انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سُلطان سلیم کے عہد حکومت پر تبصرہ سلطان سلیم نے صرف آٹھ سال آٹھ مہینے اورآٹھ دن حکومت کی،اس قلیل مدت میں اس نے جس قدر فتوحات حاصل کیں کسی بڑے سے بڑے سلطان کو بھی حاصل نہیں ہوسکیں، سلطان کی خصوصیات میں سب سے بری قابلِ تذکرہ بات یہ ہے کہ وہ انتہائی طیش وغضب کے عالم میں بھی علمائے دین کی تکریم کو مد نظر رکھتا تھا،وزیروں اورسپہ سالاروں کو معمولی لغزشوں پر قتل کردینا اس کے لئے معمولی بات تھی اور اسی لئے اراکینِ سلطنت اس سے خائف وترساں رہتے تھے،لیکن دین پیشوا اورعلما اس کے طیش وغضب سے بے خوف اورآزاد تھےسلیم کا خیال تھا کہ ملک کے اندر سخت گیری اورسیاست کے ذریعہ ہی امنوامان قائم رہ سکتا ہے اورایک حد تک اس کا یہ خیال درست بھی تھا لیکن چونکہ وہ اعلیٰ درجہ کا مذہبی شخص تھا اس لئے علمائے دین کی تحقیر و تذلیل وہ کسی حالت میں بھی گوارا نہیں کرسکتا تھا، ایک مرتبہ سلطان سلیم نے محکمۂ مال کے ڈیڑھ سو اہل کاروں کو کسی بات پر ناراض ہوکر گرفتار کرایا اورحکم دیا کہ سب کے سر قلم کردیئے جائیں، قسطنطنیہ کے قاضی جمالی نے یہ حکم سُنا تو فوراً سلطان سے کہا کہ آپ نے یہ حکم غلطی سے دیا ہے آپ اس حکم کو واپس لے لیں اوران لوگوں کا سرقلم نہ کرائیں کیونکہ وہ مستحق قتل نہیں ہیں سلطان نے کہا کہ انتظام ملکی میں آپ کو دخل نہیں دینا چاہئے،قاضی صاحب نے کہا کہ آپ اس دنیا کے ملک کی بہتری کو مد نظر رکھتے ہیں اور میں آپ کی عالم آخرت میں بھلائی چاہتا ہوں،چاہے آپ کا یہ ملک کیسے ہی مصالح ملکی پر مبنی ہو لیکن عالم آخرت میں آپ کے نقصان وزیان اورخسران وہلاکت کا موجب ہے کیوں کہ خدا ئے تعالیٰ رحم کرنے والے پر انعام وبخشش کرتا اور ظالم کو سخت عذاب میں مبتلا کرتا ہے، یہاں تک نوبت پہنچی کہ سلطان کو قاضی جمالی کے منشا کے موافق سب کو معاف وآزاد کرنا پڑا اورنہ صرف ان کو آزاد ہی کیا ؛بلکہ ان کے عہدوں پر ان کو بدستور مامور کردیا۔ اسی طرح ایک مرتبہ سلطان سلیم نے حکم دیا کہ ہمارے ملک سے ایران کے ملک میں ریشم قطعی نہ جانے پائے ساتھ ہی ان سوداگروں کو جو قسطنطنیہ میں موجود اورایران کے ملک میں ریشم لے جانے والے تھے گرفتار کرالیا، ان سوداگروں کی تعداد چار سو کے قریب تھی،ان کی تمام جائیداد ضبط کرلینے اوران کی گردنیں اڑانے کا حکم ہوا، یہ وہ زمانہ تھا کہ سلطان سلیم ایڈریانوپل کی طرف روانہ ہو رہا تھا اورقاضی جمالی بھی سلطان کے ساتھ تھا،ان نے سلطان سے ان سوداگروں کی سفارش کی،سلطان نے جواب دیا کہ دنیا کے دو تہائی باشندوں کی بہتری اوربھلائی کے لئے ایک تہائی کو قتل کردینا جائز ہے قاضی صاحب نے کہا اس وقت جب کہ یہ ایک تہائی موجب فساد ہوں،سلطان نے کہا اس سے بڑھ کر اورکیا فساد ہوسکتا ہے کہ اپنے بادشاہ کے حکمکی خلاف ورزی کی جائے،قاضی صاحب نے فرمایا کہ ان لوگوں تک حکمسلطانی ابھی نہیں پہنچا تھا اس لئے یہ مجرم نہیں قرار پاسکتے،اگر اس قسم کی گفتگو کوئی وزیر اعظم کرتا تو فوراً قتل ہوچکا ہوتا مگر سلطان نے نہایت غصہ کی حالت میں صرف یہ کہا کہ تم معاملاتِ سلطنت میں دخل نہ دو، قاضی صاحب یہ جواب سُن کر بہت برہم ہوئے اوربلا آداب بجالائے اوربلارخصت طلب کئے ہوئے ناراضگی کے ساتھ چل دیئے اورسلطان سلیم سخت حیرت کے عالم میں خاموش اپنے گھوڑے پر کھڑا رہ گیا، سلطان نے اپنا سرجھکا لیا اور تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر حکم دیا کہ اچھا سوداگروں کو رہا کردیا جائے اوران کا تمام مال واسباب وادے دیا جائے،اس کے بعد قاضی صاحب کے پاس پیغام بھیجا کہ میں نے اپنی تمام مملکت یعنی ایشیا ویورپ کے علاقوں کا قاضی القضاۃ بنادیا مگر قاضی صاحب نے اس عہدۂ جلیلہ کے قبول کرنے سے انکار کردیا تاہم سلطان نے ان کے حال پر بہت مہربانیاں کیں۔ سلطان سلیم کاعہد حکومت دنیا میں مذاہب کے لئے بھی خصوصی زمانہ تھا، اسی زمانہ میں خلافت اسلامیہ خاندان عباسیہ سے نکل کر خاندان عثمانیہ میں آگئی اور مجبورنام کے خلفاء کی جگہ صاحب ملک ولشکر خلفاء اسلام میں ہونے لگے، اسی زمانے میں لوتھرنے عیسائی مذہب میں اصلاح اورعقائد کی ترمیم ہندوستان کے اندر کبیرداس نے اپنا ایک پنتھ جاری کردیا تھا،کبیر گورکھ پور کے قریب بمقام مگھ ۹۲۴ھ میں فوت ہوا تھا جو سلطان سکندر لودھی کا ہم عصر تھا،اسی سلطان کے عہد حکومت یعنی ۹۲۲ھ میں جیب گھڑی ایجاد ہوئی۔ سلطان سلیم عثمانی نے چاہا تھا کہ عیسائی ممالک پر حملہ آور ہونے سے اپنی حدودِ سلطنت کے رہنے والے تمام عیسائیوں کو اول مسلمان بناکر اپنے ملک کو غیر ملکی عنصر سے قطعاً پاک وصاف کردے ؛چنانچہ اس نے عیسائیوں کے گرجوں کو مسجدیں بنالینے کا ارادہ ظاہر کیا،یہ خبر جب عیسائیوں کو پہنچی تو وہ سلطان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ سلطان فاتح نے فتح قسطنطنیہ کے وقت ہم کو ہر قسم کی مذہبی آزادی عطا کی تھی اور وعدہ کیا تھاکہ تمہارے گرجوں کی حفاظت کی جائے گی اورتمہارے مذہبی معاملات میں قطعاً مداخلت نہ ہوگی،عیسائیوں کے ا بیان کی علمائے دربار نے تائید کی اور قاضی جمالی بھی عیسائیوں کے سفارشی ہوئے ؛چنانچہ سلطان کو مجبوراً اس ارادے سے باز رہنا پڑا، عیسائی مورخ سلطان سلیم سے بہت ناراض معلوم ہوتے ہیں اوروہ سلطان کی مذہبی دلچسپی کو ایک عیب بتاتے ہیں مگر یہ ان کی نابینائی اورتعصب ہے،سلطان سلیم کے باخدا اورنیک ہونے کی ایک یہ بھی سب سے بڑی دلیل ہے کہ جس قدر ممالک پر سلطان سلیم نے قبضہ کیا تھا وہ تمام ملک سب سے آخر تک ترکوں کے قبضے یا کم از کم ان کی سیادت میں رہے،اس سلطان نے حکومت کا زیادہ موقع نہ پایا اوربہتجلد ۵۲ سال کیعمر میں فوت ہوگیا اگر کچھ دنوں اورزندہ رہتا تو یقیناً تمام یورپ کو فتح کئے بغیر نہ رہتا، سلطان سلیم خاندانِ عثمانیہ میں سب سے پہلا خلیفہ تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ قلم کی گردش پوری ہوچکی اور ہم تاریخ کے طویل سلسلے کو اس جلد پر ختم کررہے ہیں۔