انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت یعقوب بن اسحاق حضرمیؒ نام ونسب یعقوب نام، ابو محمد اورابو یوسف کنیتیں تھیں ،پورا نسب نامہ یہ ہے یعقوب بن اسحاق بن زید بن عبداللہ بن ابی اسحاق (معجم الادباء:۷/۳۰۲ وبغیۃ الوعاۃ :۴۱۸) حضرمیوں سے نسبت ولاء رکھنے کے باعث حضرمی اوروطناً بصری کہلاتے ہیں۔ مولد ۱۱۷ھ میں علم وفن کے عالمی مرکز بصرہ میں پیدا ہوئے۔ فضل وکمال علم وفضل کے اعتبار سے امام یعقوبؒ اتباع تابعین کی جماعت میں نہایت بلند مقام رکھتے ہیں،قرآن حدیث،فقہ اورنحو میں ان کو کامل دسترس حاصل تھی،خصوصاً فن قرأت میں اپنی مہارت وکمال کے باعث قراء عشرہ میں شمار ہوتے ہیں،بصرہ میں امام القراء ابو عمرو بن العلاء کے بعد باتفاق امت شیخ الفن تسلیم کیے گئے،ابن عماد الحنبلی "احدالاعلام" لکھتے ہیں (شذرات الذہب:۲/۱۴)علامہ یاقوت رومی رقمطراز ہیں: الامام فی القرات والعربیۃ ولغۃ العرب والفقہ (معجم الادباء:۷/۳۰۲) وہ قرأت ،عربیت لغت اور فقہ میں امام تھے۔ حافظ جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں: کان اعلم الناس فی زمانہ بالقرات والعربیۃ وکلام العرب والروایۃ والفقہ (بغیۃ الوعاۃ :۴۱۸) کلام عرب،حدیث اورفقہ کے سب سے بڑے عالم تھے۔ ابو حاتم سجستانی جنہیں امام یعقوب الحضرمی سے تلمذ کا شرف حاصل ہے،بیان کرتے ہیں کہ: کان اعلم من ادرکنا ورأینا بالحروف والاختلاف فی القرآن الکریم وتعلیلہ ومذاھبہ وامذاھب النحوبین فی القرآن الکریم (مرأۃ الجنان:۲/۳۰) جن شیوخ کو ہم نے دیکھا اوران کی صحبت اٹھائی ان میں امام یعقوب اختلاف قرآن اس کی تعلیل اورمذاہب اور قرآن میں نحویوں کے مسالک کے سب سے بڑے عالم تھے۔ قرأت ان کی کلاہِ افتخار کا اصل طرۂ امتیاز فن قرأت میں غیر معمولی مہارت تھی، صحابہ کرامؓ کے بعد تابعین اور تبع تابعین عظامؒ کے طبقہ میں صاحب اختیار ائمہ قرأت کی تعداد بکثرت ہے،بقول امام ابو محمد مکی قراء سبعہ نے جن ائمہ قرأت سے روایت کی،صرف ان ہی کی تعداد ستر ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اختیار قرأت کا جو سلسلہ صدیوں کے عرصہ پر محیط رہا ہو،اس میں کس قدر بے شمار ماہرین فن پیدا ہوئے ہوں گے۔ لیکن ان تمام روایات میں صرف دس قرأتیں متواتر قرار پائیں،اوران میں بھی حسنِ قبول اورشہرتِ عام کی سند سات قرأتوں کے نصیب میں آئی، وہی آج قرأتِ سبعہ کے نام سے مشہور ہیں،دوسری صدی کے اوائل میں فنِ قرأت کے جو مراکز مرجوعہ خلائق رہے، ان میں مدینہ،مکہ ،بصرہ اوردمشق کے نام ممتاز ہیں،قراء سبعہ میں امام ابو عمرو بن العلاء(المتوفی۱۵۴ھ) سرزمین بصرہ ہی کے لعل شب چراغ تھے اوراسی مردم خیز زمین سے امام یعقوب بن اسحاق بھی پیدا ہوئے جن کی روایت کو اپنی اہمیت وعظمت کی وجہ سے قرأت عشرہ میں آٹھواں مقام حاصل ہوا اورحقیقت یہ ہے کہ امام یعقوب کہ شہرت ومقبولیت کی اساس یہی فن بنا یہاں تک کہ قاری اہل البصرہ اورالمقری ان کے نام کے لازمی جز وبن گئے۔ انہوں نے قرأت کی تحصیل سلام بن سلیمان الطویل،مہدی بن میمون، اورابوالاشہب الوطاروی سے کی اور قراء سبعہ میں امام ششم حمزہ بن حبیب الزیات اورامام ہفتم ابوالحسن علی الکسائی سے نکاتِ فن کی روایت اورسماع کا شرف حاصل کیا اورپھر جب وہ خود بکمال ہوکر مسند قرأت پر جلوہ افروز ہوئے تو حرمین ،عراق اورشام کے اکابر علمائے فن نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا؛چنانچہ ان سے قرأت کی روایت کرنے والوں میں روح بن عبدالمومن ،محمد بن المتوکل اورابو حاتم سجستانی کے نام نمایاں ہیں۔ (مرأۃ الجنان:۲/۳۰) ابن عماد نے لکھا ہے کہ بصرہ کے تقریبا تمام ائمہ قرأت امام ابو عمرو بن العلاء کے بعد ان ہی کی روایت کے منبع ہیں (شذرات الذہب:۲/۱۴)تمام تذکرہ نویسوں نے بالاتفاق ان کے صحیفہ کمال کے اس باب کو نہایت واضح طور پر ذکر کیا ہے؛چنانچہ علامہ یافعی رقمطراز ہیں: انہ کان امام البصرۃ فی عصرہ فی القراءۃ (مرأۃ الجنان:۲/۳۱) وہ اپنے عہد میں اہل بصرہ کے فنِ قرأت میں امام تھے۔ حافظ سیوطیؒ لکھتے ہیں: ولہ روایۃ مشھورۃ بہ وھی احدی القرأت العشر (بغیۃ الوعاۃ:۴۱۸) قرأت میں ان کی ایک مشہور روایت ہے اوروہی دس قرأتوں میں سے ایک ہے ۔ علامہ یاقوت رُومی فرماتے ہیں: ثامن قراء العشرۃ الامام فی القرأتِ (معجم الادباء:۲/۳۰۲) قراء عشرہ میں آٹھویں نمبر پر وہ فن قرأت کے امام تھے۔ ابو حاتم سجستانی کا بیان ہے کہ جن علماء سے ہمیں شرفِ لقاء حاصل ہوا ان میں امام یعقوب الحضرمی قرآن کے رموز ونکات اوراس کے حروف کے اختلافات کے سب سے بڑے عالم تھے۔ (شذرات الذہب:۲/۱۴) کسی شاعر نے اپنے اشعار میں امام یعقوب کو زمرۂ قراء میں مہر جہاں تاب کے الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے جن کا ترجمہ یہ ہے: (ترجمہ )ان کے والد اورجدامجد ممتاز قراء میں تھے، اوریعقوب تو قراء کے درمیان مہرتاباں کی حیثیت رکھتے ہیں وہ اپنے فن میں منفرد ویکتا تھے ان کی نظیر نہ صرف ان کے عہد ؛بلکہ تا قیامت نہ مل سکے گی۔ (البغیۃ الوعاۃ:۴۱۸) علامہ یافعیؒ نے قرأت میں رسول اکرم ﷺ تک امام یعقوب الحضرمی کی سند نقل کی ہے جو اس طرح ہے یعقوب عن سلام عن عاصم عن ابوعبدالرحمن السلمی عن علی عن رسول اللہ ﷺ (میزان الاعتدال:۲/۳۰) اس سے ان کے عالی سند ہونے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ حدیث قرأت میں باکمال ہونے کے ساتھ وہ حدیث میں بھی بہرہ وافررکھتے تھے، اس میں انہیں حضرت انس بن مالکؓ،امام شعبہ ،سالم بن عبداللہ بن عمر، سلیمان بن یسار اورحماد بن سلمہ جیسے یگانہ عصر ائمہ سے تلمذ حاصل تھا،ان کے علاوہ جن لائقِ ذکر شیوخ سے انہوں نے روایت حدیث کی ،ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: زید بن عبداللہ (جوان کے جد امجد تھے) اسود بن شیبان،سہیل بن مہران سلیمان ابن معاذ الضبی ،زائدہ بن قدامہ،سلیم بن حیان،عبدالرحمن بن میمون ،عقبہ بن عبدالغافر،ابو عقیل الدورقی۔ تلامذۃ ان کے دامن فیض سے فیض حاصل کرنے والوں میں سفیان ثوریؒ وہیبؒ،یزید بن زریعؒ، عمر بن علی فلاس، اسماعیل بن علیہ،بشر بن الفضل،ہشیم بن بشیر،عبدالاعلیٰ بن مسہر،عقبہ بن مکرم العمی، حسین بن علی الصدائی،محمد بن سیرین اوریحییٰ بن ابی کثیر وغیرہ جلیل القدر علماء شامل ہیں۔ (معجم الادباء:۷/۳۰۲) جامعیت ان کی ذات مختلف علمی وعملی کمالات کا مجموعہ تھی،قرأت وحدیث میں ان کی مہارت کا ذکر گذرچکا ہے،علاوہ ازیں وہ نحو عربیت فقہ اورلغت میں امامت کا درجہ رکھتے تھے،علامہ یاقوت نے لکھا ہے کہ وہ اپنے زمانہ میں نحو کے مختلف مکاتب اوران کے اختلافات کے سب سے بڑے عالم تھے۔ (معجم الادباء:۷/۳۰۲) عبادت میں انہماک اس علمی تفوق کے ساتھ وہ عمل کا بھی پیکر مجسم تھے،کثرتِ عبادت،زہد وورع اورانابت الی اللہ ان کے خاص اوصاف تھے،نماز میں ان کے انہماک ،خشوع وخضوع کا یہ عالم تھا کہ بارگاہِ ایزدی میں کھڑے ہونے کے بعد پھر انہیں کچھ ہوش نہ رہتا تھا،حافظ سیوطی رقمطراز ہیں: سُوق رداءہ وھو فی الصلوٰۃ ورد الیہ ولم یشعر لشغلہ فی الصلوٰۃ (بغیہ الوعاۃ:۴۱۸) حالت نماز میں ان کی چادر چوری ہوگئی اورپھر واپس بھی آگئی لیکن نماز میں مشغولیت کے باعث ان کو احساس تک نہ ہوا۔ نقد وجرح امام یعقوبؒ کی عدالت اورثقاہت کے بارے میں علمائے فن کی مختلف رائیں پائی جاتی ہیں،لیکن اکثر جلیل القدر ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ وہ ثقہ اورصدوق تھے؛چنانچہ ابن معینؒ،امام نسائی اورابو حاتم مطلقاً ان کی مرویات کو حجت اور سند مانتے ہیں،ابن حبان نے بھی اپنی تصنیف میں ان کا ذکر کیا ہے (تہذیب التہذیب:۱۱/۳۸۲)صرف علامہ ابن سعد نے لکھا ہے کہ: لیس ھو عندھم بذک التثبت یذکرون انہ حدث عن رجال لقیھم وھو صغیر (طبقات ابن سعد:۷/۵۵) وہ تثبت میں بلند پایہ نہیں تھے علماء کا خیال ہے کہ انہوں نے ان شیوخ سے روایتیں کی ہیں جن سے وہ صغر سنی میں ملے تھے۔ صاحب طبقات کے اس بیان کا ضعف اس طرح واضح ہے کہ انہوں نے "یذکرون" کے قائلین کومجہول ونامعلوم کردیا ہے۔ تصنیف وہ صاحبِ تصنیف بھی تھے، علامہ یاقوت اورخیر الدین زر کلی نے ان کی دو کتابوں کا ذکر کیا ہے،کتاب الجامع،وقف التمام،اول الذکر میں مصنف نے وجوہِ قرأت کے اختلافات کو جمع کیا ہے۔ (معجم الادباء:۷/۳۰۲) وفات