انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۶)کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابتؓ (۴۵ھ) الانصاری آپ رضی اللہ عنہ کی علمی شخصیت کے تعارف میں یہ جاننا ہی کافی ہے کہ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے قرآن کریم آپ سے پڑھا تھا اور حضرت انس بن مالکؓ نے احادیث آپؓ سے روایت کیں، آپؓ کی وفات پر حضرت ابوہریرہؓ نے کہا تھا: "مأت حبرالامۃ ولعل اللہ یجعل فی ابن عباسؓ منہ خلفاً"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۰) ترجمہ: امت کے بہت بڑے عالم (حبرالاُمۃ) زید بن ثابتؓ چل بسےاور اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ ابنِ عباسؓ کواُن کا جانشین بنادیں گے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ کواُن کی شخصیت کریمہ پر اتنا اعتماد تھا کہ دونوں حضرات نے اپنے اپنے عہد میں جمع قرآن کی خدمت اُن سے لی، حضرت عمرؓ کی رائے حضرت سلیمان بن یسارؓ نے (۱۰۷ھ) جو بہت بڑے فقیہ اور فاضل تھے اس طرح نقل کی ہے: "ماکان عمر وعثمان یقدماک علی زید احداً فی الفتوی والفرائض والقرأۃ"۔ (مشکوٰۃ:۵۶۶) ترجمہ: حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ فقہ، علم وراثت اور قرأت میں حضرت زید بن ثابتؓ پر کسی کوفوقیت نہ دیتے تھے۔ خودآنحضرتﷺ نے فرمایا: "أفرضهم زيد بن ثابت"۔ (تذکرہ:۳۰) اِن میں علم فرائض کے سب سے بڑے ماہر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں۔ جب یہ سوار ہوتے یاسواری سے اُترتے توحضرت ابنِ عباسؓ ان کی رکاب پکڑنے کواپنے لیئے عزت سمجھتے تھے۔ حضرت مسروقؒ تابعی (۶۲ھ) کہتے ہیں: "کان اصحاب الفتویٰ من الصحابۃ عمر وعلی وعبداللہ وزید وابی وابوموسیٰ"۔ (تذکرۃ الحفاظ للذھبی:۱/۲۸، شاملہ، المكتبة الرقمية) خطیب تبریزیؒ لکھتے ہیں: "کَانَ أَحَدٌ فُقَہَاءِ الصَّحَابَۃِ"۔ (الاکمال:۵۹۹) آپؓ فقہائے صحابہ میں سے ایک تھے۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہؓ وتابعینؒ کے دور میں مدارِ شہرت وفضل علم فقہ تھا، رواتِ حدیث فقہاء کے بعد دوسرے درجے میں آتے تھے، قرأت خلف الامام جیسے معرکۃ الآراء مسئلے میں امام مسلمؒ نے آپؓ کا یہ فتویٰ نقل کیا ہے: "عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنْ الْقِرَاءَةِ مَعَ الْإِمَامِ فَقَالَ لَاقِرَاءَةَ مَعَ الْإِمَامِ فِي شَيْءٍ"۔ (مسلم، كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ،بَاب سُجُودِ التِّلَاوَةِ ،حدیث نمبر:۹۰۳، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: عطاء بن یسار نے حضرت زید بن ثابت سے پوچھا کہ امام کے پیچھے قرآن پڑھا جاسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: امام کے ساتھ کسی حصے میں قرآن پڑھنے کی اجازت نہیں۔