انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بے تکلفی ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میری تعریف میں زیادہ مبالغہ مت کرو،جیسے نصاریٰ نے عیسیٰؑ بن مریم کو حد سے زیادہ بڑھادیا،میں تو اللہ کے بندوں میں سے ایک ہوں،اس لئے مجھے عبداللہ ورسولہ کہا کرو، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو سب صحابہ تعظیماً کھڑے ہوگئے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جیسے عجمی آپس میں ایک دوسرے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اس طرح تم کو کھڑا ہونا نہ چاہئے(شفاقاضی عیاض)آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب میں بالکل ملے جُلے رہتے تھے اور مجلس میں جہاں جگہ مل جاتی تھی وہیں بیٹھ جاتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوکروں کے کام میں شریک ہوجاتے اوراُن کو اپنے پاس بٹھالیتے تھے،بارہا ایسا اتفاق ہوا کہ کوئی شخص کسی یہودی کا مقروض ہوا اوریہودی نے تنگ طلبی کی وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا،اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ ہوا تو خود اُس کا قرض دے دیا ورنہ اُس یہودی کے پاس خود تشریف لے گئے اور اس سے کچھ اورمہلت دینے کیلئے کہا مگر یہودی لوگ اس کا بھی کچھ خیال نہیں کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ادھر اُدھر کوشش کرکے جس طرح ممکن ہوتا تھا ادائے قرض کا بندوبست کردیتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بھوکوں اورمسکینوں کے لئے کوشش کرنے والا مجاہد فی سبیل اللہ قائم اللیل اورصائم النہار کے برابر درجہ رکھتا ہے۔ ایک شخص نے حاضر خدمت ہوکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ جنت پانے کا کیا عمل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدق کیونکہ جب آدمی سچا ہوتا ہے تو نیکی کرتا ہے اورجب نیکی کرتا ہے تو نورِ ایمان پیدا ہوتا ہے اورجب ایمان دار ہوتا ہے تو جنت میں داخل ہوتا ہے ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خبردار سچے رہو خواہ تم کو سچائی میں ہلاکت ہی کیوں نہ نظر آئے،کیونکہ بلاشبہ نجات اسی میں ہے،مکہ سے بدر کی طرف آئے ہوئے راستے میں احنس بن شریف نے ابو جہل سے کہا کہ اے ابو الحکم میں تجھ سے ایک بات پوچھتا ہوں، اس جگہ ہم دونوں کے سوا کوئی تیسرا شخص ہماری بات سُننے والا نہیں ہے، تو مجھے سچ سچ بتادے کہ آیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے ہیں یا سچے،ابو جہل نے جواب دیا کہ واللہ بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سچ بولتے ہیں اوراُنہوں نے کبھی غلط بیانی نہیں کی حضرت ابو سعید خدریؓ کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شریف پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے اور جب کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند ہوتی تھی تو ہم لوگ فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے سمجھ جاتے تھے،اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کی بات اچھی نہ معلوم ہوتی تھی تو اسے اشارے کنائے سے آگاہ فرمادیتے تھے تاکہ وہ خفیف نہ ہو،لیکن کلام الہی اور اعلاء کلمۃ الحق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی رعایت نہیں کرتے تھے۔