انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابو ذرؓ غفاری کا واقعہ اسی ۳۰ ھ میں حضرت ابو ذر غفاریؓ کا واقعہ پیش آیا،کہ وہ ملک شام میں حضرت امیر معاویہؓ کی ماتحتی میں تشریف رکھتے تھے،وہاں انہوں نے یہ آیت کریمہ "وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ" کے معانی ومطالب میں امیر معاویہؓ سے مخالفت کی ،ابوذر غفاریؓ فرماتے تھے کہ روپیہ جمع کرنا اورسب کا سب راہ خدا میں خرچ نہ کردینا کسی طرح جائز نہیں اورحضرت امیر معاویہؓ فرماتے تھے کہ انفاق فی سبیل اللہ سے مراد زکوٰۃ کا ادا کرنا ہے جس روپیہ کی زکوٰۃ ادا کی جائے اس کا جمع ہونا گناہ نہیں ہے،اگر بلا شرط روپیہ کا جمع کرنا گناہ ہوتا ،تو قرآن کریم میں ترکہ کی تقسیم اور وراثت کے حصص کا ذکر نہ ہوتا، حضرت ابو ذر غفاری کے اس عقیدے کا حال وہاں کے لوگوں کو معلوم ہوا تو سب نے اُن کا مذاق اُڑایا اورنو عمر لوگ خاص کر زیادہ تمسخر کرنے لگے حضرت ابوذر کا اصرار بھی ترقی کرتا گیا،یہاں تک نوبت پہنچی کہ حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت عثمان غنیؓ کو اس کیفیت کی اطلاع دی،خلیفہ وقت نے حکم بھیجا کہ حضرت ابو ذرؓ کو نہایت تکریم کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف روانہ کردو، مدینہ میں آکر حضرت ابوذرؓ نے اپنے عقیدے کا اعلان شروع کردیا،چونکہ اُن کے مزاج میں درشتی تھی،لہذا لوگ اُن سے عموما چشم پوشی ودرگذر ہی کرتے تھے،لیکن یہاں بھی نو عمر اور خوش طبع لوگ موجود تھے،وہ کبھی نہ کبھی اُن کو چھیڑ ہی دیتے تھے،اتفاقاً اسی عرصہ میں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی وفات ہوئی،وہ بہت مال دار شخص اور عشرہ مبشرہ میں شامل تھے، کسی نے حضرت ابو ذرؓ سے کہا کہ عبدالرحمن نے اس قدر دولت چھوڑی ہے ،اُن کی نسبت آپ کا کیا حکم ہے،انہوں نے بلاتامل حضرت عبدالرحمن پر بھی اپنا فتویٰ جاری کردیا، اس پر حضرت کعبؓ احبار جو حضرت فاروق اعظمؓ کے عہد خلافت میں مسلمان ہوئے تھے اوربنی اسرائیل کے زبردست عالم تھے، معترض ہوئے ،ابو ذر نے یہ کہہ کر کہ اے یہودی تجھ کو ان مسائل سے کیا واسطہ اپنا عصا اٹھایا اورکعب احبار پر حملہ آور ہوئے،کعب احبار بھاگے اورحضرت عثمان غنیؓ کی مجلس کی طرف گئے، اُن کے پیچھے پیچھے ابوذرؓ بھی اپنا عصا لئے ہوئے پہنچے،بڑی مشکل سے حضرت عثمان کے غلاموں نے کعب احبار کو بچایا اور حضرت ابو ذرؓ کو باز رکھا،حضرت ابو ذرؓ کا غصہ جب فرو ہوا تو وہ خود حضرت عثمان غنیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میرا تو عقیدہ یہی ہے کہ سب کا سب مال خدا کی راہ میں خرچ کردینا واجب ہے شام کے لوگوں نے میری مخالفت کی اور مجھ کو ستانا چاہا،اب مدینہ میں بھی لوگ اسی طرح میری مخالفت کرنے لگے ہیں،آپ بتائیں کہ میں کیا تدبیرا اختیار کروں اورکہاں چلا جاؤں ،اس پر حضرت عثمان غنیؓ نے اُن کو مشورہ دیا کہ آپ مدینہ سے باہر کسی گاؤں میں سکونت اختیار فرمالیں ؛چنانچہ حضرت ابو ذرؓمدینہ سے تین میل کے فاصلے پر مقام موضع ربذہ میں جاکر سکونت پذیر ہوگئے۔