انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** کیامنشاءِ شریعت پانے کے لیے ظاہر حدیث کے خلاف عمل کرنا جرم ہے؟ یہ بات اہل علم سے مخفی نہیں کہ مخالفت حدیث اور انکارِ حدیث دونوں ہم معنی الفاظ ہیں اور ایک دوسرے کے مرادف ہیں، اس لیے کوئی مسلمان اس بات کی جرأت نہیں کرسکتا کہ وہ حدیث کی مخالفت کرے اور منکر حدیث کی صف میں چلا جائے؛ البتہ اگروہ الفاظِ حدیث کے ظاہر کی مخالفت کربیٹھے تواس کا یہ عمل حدیث کی مخالفت میں داخل نہ ہوگا؛ کیونکہ اس کا مقصد توصرف یہ ہوتا ہے کہ حدیث کے اندر جومعنی ومدلول پنہاں ہیں اور اس سے جومعنی مستنبط ہوتا ہے اس کی اطاعت کرکے منشاءِ شریعت کوپالے، اس لیے اس پر مخالفتِ حدیث کاالزام نہیں لگایا جاسکتا ہے، مثلاً: آنحضرتﷺ نے کسی چیز سے منع فرمایا ہوتوہرمقام پر اس منع اور نہی سے حرمت اور کراہتِ تحریمی مراد لینا حقیقت سے چشم پوشی کرنا ہوگا؛ بلکہ حسب موقع کبھی اس سے ترک اولیٰ اور کراہت تنزیہی بھی مراد لی جاسکتی ہے؛ اسی طرح اگرآپﷺ نے کوئی حکم فرمایا توہرمقام پر اس امرکووجوب کے لیے لینا درست نہ ہوگا، کبھی اسے محض ارشاد اور مشورہ پر بھی محمول کیا جاتا ہے، جس کا نہ ماننے والا شرعاً عاصی اور نافرمان نہیں کہلائے گا۔ قرن اوّل میں بہت سارے واقعات ہیں جن سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ منشاءِ شریعت پر عمل کرنے کی خاطر ظاہر حدیث پر عمل نہیں کیا گیا، آپﷺ کواس کا علم بھی ہوا؛ لیکن آپﷺ نے نکیر نہیں فرمائی، اس تعلق سے ذیل میں چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں، جن سے یہ معلوم ہوگا کہ ظاہر حدیث کے خلاف اگرمنشاءِ شریعت کوپانے کے لیے عمل کیا گیا تووہ جرم نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک ایسا قابل قدر جذبہ ہے جس پر وہ شخص دوہرے اجر کا مستحق ہوگا۔ (الف)غزوہ احزاب کے دوران جب کہ یہود، بنی قریظہ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف انتہائی ریشہ دوانی کربیٹھے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی غیبی مدد کے ذریعہ احزاب کوشکست سے دوچار کیا اور وہ سب نامراد اپنے اپنے گھروں کوواپس ہوگئے توان یہودیوں کی سرزنش کرنا بہت ضروری تھا،اس لیے آپﷺ نے بنوقریظہ کے قلعہ کا محاصرہ کرنےکا حکم دیتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا: "لَايُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّافِي بَنِي قُرَيْظَةَ"۱؎۔ ہرشخص بنوقریظہ ہی میں عصر کی نماز پڑھے۔ صحابہ فوراً چلے؛ لیکن راستہ میں ہی عصر کی نماز کا وقت آگیا، صحابہؓ کی دوجماعتیں ہوگئیں، ایک جماعت نے ظاہر الفاظ حدیث کے مطابق یہ کہا کہ آپ کا حکم عصر کی نماز بنوقریظہ میں پڑھنے کا ہے؛ اس لیے ہم وہیں عصر کی نماز پڑھیں گے، اس سے پہلے نہیں پڑھ سکتے؛ جب کہ دوسری جماعت کا کہنا تھا کہ آپ کا مقصد اس حکم سے یہ تھا کہ بنوقریظہ بلا کسی تاخیر کے پہنچا جائے، اس میں ذاتی مشغولیت کی بناء پردیرنہ کی جائے، اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اگرعصر کی نماز کا وقت وہاں پہونچنے سے پہلے آجائے توبھی عصر کی نماز نہ پڑھی جائے؛ اس لیے ہم لوگ تویہیں عصر کی نماز پڑھیں گے؛ چنانچہ ان لوگوں نے بنوقریظہ پہونچنے سے پہلے ہی عصر کی نماز پڑھی، آپﷺ کوجب اس واقعہ کا علم ہوا توآپؐ ﷺ نے بخاری کی روایت کے مطابق کسی پر ملامت نہیں کی۲؎، اس واقعہ کوبیان کرنے کے بعد حافظ ابن قیمؒ لکھتے ہیں: "دوسراگروہ فقیہ تھا اور وہ دوہرے اجرکا مستحق ہوا، پہلا گروہ معذور؛ بلکہ ماجور تھا اور ایک اجر کا مستحق ہوا۳؎۔ تعجب ہے کہ جناب رسول اللہﷺ کی نہی جونون تاکید ثقیلہ کے ساتھ ہے اور لفظ احد جونکرہ ہے اور نہی کے تحت داخل ہونے کی وجہ سے استغراق کا فائدہ دیتا ہے، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم سے کوئی فرد مستثنیٰ نہیں ہے؛ مگربایں ہمہ حضرات صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت حدیث کے ظاہر الفاظ کے خلاف عمل کرتی ہے اور وہ پھربھی قابل ملامت نہیں ٹھہرتی؛ بلکہ ماجور قرار دی جاتی ہے اور اجر بھی دوہرا؛ حالانکہ ان کی مراد کی بوتک حدیث کے ظاہر الفاظ میں محسوس نہیں ہوپاتی، اس کا تقاضہ تویہ تھا کہ ان حضرات کومخالف حدیث گردانا جاتا اور آپ کی صریح نہی کا (جوان کے حق میں قطعی تھی؛ کیونکہ ان کویہ حکم بالمشافہ ملا تھا) مخالف قرار دے کر قابل ملامت سمجھا جاتا؛ مگرایسا نہیں ہوا، اس کی وجہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ اپنی شرح بخاری میں لکھتے ہیں: "قال السھیلی وغیرہ فی ھذا الحدیث من الفقہ انہ لایعاب علی من اخذ بظاھر حدیث اوآیۃ وعلی من استنبط من النص معنی یخصصہ"۴؎۔ علامہ سہیلیؒ وغیرہ کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جوکسی حدیث یاآیت کے ظاہر پر عمل کرے، اس پر نکتہ چینی نہیں کی جاسکتی اور نہ الزام ہی لگایا جاسکتا ہے؛ اسی طرح جونص کے مخصوص مفہوم پر عمل کرے (اگرچہ وہ ظاہر الفاظ حدیث کے خلاف ہو)۔ (۱۔۲)بخاری، كِتَاب الْجُمُعَةِ،بَاب صَلَاةِ الطَّالِبِ وَالْمَطْلُوبِ رَاكِبًا وَإِيمَاءً،شاملہ، موقع الإسلام۔ (۳)زادالمعاد:۲/۱۳۱۔ (۴)فتح الباری:۷/۵۲۰۔ (ب)آنحضرتﷺ کی لونڈی حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا کومنافقین کے ایک گروہ نے ان کے چچازاد بھائی حضرت مابورؓ سے متھم کردیا اور یہ خبر اس انداز سے پھیلی کہ خود آنحضرتﷺ کوبھی اس خبرکا یقین ہوگیا اور کچھ قرائن وشواہد بھی ایسے تھے، جن کی وجہ سے آپ کا یہ یقین بے جا نہ تھا، آپ نے غیرت میں آکرحضرت علیؓ سے فرمایا کہ مابورؓ کوجہاں ملے، جاکر قتل کردو، حضرت علیؓ گئے تودیکھا کہ وہ ایک کنوئیں میں پاؤں لٹکائے ہوئے بیٹھے ہیں، حضرت علیؓ نے جب ان کووہاں سے کھینچا تواس کی وجہ سے ان کا تہ بند کھل گیا، حضرت علیؓ کی نگاہ جب ان کی شرمگاہ پرپڑی تودیکھا کہ وہ مجبوب ونامرد ہیں؛ انھیں سرے سے آلۂ تناسل ہی نہ تھا۵؎،یہ دیکھ کر حضرت علیؓ نے یہ محسوس کیا کہ اس شخص میں قتل کرنے کی وہ علت ہی نہیں پائی جاتی جس کی بناء پر مجھے دربارِ رسالت سے حکم ملا تھا توانھوں نے آنحضرتﷺ کے اس ظاہری حکم کی تعمیل نہ کی اور واپس جاکرآپ سے یہ ماجرا بیان کیا، آپ نے ارشاد فرمایا: "الشَّاهِدُ يَرَى مَالاَيَرَى الْغَائِبُ"۶؎۔ حاضر وہ کچھ دیکھ سکتا ہے جوغائب نہیں دیکھ سکتا۔ آپ جانتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کا صریح اور بالمشافہ حکم اور وہ بھی تعزیر وحد کی مدکا، جس میں بحکم خداوندی کسی نرمی اور رافت کی کوئی گنجائش ہی نہیں، کیا درجہ رکھتی ہے؟ مگرحضرت علیؓ اس حکم کی تعمیل کرنے سے اپنے آپ کوقاصر پاتے ہیں اور دربارِ نبوت سے بجائے ملامت وسرزنش کے وہ اس ترک حکم پر دادِتحسین حاصل کرتے ہیں، اب کیا کہا جائے کہ حضرت علیؓ آپ کے اس حکم اور حدیث کی مخالفت کی وجہ سے منکر اور مخالف حدیث ہیں؟ حاشا وکلا! کوئی مسلمان اس کاتصور بھی نہیں کرسکتا۔ (۵)مسلم، كِتَاب التَّوْبَةِ،بَاب بَرَاءَةِ حَرَمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الرِّيبَةِ،حدیث نمبر:۴۹۷۵، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۶)جامع الاصول:۴/۲۷۶۔ (ج)حضرت علیؓ ہی کی ایک روایت میں ہے، وہ فرماتے ہیں: اے لوگو! اپنے غلاموں پر حد قائم کرو جوان میں سے محصن ہیں؛ کیونکہ آپﷺ کی ایک نوکرانی نے زنا کیا، مجھے آپﷺ نے فرمایا کہ جاکر اس کوکوڑے لگادو، میں گیا تودیکھا کہ اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے، مجھے یہ خوف ہوا کہ اگر میں نے اس کوسزادی توکہیں وہ مرہی نہ جائے، میں بغیر سزادیئے واپس آپ کی خدمت میں پہنچا اور سارا قصہ سنادیا توآپﷺ نے فرمایا تونے اچھا کیا ہے۔ (مسلم، كِتَاب الْحُدُودِ،بَاب تَأْخِيرِ الْحَدِّ عَنْ النُّفَسَاءِ،حدیث نمبر:۳۲۱۷، شاملہ، موقع الإسلام) غور فرمائیے کہ آپ کا ظاہری حکم مقید اور مشروط نہ تھا؛ لیکن حضرت علیؓ نے جوفقہاء صحابہؓ میں شمار ہوتے ہیں، اپنے تفقہ اور اجتہاد سے سمجھا کہ آپ کا حکم درحقیقت مشروط ومقید ہے، بایں شرط کہ وہ لونڈی ہلاک نہ ہوجائے اور زچگی کی حالت میں سزا دینا ہوسکتا ہے کہ اس کی موت پرمنج ہو؛ اس لیے انھوں نے کوئی سزا نہ دی اور واپس چلے آئے، آپ نے یہ سن کر بجائے اس کے کہ ان کوعصیان اور روگردانی کے داغ سے داغدار کرتے، الٹا ان کی تائید اور تصویب اور تحسین فرمائی؛ لیکن اس کے برعکس اگراس حالت میں حضرت علیؓ اس کوکوڑے لگادیتے توآپ کے ظاہری حکم کی تعمیل کی وجہ سے بہت ممکن ہے کہ وہ معتوب ٹھہرتے۔ (د)حضرت براء بن عازبؓ (المتوفی: سنہ۷۱ھ) نے ایک طویل حدیث میں صلح حدیبیہ کے پورے حالات کا نقشہ کھینچا ہے، اس میں یہ مضمون بھی ہے کہ جب آنحضرتﷺ اور قریشِ مکہ کے درمیان معاہدہ طے ہوا توآپ نے عہد نامہ پر اپنے کاتب حضرت علیؓ سے یہ الفاظ بھی لکھوائے: "ھَذَا مَاقَضٰی عَلَیْہِ مُحَمَّدْ رَسُوْلُ اللہ، الخ"۔ یہ وہ عہد نامہ جوآنحضرتﷺ نے فریق ثانی سے طے کیا ہے۔ مشرکین کے نمائندہ (سہیل بن عمروؓ جوبعد میں کومسلمان ہوگئے تھے) نے اس پر صدائے احتجاج بلند کی اورکہنے لگا کہ اگرہم آپ کواللہ تعالیٰ کارسول تسلیم کرلیں توپھر ہمارا آپ سے اختلاف ہی نہ ہو؟ اس لیے رسول اللہ کے الفاظ آپ صلح نامہ سے نکال دیجئے اور محمد بن عبداللہ کے الفاظ لکھوائیے، آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں رسول اللہ بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں؛ مگرمشرکین نہ مانے توحالات کی انتہائی نزاکت کے پیش نظر آپ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: "امْحُ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ لَاوَاللَّهِ لَاأَمْحُوكَ أَبَدًا"۔ (بخاری، كِتَاب الصُّلْحِ،بَاب كَيْفَ يُكْتَبُ هَذَا مَاصَالَحَ فُلَانُ بْن فُلَانٍ وَفُلَانُ بْن فُلَانٍ وَإِنْ،حدیث نمبر:۲۵۰۱، شاملہ، موقع الإسلام) رسول اللہ کے الفاظ مٹادو، حضرت علیؓ نے فرمایا: خدا کی قسم میں توکبھی نہ مٹاؤں گا۔ اور ایک روایت میں یوں آتا ہے: "فَأَمَرَ عَلِيًّا أَنْ يَمْحَاهَا فَقَالَ عَلِيٌّ لَاوَاللَّهِ لَاأَمْحَاهَا"۔ (مسلم،كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ،بَاب صُلْحِ الْحُدَيْبِيَةِ فِي الْحُدَيْبِيَةِ،حدیث نمبر:۳۳۳۶، شاملہ، موقع الإسلام) آپ نے حضرت علیؓ کوحکم دیا کہ یہ الفاظ مٹادیں؛ مگرحضرت علیؓ نے فرمایا کہ بخدا میں ان کونہیں مٹاؤں گا۔ بڑا ہی عجیب معاملہ ہے کہ جناب رسول اللہﷺ توحضرت علیؓ کونام لے کر امر اور حکم دے رہے ہیں کہ اے علی! یہ لفظ مٹادو؛ مگرحضرت علیؓ ہیں کہ آپ کے اس صریح حکم کی تعمیل کرنے کے بجائے حلفیہ طور پر یہ فرماتے ہیں کہ بخدا میں توکبھی نہ مٹاؤں گا، انصاف سے فرمائیے کہ حضرت علیؓ پر کیا فتویٰ لگانا چاہئے؟ فتویٰ نہ لگانے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ جناب رسول اللہﷺ کا حکم اور نام لے کر ہو؛ لیکن اس کے جواب میں حضرت علیؓ خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر عدم تعمیل پر مصر اور کمربستہ ہیں توپھر وہ فتویٰ بازی سے کیونکر بچ سکتے ہیں؟ اور کب بچ سکتے ہیں؟ (معاذ اللہ) ظاہر بیں جانیں اور ان کی فتویٰ بازی، ہاں البتہ دیدۂ بصیرت رکھنے والے اور بات کی تہ اور حقیقت کوسمجھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ قریش مکہ کے نمائندوں کی موجودگی میں حضرت علیؓ کے اس ظاہری انکار میں بھی ادب وعشق محمدیﷺ سمندر کی اندرونی موجوں کی طرح ابل رہا تھا اور زبانِ حال سے یہ کہہ رہا ہے کہ جس رسول کی محبت اور فدائیت نے دنیا کے تمام لذائذ ومسرتوں سے بے نیاز کردیا ہے، اس کے نقشِ پا کودل کے آئینہ سے مٹانا توالگ رہا، بخدا ان کے اس پارے نام کوسطح کاغذ سے مٹانے پر بھی دل آمادہ نہیں، حضرت امام نووی الشافعیؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: "وهذا الذي فعله علي رضي الله عنه من باب الأدب المستحب لأنه لم يفهم من النبي صلى الله عليه وسلم تحتيم محو علي بنفسه ولهذا لم ينكر ولوحتم محوه بنفسه لم يجز لعلي تركه ولما أقره النبي صلى الله عليه و سلم على المخالفة"۔ (نووی شرح مسلم:۲/۱۰۴) یہ انداز جوحضرت علیؓ نے اختیار کیا وہ حسن ادب کے باب سے ہے؛ کیونکہ وہ آپ کے قول سے ہی سمجھتے تھے کہ اس نوشت کا مٹانا خود علیؓ پر لازم نہیں اور اسی لیے آپﷺ نے حضرت علیؓ پر کوئی گرفت نہیں کی؛ اگر ان کے لیے بدست خود مٹانا ضروری ہوتا تونہ حضرت علیؓ کے لیے اس حکم کا ترک جائز ہوتا اور نہ آپ ان کواس مخالفت پر برقرار رہنے دیتے۔ آنحضرتﷺ کے ظاہری الفاظ بھی ملاحظہ کیجئے اور ان کی تہ میں ادب مستحب کا جومعنی خفیہ وپنہاں ہے، جس کوحضرت علیؓ کی دوررس اور فقیہانہ نگاہ نے تاڑلیا تھا، وہ بھی پیش نظر رکھئے اور فیصلہ کیجئے کہ حدیث کے الفاظ میں اس کا کہیں نام ونشان بھی ہے، آج تک امت مرحومہ میں سے کسی کویہ بات نہ سوجھی کہ وہ حضرت علیؓ کومنکر یامخالف حدیث بتاکر کوستا ہو اور منظم طور پرمخالف حدیث ہونے کا مکروہ پروپگنڈہ ان کے خلاف شروع کرتا ہو۔ (ھ)آنحضرتﷺ نے خصال فطرت بیان کرتے ہوئے فرمایا: "وَنَتْفُ الْإِبْطِ"۔ زیرِبغل بال اکھاڑنا بھی امورِ فطرت میں سے ہے۔ (بخاری،كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ،بَاب الْخِتَانِ بَعْدَ الْكِبَرِ وَنَتْفِ الْإِبْطِ،حدیث نمبر:۵۸۲۳، شاملہ، موقع الإسلام۔ مسلم، حدیث نمبر، حدیث نمبر:۳۷۷) لغت میں "نتف" کے معنی نوچ کر بال کوصاف کرنے کے آتے ہیں، کسی صحیح ومرفوع روایت میں "حلق الابط" یعنی (استرے سے زیرِبغل بالوں کا منڈانا) نہیں آتا؛ مگرجمہور "نتف" پر عمل نہیں کرتے؛ بلکہ خود غیرمقلدین حضرات بھی جوعمل بالحدیث کے بزعم خویش مدعی ہیں "نتف" پرعمل نہیں کرتے توکیا اب سب کواس حدیث کا تارک اور مخالف قرار دے کر ان پر برسنا شروع کردیا جائے گا، امام نوویؒ اور قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ "نتف الابط" کی شرح میں لکھتے ہیں: "زیربغل بالوں کا اکھاڑنا بالاتفاق سنت ہے اور جسے قدرت ہو، اسے ان بالوں کا اکھاڑنا ہی بہتر ہے اور منڈوانے اور چونہ سے زائل کرنے سے بھی یہ مقصود حاصل ہوجاتا ہے"۔ حضرت یونس بن عبدالاعلیٰ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: میں امام شافعیؒ کے پاس گیا توحجام ان کے بغلوں کے بال استرے سے صاف کررہا تھا، حضرت امام شافعیؒ نے ازخود ہی یہ فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ سنت ان بالوں کا اکھاڑنا ہی ہے؛ مگرمیں تکلیف کوبرداشت نہیں کرسکتا۔ (نووی شرح مسلم:۱/۱۲۹) جب کہ جناب رسول اللہﷺ سے اس حدیث میں بصراحت کوئی ایسی قید ثابت نہیں کہ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جواکھاڑنے پر قوی ہے مگرشراح حدیث "لمن قوی علیہ" کی قید سے اس کو مقید کرتے ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ استرے اور چونہ سے بھی مقصود حاصل ہوجاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حضرت امام شافعیؒ "نتف ابط" کوسنت کہنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کرسکے اور معذرت کرگئے، اب کیا جمہور امت کو "نتف ابط" کی حدیث کے ظاہر الفاظ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے منکر یاتارک حدیث کہہ دیں گے؟اصل بات یہ ہے کہ جوحضرات روح شریعت سے واقف ہیں اور صرف پوست پر ہی اکتفا نہیں کرتے وہ ازروئے تفقہ یہ سمجھتے ہیں کہ مقصود بالذات توبالوں کا دور کرنا ہے؛ خواہ وہ کسی بھی صورت سے حاصل ہوجائے؛ لہٰذا یہ مقام طعن وتشنیع کا نہیں ہے۔ (و)حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم کتنے عرصے میں قرآن کریم ختم کرتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہررات میں ایک قرآن مکمل کرلیتا ہوں، آپ نے ارشاد فرمایا: "وَاقْرَأْ فِي كُلِّ سَبْعِ لَيَالٍ مَرَّةً"۔ ہفتہ میں صرف ایک مرتبہ قرآن ختم کرو۔ (بخاری، كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ،بَاب فِي كَمْ يُقْرَأُ الْقُرْآنُ،حدیث نمبر:۴۶۶۴، شاملہ، موقع الإسلام) اور ایک روایت میں اس طرح آتا ہے: "فَاقْرَأْهُ فِي سَبْعٍ وَلَاتَزِدْ عَلَى ذَلِكَ"۔ (بخاری، كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ،بَاب فِي كَمْ يُقْرَأُ الْقُرْآنُ،حدیث نمبر:۴۶۶۶، شاملہ، موقع الإسلام) ہفتہ میں صرف ایک بار پڑھو اور اس سے زیادہ مت کرو۔ حضرت امام بخاریؒ اختلاف روایات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: "قَالَ بَعْضُھُمْ فِیْ ثَلَاثِ وَفِیْ خَمْسٍ وَاکْثَرَھُنَّ عَلَی سَبْعٍ"۔ (طبقات الکبری لابن سعد:۳/۷۵) بعض نے تین راتوں میں اور بعض نے پانچ میں اور اکثر نے سات راتوں میں صرف ایک بار قرآن پاک مکمل کرنے کوکہا۔ گویا روایت کی رو سے بقول حضرت امام بخاریؒ اکثر روایات سات راتوں میں قرآن کریم ختم کرنے کا ہے اور بظاہر انھوں نے اسی کوترجیح دی ہے؛ لیکن اگرتین ہی راتوں میں قرآن کریم کے مکمل کرنے کی روایت کولے لیا جائے، تب بھی روایت وحدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تین سے کم راتوں میں قرآن کریم کا مکمل کرنا حضرت امام بخاریؒ کے یہاں درست نہیں ہے؛ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ امتِ مرحومہ میں بہت سے ایسے حضرات بھی ہوئے ہیں جوایک ہی رات میں قرآنِ کریم مکمل کرلیتے تھے، حضرات صحابہ کرامؓ میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ (تذکرۃ الحفاظ:۲/۴۴۵) اور حضرت عبداللہ بن الزبیرؓ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں اور ائمہ دین میں حضرت امام شافعیؒ صرف رمضا ن المبارک میں ساٹھ مرتبہ قرآن کریم مکمل کرلیتے تھے (مفتاح الجنۃ:۲۹) اور ایک مرتبہ انھوں نے ایک مسئلہ کی تلاش میں روزانہ تین مرتبہ اور تین دنوں میں نودفعہ قرآن کریم مکمل کرلیا تھا (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۰۷) اور حضرت وکیع بن الجراحؒ ایک رات میں ایک قرآن کریم مکمل کرلیا کرتے تھے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۹۹) امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن سعید القطان چوبیس گھنٹوں میں ایک مرتبہ قرآن کریم مکمل کرلیا کرتے تھے۔ (حاشیہ بخاری:۲/۷۵۶) ایک دو نہیں ، سینکڑوں مثالیں باحوالہ تاریخی طور پر اس کی پیش کی جاسکتی ہیں؛ مگرہمارا مقصد دلائل وحوالہ جات کا استیعاب نہیں؛ بلکہ محض واقعات کا بیان کرنا ہے؛ اگرحدیث مذکور کے ظاہری الفاظ کودیکھا جائے توبعض اہلِ ظاہر کی طرح یہ نظریہ قائم کرنا پڑے گا کہ مذکورہ دنوں سے کم میں قرآنِ پاک کوختم کرنا مکروہِ تحریمی ہے (مقام ابی حنیفہ:۲۴۳) اور ان اکابر کومعاذ اللہ مکروہِ تحریمی کا مرتکب کہنا پڑے گا؛ اگرحدیث کے ظاہر الفاظ کی مخالفت ہی سچ مچ مخالفت حدیث ہوتی اور اس کی تہ میں کسی پنہاں معنی اور مضمرحقیقت کوتلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تویقین جانئے کہ ان اکابر کومخالف حدیث کا لقب دیا جاتا اور کوئی معقول وجہ نطر نہیں آتی، جس سے ان کی رستگاری ہوسکے مگرمعاذ اللہ کہ کسی اہلِ علم کاضمیر اور دل اس کوگوارا کرتا ہو کہ یہ اکابر مخالف حدیث تھے؛ بلکہ اس حدیث کے دیگربیان کردہ مطالب کے علاوہ ایک آسان مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کا یہ ارشاد امت پرشفقت اور ترحم کے طور پر تھا؛ تاکہ غوروفکر سے قرآن کریم پڑھا جاسکے اور اس کے معنی کوسمجھا جاسکے؛ کیونکہ ہرآدمی توامام شافعی جیسا نہیں ہوسکتا کہ مسئلہ کے سمجھنے کے لیے تین دن میں نومرتبہ قرآن کریم ختم کرلے اور منتہائے نظریہ ہوکہ مسئلہ مستنبط کرنا ہے؛ ہرایک کوبھلا یہ مقام کہاں سے نصیب ہوسکتا ہے۔ (بخاری:۱/۱۰۷) (ز)کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہﷺ کسی چیز سے نہی فرماتے ہیں؛ لیکن الفاظ اس تفصیل اور تشریح سے خاموش ہوتے ہیں کہ اس میں نہیں کا درجہ کیا ہے؟ حرام ہے یا خلافِ اولیٰ؟ مگرتاڑنے والی نگاہیں اپنی خداداد فراست وبصیرت سے اس کا مقام متعین کرلیتی ہیں، مثلاً حضرت ام عطیہؓ کی حدیث میں آتا ہے: "نُهِينَا عَنْ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا"۔ (بخاری، كِتَاب الْجَنَائِزِ،بَاب اتِّبَاعِ النِّسَاءِ الْجَنَائِزَ،حدیث نمبر۱۱۹۹، شاملہ، موقع الإسلام) ہم عورتوں کوجنازوں میں شریک ہونے سے منع کیا گیا ہے؛ لیکن ہم پر اس کی تاکید نہیں کی گئی۔ امام نوویؒ اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "معناہ نہانا رسول اللہﷺ عن ذلک نہی کراہۃ تنزیہ لانہی عزیمۃ وتحریم"۔ (نووی:۱/۳۰۴) ہمیں جناب رسول اللہﷺ نے جنازوں میں شریک ہونے سے کراہتِ تنزیہی کے طور پر منع کیا ہے، یہ نہیں تحریم وعزیمت کے قبیل سے نہیں تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ام عطیہ نے اپنی بصیرت اور تفقہ سے آپ کی اس نہی کا درجہ قائم کرلیا کہ یہ نہی تحریم کے درجہ کی نہیں؛ بلکہ خلافِ اولیٰ اور مکروہ تنزیہی کے مرتبہ کی ہے؛ حالانکہ حدیث میں صرف نہیں کے الفاظ ہیں اور اس میں یہ تقسیم مذکور موجود نہیں ہے؛ مگراس کی تہ تک حضرت امِ عطیہؓ پہونچ گئیں؛ اسی کا نام "تفقہ" ہے۔ (ح)بعض دفعہ ایسا بھی ہواہے کہ آنحضرتﷺ کوئی حکم صادر فرماتے ہیں؛ مگروہ حکم صرف مشورہ کی حد تک ہوتا ہے اور اس کا ماننا اور نہ ماننا دونوں جائز ہوتے ہیں اور آپ کے ایسے حکم کا انکار (معاذ اللہ) آپ کی نافرمانی متصور نہیں ہوتی، مثلاً: جب بریرہؓ کوآزادی حاصل ہوئی توشرعی مسئلہ کے تحت ان کواپنے خاوند حضرت مغیثؓ کے ساتھ رہنے یانکاح فسخ کردینے کی اجازت ملی؛انھوں نے حضرت مغیثؓ سے رستگاری کوترجیح دی اور وہ بے چارے گلیوں میں حضرت بریرہؓ کے پیچھے روروکر یہ التجا کرتے رہے کہ تومجھ سے الگ نہ ہو؛ مگروہ نہ مانیں؛ اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ بریرہؓ تومغیث کے پاس ہی رہتی توبہتر ہوتا، وہ کہنے لگی: "يَارَسُولَ اللَّهِ تَأْمُرُنِي قَالَ إِنَّمَاأَنَاأَشْفَعُ قَالَتْ لَاحَاجَةَ لِي فِيهِ"۔ (بخاری،كِتَاب الطَّلَاقِ،بَاب شَفَاعَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زَوْجِ بَرِيرَةَ،حدیث نمبر:۴۸۷۵، شاملہ، موقع الإسلام) یارسول اللہﷺ ! کیا آپ مجھ کواس کا حکم دیتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ حکم تونہیں دیتا؛ البتہ سفارش کرتا ہوں؛ توحضرت بریرہؓ نے عرض کیا: پھر مجھے مغیث کی ضرورت نہیں ہے۔ دیکھئے کہ حضرت بریرہؓ اپنے تفقہ فی الدین کی وجہ سے آپ کے حکم وارشاد کا درجہ خود آپ ہی سے متعین کرانا چاہتی ہیں کہ اگریہ حکم اور امر ہے تومجھے اس کے تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے اور اگر صرف مشورہ ہے تومجھے قبول کرنے یانہ کرنے کا حق حاصل ہے؛ چنانچہ آپ کے ارشاد کے بعد حضرت بریرہؓ نے وہی کیا، جوان کوپسند تھا اور حضرت مغیثؓ سے رہائی حاصل کی۔ (ط)بعض مواقع ایسے بھی ہوسکتے ہیں کہ ان میں جناب رسول اللہﷺ کے صریح الفاظ کی مخالف ہی مرادِرسالت اور منشائے نبوت کی تعمیل ہوسکتی ہے اور ظاہری الفاظ پر عمل کرنا جرم اور رضائے مصطفی ﷺ کے خلاف ہوگا، یقین نہ آئے توحضرت ایوب انصاریؓ کی روایت ملاحظہ فرمائیے: آنحضرتﷺ نے قضائے حاجت کے مسائل واحکام بتاتے ہوئے یہ فرمایا کہ تم نہ توکعبہ کی طرف پیٹھ کرو اور نہ منھ، آگے فرمایا: "وَلَكِنْ شَرِّقُوا أَوْغَرِّبُوا"۔ اور لیکن مشرق یامغرب کی طرف منہ کرو۔ (مسلم، كِتَاب الطَّهَارَةِ،بَاب الِاسْتِطَابَةِ،حدیث نمبر:۳۸۸، شاملہ، موقع الإسلام) حضرت امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حکم اہلِ مدینہ اور ان کی سمت والوں کوہے، جن کا قبلہ شمال یاجنوب میں واقع ہے۔ (نووی مع مسلم:۱/۱۳۰) اب اگرہم لوگ ہندوستان میں مشرق یامغرب کی طرف منہ کریں گے توتوہین قبلہ کا ارتکاب لازم آئے گا اور یہ بات منشائے نبوت کے خلاف ہوگی؛ کیونکہ ہمارے ملک کا محل وقوع ہی ایسا ہے؛ لہٰذا ہمیں آنحضرتﷺ کے ان صریح الفاظ کی مخالفت کرنا لازم ہے؛ تاکہ ہمارے ملک میں اس حکم کی تہ میں جومراد نبوت مضمر ہے اس پر عمل ہوسکے اور قبلہ کی تعظیم اور احترام ملحوظ ہے۔ یہ چند مثالیں آپ کے سامنے بیان کی گئیں؛ ورنہ اگرکتب حدیث وآثار کا تتبع کیا جائے تواس طرح کی سینکڑوں مثالیں مل سکتی ہیں، جن میں ظاہر الفاظ حدیث کوچھوڑ کر وہ معنی لیا گیا ہے جومنشائے شریعت اور حکم الہٰی کے موافق ہے اور یہ بات صحابہ اور مجتہدین امت کے درمیان عام ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایسا کرنے والا تارک حدیث اور مخالف سنت ہے، اس طرح کا الزام لگانے والا درحقیقت وہی شخص ہوسکتا ہے جوحقیقت سے ناواقف اور نابلد ہو؛ لہٰذا احناف نے اگر کسی ظاہر حدیث کے خلاف کوئی بات خداداد تفقہ کی بنیاد پر کہی ہے تواس کی وجہ سے ان پر یہ الزام عائد نہیں کیا جاسکتا کہ معاذ اللہ وہ تارک حدیث اور مخالف سنت ہیں۔ اللہ رب العزت ہم تمام لوگوں کوصحیح فہم سے نوازے اور منشائے شریعت کے موافق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔