انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت علیؓ کی ایک سیاسی فروگذاشت حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد مصری بالکل غیر جانبدار ہوگئے تھے اور امیر معاویہؓ اورحضرت علیؓ کسی کی اطاعت قبول نہ کی تھی ؛چنانچہ جنگ صفین میں انہوں نے کسی کا ساتھ نہیں دیا تھا،جنگ صفین کے بعد حضرت قیس ابن سعد انصاری نے جو یہاں کے حاکم اورحضرت علیؓ کے ہواخواہ تھے نہایت ہوشیاری اورخوبصورتی کے ساتھ اہل مصر سے حضرت علیؓ کی بیعت لے لی تھی صرف خو نبا کے باشندوں نے جو حضرت عثمان ؓ کی شہادت سے بہت متاثر تھے بیعت نہ کی تھی حضرت قیسؓ نے مصلحتِ وقت کے خیال سے ان پر جبر نہیں کیا ؛بلکہ کہلادیا کہ تم کو انکار ہے تو ہم مجبور بھی نہیں کرتے اس نرمی و ملاطفت کا یہ نتیجہ ہوا کہ خرنبا والوں نے خراج دینے میں کوئی تامل نہیں کیا۔ قیس حضرت علیؓ کے مقابلہ میں امیر معاویہؓ کے قدیم مخالف تھے ؛چنانچہ جنگ صفین کے قبل جب انہوں نے مدبرین کو ملانا چاہا تو قیس کو بھی خط لکھا تھا کہ اگر قاتلین عثمانؓ کا ساتھ چھوڑ کر میرے ساتھ آجاؤ تو عراق کی حکومت تمہارے لئے مخصوص کردی جائے گی اورحجاز کی حکومت پر تمہیں اختیار ہوگا اپنے جس عزیر کو چاہو مقرر کرنا، اس کے علاوہ تمہارے اور جو مطالبات ہوں گے وہ بھی پورے کئے جائیں گے اگرتمہیں یہ باتیں منظور ہوں تو جواب دو، قیس بہت عاقبت اندیش آدمی تھے اس لئے صاف جواب دینے کے بجائے گول جواب دیا کہ یہ معاملہ بہت اہم ہے اس لئے ابھی جواب نہیں دے سکتا، امیر معاویہؓ کو یہ خط ملا تو وہ ان کی نیت سمجھ گئے ؛چنانچہ دوبارہ خط لکھا کہ تم اس گول جواب سے مجھے دھوکا دینا چاہتے ہو، میرے جیسا شخص تمہارے فریب میں نہیں آسکتا قیس کو یہ تحریر ملی تو بہت برہم ہوئے اور کھل کر اپنے دلی جذبات لکھ بھیجے کہ تمہاری عقل پر مجھ کو حیر ت ہے کہ تم مجھ کو ایک حق گو حق پرست مستحق خلافت اورآنحضرتﷺ کے رشتہ دار کا ساتھ چھوڑ کر ایک کاذب ،گمراہ، گمراہ زادہ کی حمایت کی دعوت دیتے ہو۔ اس تحریر کے بعد جب امیر معاویہؓ کو ان سے بالکل مایوسی ہوگئی تو انہوں نے قیس کو زک دینے کے لئے اپنے حامیوں سے کہنا شروع کیا کہ قیس کو برانہ کہو وہ ہمارے ہمدرد ہیں اور ہمارے پاس برابر ان کے خطوط آتے رہتے ہیں دیکھو ہمارے ہم خیال خر بنا والوں کے ساتھ ان کا کیسا بہتر سلوک ہے ان کے روزینے اور عطیے برابر جاری ہیں، اس غلط شہرت دینے کے ساتھ ہی قیس کی جانب سے ایک فرضی خط بھی جس میں حضرت عثمانؓ کے قصاص پر پسندیدگی کا اظہار پڑھ کر سنادیا، محمد بن ابی بکر اورمحمد بن جعفر کے کانوں میں اس کی خبر پہنچی تو انہوں نے حضرت علیؓ کو اس کے اطلاع دی حضرت علیؓ کےجاسوسوں نے بھی تصدیق کردی ،اتفاق سے اسی درمیان میں حضرت علیؓ کے پاس قیس کا ایک خط آیا کہ نو بنا والے بیعت نہیں کرتے مگر میں ان پر تلوار اٹھانا مصلحت نہیں سمجھتا ،حضرت علیؓ کے طرفداروں کو قیس کی جانب سے جو شبہ تھا، وہ اس خط سے اور قوی ہوگیا ؛چنانچہ محمد بن جعفر نے حضرت علیؓ سے کہا کہ آپ فورا باغیوں (اہل خربنا) کی سرکوبی کا فرمان جاری کیجئے ان کی توجہ دلانے پر آپ نے اسی وقت قیس کے نام حکم جاری کردیا قیس نے پھر لکھا کہ آپ ایسے لوگوں کو چھیڑنے کا کیوں حکم دیتے ہیں جو کسی طرف عملی حصہ نہیں لے رہے ہیں اگر آپ کی طرف سے ذرا بھی سختی ہوئی تو یہ سب برگشتہ ہوجائیں گے، میرا مشورہ قبول کیجئے اوران کو سردست ان کی حالت پر چھوڑدیجئے، لیکن حضرت علیؓ نے ان کا مشورہ ناقابل قبول سمجھا، اورمحمد بن جعفر کے اصرار سے محمد بن ابی بکر کو مصر کا حاکم مقرر کرکے بھیج دیا۔ (دیکھو ابن اثیر :۳/۲۲۱،حالات ولایت قیس بن سعد)