انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** آپﷺ کے اجتہاد کی تصویب بہرحال اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتھاد واقع کے مطابق ہوتا تھا تو کبھی اس کی تصویب بھی کردی جاتی تھی، اور اسے برقرار رکھا جاتا تھا، جیساکہ: ۱۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احد میں پچاس تیراندازوں کو ایک پہاڑپر متعین کیا تھا اور انہیں ہدایت دی تھی: "أحموا ظهورنا فإن رأيتمونا نقتل فلا تنصرونا وان رأيتمونا نغنم فلا تشركونا" (البدایہ: ۴/۲۷) پیچھے سے حملہ کرنے والوں سے ہماری حفاظت کرنا، اگر ہماری شکست ہو پھربھی تم لوگ ہماری مدد کو نہ آنا، اور اگر ہمیں کامیابی ملے توبھی مالِ غنیمت جمع کرنے میں ہمارے ساتھ شریک نہ ہونا۔ اس تاکیدی ارشاد کے باوجود جب ان تیراندازوں نے یہ دیکھا کہ کفارمکہ میدان چھوڑکر بھاگ رہے ہیں اور صحابہ مالِ غنیمت کے جمع کرنے میں مصروف ہیں تو ان حضرات نے اپنے مقام کو چھوڑدیا اور نیچے اترآئے، اگرچہ ان کے امیرنے اس سے روکا مگر بارہ افراد کے علاوہ سارے نیچے اترآئے، ادھر جب خالدبن ولید (جوکافروں کی طرف سے آئے تھے، اور اس وقت تک حلقہ بگوش اسلام نہیں ہوئے تھے) نے پہاڑکے اس حصہ کو خالی پایا، اور گنتی کے چند افراد کو وہاںپر دیکھا تو اپنے گھوڑسوار دستہ کے ساتھ اس راستہ سے صحابہ پر پشت کی جانب سے حملہ کیا اور ابتدائی فتح شکست سے بدل گئی، ستر صحابہ شہید ہوئے، آپﷺ بھی زخمی ہوئے، صحابہ پر یہ حالات بظاہر ان تیراندازوں کے غلط فہمی کی بناء پر آئے، اس واقعہ میں غورکیا جائے تو آپﷺ نے تیراندازوں کو جو حکم دیا تھا وہ محض اپنے اجتھاد کی بناء پر دیا تھا اور آپﷺ کا یہ اجتھادمنشأخداوندی کے مطابق تھا؛ یہی وجہ ہے کہ غلط فہمی کی بناء پر تیراندازوں نے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو نظرانداز کردیا تھا تو ان پر عتاب نازل ہوا، ارشادباری تعالیٰ ہے: "اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِۙ اِنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّـیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا وَلَقَدْ عَفَا اللہُ عَنْھُمْ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌo" (آل عمران:۱۵۵) یقینا تم میں سے جن لوگوں نے پشت پھیردی تھی جس روزکہ دونوں جماعتیں باہم مقابل ہوئیں، اس کے سوا اور کوئی بات نہیں ہوئی کہ ان کو شیطان نے لغزش دے دی، ان کے بعض اعمال کے سبب اور یقین سمجھوکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرمادیا، واقعی اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت کرنے والے ہیں بڑے حلم والے ہیں۔ اتناہی نہیں بلکہ اس فعل کو عصیان سے تعبیر کیا ہے، (آل عمران:۱۵۲) حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم کسی قرآنی آیت کی روشنی میں نہیں دیا تھا؛ بلکہ صرف اجتھاد کی روشنی میں دیا تھااور جس کا ماننا صحابہ پر لازم تھا، نہ ماننے کی وجہ سے اس کو عصیان سے تعبیر کیا گیا اور اس پر عتاب بھی ہوا، اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ قرآن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتھاد کی تصویب کی اور اُسے برقرار رکھا۔ ۲۔ غزوۂ بنونضیر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتھاد سے یہ حکم دیا تھا کہ ان کے کھجور کے درختوں کو کاٹو، تاکہ یہ دیکھ کر وہ قلعہ سے باہر آئیں اور دوبدوجنگ ہوسکے، چنانچہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے درختوں کو کاٹنا شروع کیا تو بنونضیرنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم اور صحابہ کے فعل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: "انک تنھی عن الفساد فما بالک تامر بقطع الأشجار"۔ (تفسیرابن کثیر: ۸/۶۱) آپﷺ توخود فساد برپا کرنے سے روکتے ہیں، توپھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کا درخت کاٹنے کا حکم اپنے صحابہ کو کیوں دیا؟۔ اس اعتراض کی وجہ سے بعض صحابہ کوبھی خلجان ہوا اور کچھ پریشانی لاحق ہوئی تو بنونظیر کے اس اعتراض اور بعض صحابہ کے شبہ کا جواب قرآن پاک کی اس آیت میں دیا گیا: "مَاقَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ أَوْتَرَکْتُمُوْہَا قَائِمَۃً عَلٰی أُصُوْلِہَا فَبِإِذْنِ اللَّہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِیْنَ" (الحشر:۵) جو کھجوروں کے درخت کے تنے تم نے کاٹ ڈالے یا ان کو ان کی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو (دونوں باتیں) خداکے حکم (رضا) کے موافق ہیں، تاکہ کافروں کو ذلیل کرے۔ گویا اس آیت میں یہ کہا گیا کہ کھجور کے جن درختوں کو تم لوگوں نے کاٹ دیا، یا جسے کاٹ نہیں سکے اور وہ اپنے تنوں پر کھڑے ہیں وہ اللہ کی مشیت، ان کی رضامندی اور ان کی اجازت سے ہوئی اور اس کاٹنے میں اصل مقصد دشمنوں کو مرعوب کرنا ہے اور اس میں ان کی ذلت ورسوائی ہے، اس آیت میں غور کیا جائے کہ حضوراکرمﷺ نے محض اپنے اجتھاد سے بنونضیر کے باغات کاٹنے کا حکم دیا تھا اسے وحی متلو (قرآن) میں عین منشأ خداوندی قراردیا گیا اور اس کی تصویب کی گئی۔ ۳۔ تاجران مکہ کے ایک مختصر قافلے کی ملکِ شام سے واپسی کی اطلاع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی اور یہ بھی معلوم ہواکہ ان کے ساتھ مال واسباب بہت زیادہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو اس کی اطلاع دی، صحابہ کرام کو قلت افراد اور کثرت مال کا حال معلوم ہونے پر مال غنیمت کا خیال ہوا اور اسی ارادہ سے مدینہ سے روانہ ہوئے؛ لیکن ابوسفیان جو اس قافلہ کے سردار تھے اور اس وقت تک حلقہ بگوش اسلام نہیں ہوئے تھے انہوں نے اپنے قافلہ کو عام شاہراہ سے ہٹاکر ساحل سمندر سے ہوتے ہوئے گذارا اور ساتھ ہی مکہ مکرمہ کے سرداروں کو اس بات کی اطلاع دے دی کہ مسلمان تم لوگوں کے تجارتی قافلہ کو لوٹنے کے درپے ہیں،یہ سنتے ہی ابوجہل اور دیگر سرداروں نے آناًفاناً ایک لشکر ترتیب دی جو سامان حرب وضرب سے لیس تھا اور ایک ہزارسے زائد افرادپر مشتمل تھا اسے ساتھ لیکر وہ لوگ اپنے تجارتی قافلہ کی حفاظت کےلیے نکلے، ادھر ابوسفیان اپنے قافلہ کو براہ سمندر خطرہ کے مقام سے آگے نکل چکے تھے اور اس کی اطلاع ابوجہل اور دیگر سرداروں کوبھی دے دی، لیکن یہ لوگ نہ مانے اور مقام بدرتک جنگ کی غرض سے پہنچ گئے، ادھر صحابہ کرام جو تعداد میں تین سوسے کچھ زائد تھے اور جنگ کے واسطے ضروری سامان حرب وضرب بھی ان کے ساتھ نہیں تھا، ان کا مقابلہ اتنے بڑے لشکرسے ہونے کا وقت آگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نازک موقع سے ارشاد فرمایا: "اشیرواعلی ایہاالناس" (البدایہ: ۳/۳۲۰) اے لوگو! مجھے مشورہ دو۔ مشورہ اس بات کا کہ اس لشکرسے جنگ کی جائے یانہیں؟ اس مشورہ کی ضرورت اس لئے پڑی کہ جس قافلہ کیلئے نکلے تھے وہ تو صحیح سالم نکل گیا اور ہزار کی تعداد میں ہتھیاروں سے لیس یہ لشکر سامنے آموجود ہوا اور اس کیلئے مناسب تیاری کیے بغیر مدینہ سے نکلنا ہوا تھا؛ اسی بناء پر بعض صحابہ کی رائے تھی کہ لڑائی کئے بغیر واپس مدینہ چلے جائیں، مگر حضرت ابوبکر، حضرت عمر، سعدبن معاذ اور سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہم نے بروقت اقدام کی رائے دی اور بڑی جرأتمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيضَهَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاهَا وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَكْبَادَهَا إِلَى بَرْكِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا" (مسلم، حدیث نمبر:۳۳۳۰) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمندر میں گھسنے کا حکم دیں گے تو ہم اس کیلئے بھی تیارہیں اور اگر برک غماد (ایک مقام کا نام) تک جانے کا حکم دیں تو اس کیلئے بھی ہم تیار ہیں، (ہم آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کریں گے)۔ اس رائے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے خوش ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ اگرچہ ہم تجارتی قافلہ کے واسطے نکلے تھے، لیکن اب جبکہ ہمارا مقابلہ ابوجہل کے لشکرسے ہوگیا ہے تو اس سے جنگ کریں گے، جنگ کی قطعیت آپ نے اپنے اجتھاد سے دی، اور فرمایا: "سیرواوا بشروافان اللہ تعالیٰ قدوعدنی احدی الطائفتین واللہ لکانی الآن انظرالی مصارع القوم "۔ (سیرت لابن ہشام: ۱/۲۱۵) ابوجہل کے لشکر کے مقابلہ کیلئے چلو اور تمہیں خوشخبری ہوکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے دوجماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کیا ہے اور بخدا میں کافرقوم کے جائے قتل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہوں۔ گویا آپﷺ کے فیصلہ کو جوں کاتوں برقرار رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح اور کفارمکہ کے شکست کی خوشخبری دی گئی۔