائے وحی نے سفر کی منزل متعین کی اور ناقۂ قصوانے خانۂ ایوبؓ کے سامنے دم لیا،ابن بنو نجار میں قیام کا مسئلہ پیش ہوا اورامید وار ہرطرف سے ہجوم کرآئے؛ لیکن اسی اثنا میں حضرت ابو ایوبؓ انصاری نے آکر کہا"میرا مکان یہ ہے اوریہ اس کا دروازہ ہے" آپ نے اجازت دی تو انہوں نے مہبط وحی ورسالت کو اپنے گھر میں اتارلیا۔ (بخاری:۱/۵۵۵،وابن سعد:۱/۱۵۷) مبارک منزلے کان خانہ راما ہے چنیں باشد ہمایوں کشورے کاں عرصۂ اشا ہے چنیں باشد یہاں پہنچتے ہی اشاعت اسلام کا کام نہایت تیزی سے شروع ہوگیا،جس وقت آپ شہر آرہے تھے ایک گھر کی بیوی آپﷺ کی منتظر تھیں ،مکان کے سامنے سے گذر ہوا تو انہوں نے اپنے تمام گھروالوں کے ساتھ اسلام قبول کیا۔ (اسدالغابہ:۵/۴۶) حضرت عبداللہ بن سلامؓ یہود کے ایک بڑے عالم تھے وہ بھی اب تک اسلام سے محروم تھے،خانۂ ایوبؓ میں جب آنحضرتﷺ مقیم ہوگئے تو انہوں نے بھی آکر کلمہ شہادت پڑھا۔ (بخاری:۱/۵۵۶) تعمیر مسجد نبویﷺ چونکہ نجار میں اب تک مستقل طور سے کوئی مسجد نہیں بنی تھی اس لئے آنحضرتﷺ جہاں موجود ہوتے وہیں نماز ادا فرمالیتے تھے، چند روز کے بعد ایک مسجد کی تعمیر کا خیال پیدا ہوا جس جگہ اس وقت مسجد نبوی ہے یہ انصار کے چھوہارے پھیلانے کی جگہ تھی اور حضرت اسعدؓ بن زرارہ نے مسلمان ہوکر نماز باجماعت کا یہیں انتظام کیا تھا،اس لئے آپ کو مسجد کا خیال پیدا ہوا تو اسی مقام کو منتخب فرمایا،جہاں کہ آپ کی تشریف آوری سے قبل ہی چند مقدس نفوس کے ہاتھوں گویا ایک مسجد کی بنیاد پڑچکی تھی۔ یہ زمین سہل اور سہیل نامی دو یتیموں کی ملک تھی جو حضرت سعد بن زرارہؓ کی آغوش تربیت میں پرورش پاتے تھے،آپﷺ نے ان سے قیمت پوچھی تو بولے کہ ہم یہ زمین آپ کیلئے ہبہ کرتے ہیں؛لیکن آپ ﷺنے اسے ناپسند کیا اوراس کی قیمت ادا فرمائی، اس امر میں اختلاف ہے کہ زمین کا روپیہ کس نے ادا کیا تھا؟ صحیح بخاری میں کوئی تصریح نہیں ،واقدمی نے زہری کے سلسلہ سے لکھا ہے کہ اس کے دام حضرت ابوبکرؓ کے روپے سے دیئے گئے تھے،ایک روایت میں ہے کہ حضرت اسعدبن زرارہؓ نے اس زمین کے معاوضہ میں ان کو بنو بیاضہ میں ایک باغ دیا تھا، (زرقائی:۴۲۲) اورعجب نہیں کہ یہ صحیح بھی ہو؛کیونکہ صحیح بخاری میں یہ بالتصریح مذکور ہے کہ وہ لڑکے انہی کے زیر تربیت تھے،زبیر اورابومعشر کے نزدیک اس کی قیمت حضرت ایوبؓ نے ادا کی تھی۔ (فتح الباری:۷/۱۹۳) غرض زمین کا معاملہ طے ہونے پر اس کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا؛لیکن جانتے ہو کہ اس مقدس مسجد کے کون لوگ معمار تھے؟یہ مسجد خدا کی تھی،اس لئے اس کے مزدور وہ تھے جو خدا کے محبوب اوراس کے محبوب کے پیارے تھے،یعنی انصار کرام اورمہاجرین اول رضوان اللہ علیہماجمعین اورپھر اس کا سب سے بڑا معمار وہ تھاجس نے قصر نبوتﷺ میں آخری اینٹ لگائی تھی اورجس کی غلامی پر جبرئیل امین بھی ناز کیا کرتے تھے ،وہ اپنے باپ حضرت ابرہیمؑ کی طرح خدائے قدوس کی عبادت کے لئے عرب کے ظلمت کدہ میں ایک گھر تیار کررہا تھا اور عبداللہ بن رواحۃ انصاری کا یہ شعر پڑھ رہا تھا۔ اللھم ان الاجر اجر الاخرۃ فارحم الانصاروالمھاجرۃ (بخاری:۱/۵۵۵،باب ہجرت النبی ﷺ،واصحابہ الی المدینۃ) خدایا!اجر تو بس آخرت کا اجر ہے پس تو انصار اورمہاجرین پر رحم فرما مسجد نبویﷺ کے ساتھ آپ کی سکونت کے لئے چند مکانات بھی بنائے گئے اورجب یہ عمارتیں تیار ہوگئیں تو آپ ﷺحضرت ابوایوبؓ انصاری کے مکان سے اپنے مکان میں منتقل ہوگئے۔ (سیرت ابن ہشام:۱/۲۷۵) یہود سے معاہدہ اس کے بعد یہود اورمسلمان میں ایک معاہدہ لکھا گیا جس میں یہود کو ان کے مذہب پر قائم رہنے اوران کے مال وجان کی حفاظت کرنے کی اجازت دی گئی اور یہ شرط کی گئی کہ اگر مسلمان کسی قبیلہ سے جنگ کریں تو یہود پر ان کی امانت لازمی ہوگی ،یہود کے ساتھ خود انصار ومہاجرین کے باہمی تعلقات کا بھی اس میں تذکرہ کیا گیا تھا۔ (سیرت ابن ہشام:۲۷۸) مواخاۃ ہجرت مقدسہ کے وجود پر جو آسمانی برکتیں موقوف تھیں،ان میں سے ایک نعمت عظمیٰ مواخاۃ بھی ہے،مواخاۃ مذہب اسلام اورآنحضرتﷺ کی زندگی کا وہ عظیم الشان واقعہ ہے،جس کی نظیر سے اخلاق اور تمدن دونوں کی تاریخ یکسر خالی ہے ،اہل عرب عموماً اوراہل یثرب خصوصاً باہمی معرکہ آرائیوں کی بدولت حسد، دشمنی،بغض اورکینہ کے اس درجہ عادی ہوگئے تھے کہ غیر تو غیر خود اپنوں پر بھی کسی کو اعتماد نہ ہوتا تھا،اوس وخزرج بھائی بھائی تھے؛ لیکن پیہم خانہ جنگیوں نے وہ دن دکھایا تھا کہ ایک دوسرے کی صورت سے بھی نفرت کرتے تھے ،واقعات شاہد ہیں کہ جب حضرت مصعب بن عمیرؓ داعی اسلام بن کر مدینہ آئے تو انصار نے ان کو صرف اس وجہ سے امام بنایا تھا کہ وہ اپنے کسی ہم قبیلہ کے پیچھے نماز نہیں پڑھنا چاہتے تھے،(اسد الغابہ:۴/۳۶۹) لیکن اسلام کی برکات اورآنحضرتﷺ کے فیض صحبت سے یہ حالت بہت جلد بدل گئی اور وہ دن آگیا کہ انصار باہمی بغض وعناد کو چھوڑکر مہاجرین اوراجنبی مسلمانوں کے ساتھ وہ کریں جو دنیابڑے سے بڑے عزیز کے ساتھ نہیں کرسکتی،ہجرت کے پانچ ماہ بعد آنحضرتﷺ نے حضرت انسؓ کے مکان میں انصار ومہاجرین کا ایک مجمع طلب کیااوران میں برادری قائم کی، کہتے ہیں کہ ان بزرگوں کی تعداد ۹۰ تھی جن میں نصف مہاجرین اورنصف انصار تھے،ابن سعد نے واقدی سے یہی روایت کی ہے بعض کا خیال ہے کہ دونوں فریق ۵۰،۵۰ تھےاس لحاظ یہ تعداد۹۰ کےبجائے ۰۰اہوجاتی ہے ان بزرگوں میں سے بعض کے نام جو ہم کو معلوم ہوسکے وہ یہ ہیں۔ مہاجرین انصار ۱ آنحضرتﷺ ۲ حضرت حمزہؓ ۳ جعفر طیارؓ معاذ بن جبلؓ ۴ ابوبکر صدیقؓ خارجہ بن زہیرؓ ۵ عمربن الخطابؓ عتبان بن مالکؓ ۶ ابوعبیدہؓ سعدبن معاذؓ ۷ عبدالرحمن بن عوفؓ سعدبنؓ ربیع ۸ زبیر بن عوامؓ سلمہ بن سلامہ بن دقش ۹ عثمان بن عفانؓ اوس بن ثابتؓ بن منذر ۱۰ طلحہ بن عبیدؓاللہ کعب بن مالکؓ ۱۱ سعیدؓ بن زید ابی بن کعبؓ ۱۲ مصعب بن عمیرؓ ابوایوبؓ خالد بن زید ۱۳ ابوحذیفہؓ بن عبتہ عباد بنؓ بشر بن دقش ۱۴ ابوذرغفاریؓ منذر بن عمروؓ ۱۵ عمار بن یاسرؓ حذیفہ بن یمانؓ ۱۶ حاطب بن ابی بلتعہؓ عویم بن ساعدہؓ ۱۷ سلمان فارسیؓ ابوالدرداءؓ ۱۸ بلال حبشیؓ ابوردیحہ حشعمیؓ حضرت علیؓ زید بن حارثہؓ (سیرت ابن ہشام :۱/۲۸۱،۲۸۲) اس مواخاۃ کا کیا اثر ہوا؟ اس کا جواب ذیل کے واقعات میں ملتا ہے، مہاجرین جس وقت مکہ سے مدینہ آئے ہیں تو ان کے پاس کچھ نہ تھا، انصار نے اپنی جائدادیں ان کیلئے علیحدہ کردیں ؛لیکن آنحضرتﷺ نے انکار کیا تو انصار نے کہا کہ مہاجرین ان کی زمینیں جوتیں بوئیں اوراس محنت کے معاوضہ میں نصف پھل لے لیا کریں (مسلم:۲/۷۸) آنحضرتﷺ اورمہاجرین نے اس رائے کو پسند کیا۔ انصار کی وراثت بجائے ان کے اعزہ کے مہاجرین کو ملتی تھی جب یہ آیت" وَلِکُلِ جَعَلْنَا مَوَالِیَ" نازل ہوئی تو وراثت کا یہ طریقہ منسوخ ہوگیا۔ (بخاری:۱/۳۰۶) عام انصار کے ساتھ حضرت سعد بن ربیعؓ نے مواخاۃ کا عجیب وغریب منظر پیش کیا، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ان کے اسلامی بھائی بنائے گئے تو انہوں نے درخواست کی کہ میرا آدھا مال لے لیں اور میری دو بیویوں میں سے ایک منتخب کرلیں(حضرت سعدؓ کے دوبیویاں تھیں) حضرت عبدالرحمنؓ نے یہ الفاظ سنے تو ان کے لئے خیروبرکت کی دعا کی ۔ (بخاری:۱/۵۶۱) آنحضرتﷺ نے انصار کو بحرین میں زمین دینا چاہی تو انہوں نے صرف اس بناء پر لینے سے انکار کیا کہ قریش کو بھی اس قدر ملنا چاہیے۔ (بخاری:۴۴۸) غزوۂ موتہ میں امرائے لشکر کی شہادت کے بعد کوئی امیر نہ تھا،ایک انصاری نے جھنڈا لیجا کر حضرت خالدؓ کو دیا ،انہوں نے ہر چند چاہا کہ انصاری امیر بن جائیں؛ لیکن وہ برابر انکار کرتے رہے اوربولے کہ میں اس کو صرف تمہارے لئے لایا ہوں۔ (طبقات ابن سعد،جلد۲،قسم۱،صفحہ:۹۴) ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ مواخاۃ کی بدولت انصار میں ایثار کا عجیب وغریب مادہ پیدا ہوگیا تھا،نفسانیت بالکل فنا ہوگئی تھی اور جاہلیت کی تمام ادعائی آوازیں پست ہوگئی تھیں۔ اذان آنحضرتﷺ کی مکی زندگی کچھ ایسی پر پیج مشکلات میں گھری ہوئی گذری تھی کہ نماز کے علاوہ اور کوئی شئے مسلمانوں پر فرض نہیں ہوسکتی تھی،مدینہ آکر جب کسی قدر امن وسکون میسر ہوا تو فرائض کی حد بندی اور احکامات میں اضافہ شروع ہوا؛چنانچہ زکوٰۃ اورروزے فرض ہوئے ،حدود مقرر کئے گئے اورحلال وحرام کی تشریح کی گئی، اس وقت تک آنحضرتﷺ نے نماز کیلئے جو جماعت قائم کی تھی اس کی صرف یہ صورت ہوتی تھی کہ لوگ نماز کے اوقات میں جمع ہوجاتےتھے اورنماز ہوجاتی تھی؛ لیکن اس کی اطلاع کا مسلمانوں کے پاس کوئی ذریعہ نہ تھا، اس کے لئے آنحضرتﷺ نے یہ تجویز پیش فرمائی کہ نماز کے وقت یہود کی طرح بوق بجا یا جائے،پھر ناقوس کا خیال ہوا، اسی اثناء میں انصار کے ایک شخص حضرت عبداللہ بن زیدؓ بن عبد ربہ نے خواب دیکھا اوراس میں اذان کے کلمات سنے ،بیدار ہوکر آنحضرتﷺ سے بیان کیا ،ارشاد ہوا کہ تمہارا خواب سچا ہے اورحضرت بلالؓ کو اذان سکھانے کا حکم دیا وہ اذان دے ہی رہے تھے کہ حضرت عمرؓ نے اپنا خواب آکر بیان کیا اورکہا میں نے بھی یہی کلمات خواب میں سنے ہیں،آنحضرتﷺ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور دومسلمانوں کے اس اتفاق پر خدا کا شکر ادا کیا۔ (سیرت ابن ہشام:۱/۲۸۳،وجامع ترمذی:۳۷) اس مقام پر یہ بات لحاظ کے قابل ہے کہ اذان جو درحقیقت نماز کا دیباچہ اوراسلام کا شعار اعظم ہے،ایک انصاری کی رائے سے قائم ہوئی اوریہ وہ شرف ہے جو انصار کے ناصیۂ کمال پر ہمیشہ غرۂ عظمت بن کر نمایاں رہے گا۔