انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مدینہ کی طرف ہجرت کا اذن عام عقبہ ثانیہ کی بیعت کے بعد قریش کے مظالم نے مسلمانوں کے لئے مکہ کی رہائش غیر ممکن بنادی تھی جس کا اندازہ کرنے کے لئے ذیل کا واقعہ کافی ہے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مظالم قریش کو حد سے متجاوز دیکھ کر تمام مسلمانوں کو جو مکہ میں موجود تھے، اجازت دے دی کہ اپنی جان بچانے کے لئے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے جائیں، لوگ یہ حکم پاتے ہی اپنے گھروں کو خالی چھوڑ چھوڑ کر عزیزوں،رشتہ داروں سے جدا ہو ہوکر مدینہ کی طرف جانے لگے، قریش نے جب دیکھا کہ یہ لوگ یہاں سے ترکِ سکونت کرنے پر آمادہ ہیں اور مدینہ میں جاکر اطمینان وفراغت سے زندگی بسر کریں گے تو ان کو یہ بھی گوارا نہ ہوا،ہجرت کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے لگے۔ حضرت اُم سلمہؓ کہتی ہیں کہ میرے شوہر ابو سلمہؓ نے ہجرت کا ارادہ کیا،مجھ کو اونٹ پر بٹھایا،میری گود میں میرا چھوٹا بچہ سلمہ تھا،جب ہم روانہ ہوئے تو میرے قبیلہ کے لوگوں نے ابو سلمہؓ کو آکر گھیر لیا اورکہا کہ تو تو جاسکتا ہے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ تو ہماری لڑکی کو لے جائے، اتنے میں ابو سلمہ کے قبیلہ والے بھی آگئے،انہوں نے کہا کہ تو چلا جا لیکن بچہ ہمارے قبیلہ کا بچہ ہے،اسے نہیں لے جاسکتا؛چنانچہ بنو عبدالاسد توبچہ کو چھین کر لے گئے اوربنو مغیرہ ام سلمہؓ کو لے گئے،ابو سلمہؓ تنہا مدینہ کو چلے گئے،ام سلمہؓ سے خاوند اوربچہ دونوں جدا ہوگئے اورابو سلمہؓ نے بیوی اوربیٹے دونوں کو چھوڑ کر ہجرت کا ثواب حاصل کیا۔ حضرت صہیب رومیؓ جب مکہ سے جانے لگے تو ان کا تمام مال واسباب مکہ والوں نے چھین لیا اورہزاروں روپیہ کا مال و زر چھین کر بہ یک بینی ودوگوش مدینہ کی طرف جانے دیا،حضرت ہشام بن عاص نے ہجرت کا ارادہ کیا،مشرکین کو خبر لگ گئی،انہوں نے حضرت ہشامؓ کو پکڑ کر قید کردیا اور قسم قسم کی تکلیفیں پہنچائیں،حضرت عباس ہجرت کرکے مدینہ جا پہنچےتھے،ابو جہل ان کے پیچھے وہیں پہنچا اوردھوکہ دے کر مکہ میں لایا اوریہاں لاکر قید کردیا۔ غرض اس قسم کی رکاوٹوں کے باوجود ایک ایک دو دو کرکےبہت سے مسلمان ہجرت کرکے مدینہ میں پہنچ گئے،وہاں یہ تمام مہاجرین مدینہ کے مسلمانوں کے مہمان تھے،مکہ سے آئے ہوئے ان مہمانوں کا نام مہاجرین اورمدینہ منورہ کے باشندوں یعنی میزبانوں کا نام انصار مشہور ہوا،آئندہ اسی نام سے یہ لوگ تعبیر کئے جائیں گے اب ۱۴ نبوی شروع ہوگیا تھا، مکہ میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت ابوبکرصدیقؓ،حضرت علی کرم اللہ وجہہ اوران کے اہل وعیال باقی رہ گئے تھے،یا چند نہایت ہی کمزور وضعیف لوگ جو ہجرت کی طاقت نہ رکھتے تھے،باقی تھے ورنہ تمام مسلمان مکہ سے ہجرت کرچکے تھے اورمکہ میں بہت سے گھر جن میں مسلمان آباد تھے خالی پڑے ہوئے تھے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی تک ہجرت کا ارادہ نہیں فرمایا تھا؛کیونکہ آپ وحی الہی یعنی اجازت وحکم خدا وندی کے منتظر تھے،حضرت ابوبکرصدیقؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہمراہی کے لئے کہ رفیق سفر ہوں گے روک لیا تھا، اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور اجازت کی بنا پر رُکے ہوئے تھے۔