انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امام مالک بن انسؒ (م:۱۷۹ھ) ۱۔اہل علم کی کئی قسمیں ہیں ایک وہ جو عالم اپنے علم پر عمل کرتا ہے ،اس کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے: "إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ" (فاطر:۲۸) اللہ سے ڈرنے والے تو علماء ہی ہیں۔ دوسرے وہ عالم جو علم حاصل کرکے دوسروں کو نہ سکھائے،اس کے متعلق فرمانِ خداوندی ہے: "إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى" (البقرۃ:۱۵۹) "جوچھپاتے ہیں اس چیز کو جو ہم نے اتاری بینات اور ہدایت میں سے۔ تیسرا وہ عالم جو علم حاصل کرکے دوسروں کو سکھاتا ہے،مگر خود اس پر عمل نہیں کرتا ہے، اس کے لئے اللہ تعالی کا قول ہے: "أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ" (الاعراف:۱۷۹) یہ تو محض جانور ہی ہیں؛بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ بے را ہ ہیں۔ ۲۔علامہ زبیریؒ کہتے ہیں کہ میں نے امام صاحب سے کہا جب میں لوگوں کو امر بالمعروف کرتا ہوں تو ان میں سے کچھ لوگ میری بات مان لیتے ہیں اورکچھ لوگ مجھے تکلیف دیتے ہیں،میری برائی کرتے ہیں اور میرے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں،ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟امام صاحب ؓ نے فرمایا: "اگر تم کو ڈر ہے اور تم سمجھتے ہو کہ لوگ تمہاری بات نہیں مانیں گے تو ان کو چھوڑ دو،اوردل میں ان کی برائی سے بیزاری رکھو،اس میں تمہارے لیے گنجائش ہے اورجس شخص سے تم کو گزند کا خطرہ نہ ہو اس کو امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کرو، اوراسکو حکم خداوندی پر عمل سمجھ کر کرو، ایسی صورت میں تم خیر ہی دیکھو گے،خاص طور سے جب تم میں اس معاملہ میں نرمی ہو، اللہ تعالی نے موسیٰ اورہارون ؑ کو حکم دیا تھا کہ فرعون سے نرم بات کریں، ایسی صورت میں سننے والا تمہاری بات پر دھیان دے گا اوراس کو قبول کرے گا" (ترتیب المدارک:۱/۱۸۷،۱۹۰) ۳۔باطل سے قربت ہلاکت ہے،باطل بات میں حق سے دوری ہے،دین اور شرافت میں خرابی کے بعد ملنے والی دنیا میں خیر نہیں، اگرچہ کتنی ہی زیادہ ہو۔ ۴۔مجھے معلوم ہوا ہے کہ قیامت میں جن باتوں کا سوال انبیاءؑ سے کیا جائے گا، ان ہی باتوں کا سوال علماء سے کیا جائے گا۔ ۵۔منافقوں کی مثال مسجد میں ایسی ہی ہے جیسے چڑیا پنجرے میں ہو کہ جوں ہی اس کا دروازہ کھلا چڑیا اڑگئی۔ ۶۔علم دین کثرت روایت سے نہیں آتا؛بلکہ وہ نور ہے جس کو اللہ تعالی دل میں ڈال دیتا ہے،تحصیل علم بہت خوب ہے،البتہ تم دیکھو کہ اس بارے میں صبح سے شام تک کیا کرنا ہے،اس کو اختیار کرو۔ ۷۔ایک مرتبہ امام صاحب ؒ نے مطرف سے پوچھا کہ میرے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں؟ مطرف نے بتایا کہ دوست تعریف کرتے ہیں اوردشمن برائی کرتے ہیں،امام صاحب نے فرمایا کہ لوگوں کا یہی حال ہے کہ دوست اوردشمن دونوں ہوتے ہیں،اللہ تعالی ہم کو لوگوں کی زبان درازی سے محفوظ رکھے۔ ۸۔اس امت کا آخری طبقہ اسی بات سے صلاح وفلاح پاسکتا ہے جس سے اس کا پہلا طبقہ کامیاب ہوا ہے۔ ۹۔معاصی کی ابتداء کبر،حسد اورکنجوسی سے ہوتی ہے۔ ۱۰۔تم جس چیز سے چاہو نرمی وتسامح کرو،مگر اپنے دین میں نرمی وتسامح نہ کرو۔ ۱۱۔اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا معلوم ہے، اس کی کیفیت مجہول ہے اوراس کے بارے میں بات کرنا بدعت ہے۔ ۱۲۔اگر تم کو دوباتوں میں شک اورتردد ہو تو جو بات تمہارے زیادہ موافق ہو، اسی کو اختیار کرو۔ ۱۳۔تم علم سے پہلے حلم حاصل کرو۔ ۱۴۔جو شخص اپنی باتوں میں سچائی اختیار کرے گا،اپنی عقل سے آخری عمر تک مستفید ہوتا رہے گا اوردوسرے لوگوں کی طرح بڑھاپے میں اس کو نسیان اوربکواس سے نجات رہے گی۔ ۱۵۔اللہ کا ادب قرآن میں ہے،اس کے رسول کا ادب سنت اورحدیث میں ہے اورصالحین کا ادب فقہ میں ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۷ ، ترتیب المدارک:۱/۱۸۸) ۱۶۔فتویٰ میں غایت احتیاط کے بارے میں امام مالکؒ فرماتے ہیں: "میرے لیے یہ سخت گراں اورمشکل ہے کہ مجھ سے حلال وحرام کے بارے میں پوچھا جائے،میں نے اپنے شہر مدینہ میں ایسے علماء وفقہاء کو دیکھا ہے جن کے نزدیک موت فتویٰ دینے سے بہتر تھی، اب میں اپنے زمانہ والوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ فقہ وفتویٰ کے بارے میں خواہش ظاہر کرتے ہیں،اگر ان کو یقین ہوجائے کہ کل اس کا انجام کیا ہوگا تو اس سے باز آجائیں،حضرت عمر اورحضرت علی ؓ بڑے صحابہ میں سے تھے،ان کے سامنے جب مسائل آتے تو صحابہ کو جمع کرکے ان سے مشورہ کرکے فتویٰ دیا کرتے تھے اورہمارے زمانہ والوں کے لیے فتویٰ دینا فخر کا سبب ہے،اس لیے ان کو اس کے مطابق علم دیا جاتا ہے اوروہ حقیقی علم سے محروم رہتے ہیں،ہمارے اسلاف کا یہ طریقہ نہیں تھا کہ وہ کہیں یہ حلال ہے اوریہ حرام ہے؛بلکہ وہ کہتے تھے میں اس بات کو مکروہ سمجھتا ہوں اوراس بات کو پسند کرتا ہوں؛کیونکہ حلال وحرام وہ چیزیں ہیں جن کو اللہ اوراس کے رسول ﷺ نے حلال وحرام بتایا ہے" (سیرت ائمہ اربعہ:۱۱۸،بحوالہ ابن خلکان:۲/۱۱) ۱۷۔چارآدمیوں سے علم حاصل نہیں کرنا چاہیے: ۱۔بے وقوف سے ۲۔گمراہ شخص سے جو اپنی بدعت کی طرف دعوت دیتا ہے۔ ۳۔جھوٹے شخص سے جو عام گفتگو میں جھوٹ بولتا ہو خواہ حدیث میں اس کا جھوٹ ثابت نہ ہو۔ ۴۔ایسے شخص سے جو بظاہر فاضل نیک اورعبادت گزار ہو؛ لیکن اسے یہ سمجھ نہ ہو کہ وہ کونسی حدیث لے رہا ہےاورآگے کیا بیان کررہا ہے۔ یعنی اس میں روایت کی اہلیت تو ہو مگر اس میں درایت یعنی سمجھ اورتفقہ نہ ہو۔ (ائمہ اربعہ کے دربار میں:۴۴،بحوالہ الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ الفقھاء :۷۳) ۱۸۔جو شخص سچ بولتا رہے گا اورجھوٹ سے مکمل پرہیز کرے گا اس کی عقل درست رہے گی اور بڑھاپے میں اس کی عقل خراب نہ ہوگی۔ (ائمہ اربعہ کے دربار میں:۴۶،بحوالہ الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ الفقھا ء:۷۹) ۱۹۔علم نور ہے،اللہ تعالی جسے چاہتا ہے عطا کردیتا ہے،علم اقوال بیان کرنے کا نام نہیں ہے۔ (ائمہ اربعہ کے دربار میں :۵۳، بحوالہ الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ الفقھاء:۱۲۵) ۲۰۔ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے شرمندگی ہو۔ (ائمہ اربعہ کے دربار میں:۵۶،بحوالہ الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ الفقھاء:۱۵۵) ۲۱۔نئی انوکھی باتوں کا علم برا علم ہے اوربہترین علم وہ ظاہر دین ہے جسے پوری امت نے نقل کیا ہے۔ (ائمہ اربعہ کے دربار میں ،ص:۶۱،بحوالہ ترتیب المدارک للقاضی عیاض الدین،ص:۱۹۱) ۲۲۔بے مقصد باتیں دریافت مت کرو ورنہ بامقصد باتیں بھول جاؤ گے اورجو شخص بے کار چیزیں خریدنے لگتا ہے اسے ایک دن ضروری اشیاء بیچ نی پڑتی ہیں۔ (ائمہ اربعہ کے دربار میں،ص:۷۱،بحوالہ ترتیب المدارک للقاضی عباض الدین،ص:۱۹۱) ۲۳۔ناتجربہ کاری فقر وفاقہ سے بھی زیادہ بری چیز ہے۔ ۲۴۔جب کوئی شخص خود اپنی تعریف کرے تو اس کا وقار ختم ہوجاتا ہے۔ ۲۵۔زیادہ گفتگو کی عادت یا تو عورتوں میں ہوتی ہے یا کمزور مردوں میں۔ ۲۶۔یہ علم فقر و فاقہ کےبغیر حاصل نہیں ہوتا۔ ۲۷۔ہرچیز سیکھو یہاں تک کہ جوتے پہننا بھی سیکھو۔ ۲۸۔مسجد میں آواز بلند کرنے میں کوئی خیر نہیں، میں نے جتنے اساتذہ کو پایا وہ سب اسے برا سمجھتے تھے، علم کی بات ہو یا کوئی اوربات۔ ۲۹۔جب بات حد سے نکلتی ہے بری ہوجاتی ہے۔ ۳۰۔تمہارے ظالم ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ تم ہمیشہ جھگڑا کرتے رہو۔ (ائمہ اربعہ کے دربار میں،ص:۷۳،بحوالہ ترتیب المدارک للقاضی عیاض الدین،ص:۱۹۱) (۳۱)علم بکثرت حکایت کرنے کا نام نہیں بلکہ علم وہ ہے جو عالم کو مفید ہو اور وہ اس پر عامل ہو ۔