انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت ابورہم غفاریؓ نام ونسب کلثوم نام، ابورہم کنیت،"منحور"لقب،سلسلۂ نسب یہ ہے ،کلثوم بن حصین بن خالد بن عسعس بن زید بن عمیں بن احمس بن غفار۔ (اصابہ:۷/۶۸) اسلام آنحضرتﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد مشرف باسلام ہوئے۔ غزوۂ احد سب سے پہلے احد میں شریک ہوئے اور ایک تیر سینہ پر کھا کر نشان امتیاز حاصل کیا، آنحضرتﷺ نے زخم پر لعاب دہن لگایا، چونکہ سینہ پر آنحضرتﷺ نے لعاب دہن لگایا تھا، اورسینہ کو "نحر"کہتے ہیں،اس مناسبت سے لوگ ان کو"منحور"کہنے لگے۔ (ابن سعدجزو۴،ق۱:۱۸۰) صلح حدیبیہ میں بھی آنحضرتﷺ کے ہمرکاب تھے اوربیعت رضوان میں شرفِ بیعت حاصل کیا۔ (اسدالغابہ:۵/۱۹) اس کے بعد غزوۂ خیبر میں شریک ہوئے اورمال غنیمت میں سے آنحضرتﷺ نے ان کو دوہرا حصہ دیا۔ (اسد الغابہ:۵/۱۹۶) فتح مکہ میں شریک نہ ہوسکے تھے؛لیکن اس میں اس سے بھی بڑایہ شرف حاصل ہواکہ جب آنحضرتﷺ فتح مکہ کے لیے نکلے تو مدینہ میں ان کو اپنا قائم مقام بناگئے اس کے علاوہ عمرۃ القضا میں بھی یہ شرف حاصل ہوا تھا۔ (استیعاب:۲/۶۶۸) طائف کے محاصرہ میں بھی شریک تھے،واپسی کے وقت یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ جب آنحضرتﷺ طائف سے واپسی کے بعد جعرانہ کی طرف چلے تو ابورہمؓ کی اونٹنی آپ کی اونٹنی سے بھڑگئی اوران کے جوتے کا کنارہ ر ان مبارک سے رگڑ کھاگیا، آنحضرتﷺ کو اس کی خراش سے تکلیف ہوئی،آپ نے ان کے پاؤں کو کوڑے سے کونچ کر فرمایا :پاؤں ہٹاؤ،میری ران میں خراش آگئی، ابورہم بہت خوفزدہ ہوئے کہ مباداوحی کے ذریعہ اس گستاخی کی تنبیہ نہ ہو،صبح کو قافلہ جعرانہ پہنچ کر خیمہ زن ہوا تو ابو رہم حسبِ معمول اونٹ چرانے نکل گئے، مگر دل میں یہ خطرہ لگارہا، اس لیے واپس آتے ہی لوگوں سے دریافت کیا تو بظاہر اس خطرہ کی صحت کے آثار نظر آئے، معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ نے یاد فرمایا تھا؛چنانچہ یہ ڈرتے ڈرتے حاضر خدمت ہوئے ؛لیکن یہ قیصر وکسریٰ کی شہنشاہی نہ تھی،جس میں ادنی گستاخی بھی سخت ترین پاداش کا مستحق بنادیتی ہے؛بلکہ رحمۃ ا للعلمین کے لطف وکرم کا دربار تھا، جس میں آقا غلام،مالک اورمملوک کا کوئی امتیاز نہیں اورجس کی تعزیرات میں غیظ و غضب ،سزا اورانتقام سے زیادہ لطف وترحم کی دفعات ہیں؛چنانچہ جب یہ پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ تم نے مجھ کو تکلیف پہنچائی تھی، اس کے بدلہ میں میں تمہارے پیر کو کوڑے سے ہٹایاتھا،اب اس کے عوض میں یہ بکریاں انعام میں لو، حضرت ابورہمؓ کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی اس وقت کی رضامندی میرے لیے دنیا ومافیہا سے بہتر تھی۔ (ابن سعد ،جزو۴،قسم۱:۱۸۰) غزوۂ تبوک میں بھی شریک ہوئے اوراپنے ساتھ اپنے اوربہت سے قبیلہ والوں کو شریک کیا، اس غزوہ میں عرب میں ایساقحط اورایسی شدت کی گرمی تھی کہ لوگوں کا گھروں سے نکلنا دشوارتھااورمنافقین مسلمانوں کو شرکتِ جنگ سے منع کرتے تھے،اس لیے آنحضرتﷺ کو اس کے لیے خاص اہتمام کی ضرورت پیش آئی؛چنانچہ جب ابورہمؓ نے حسبِ معمول دوسرے غزوات کی طرح اس میں بھی شرکت کے لیے تیاریاں شروع کیں تو آنحضرتﷺ نے فرمایا ،تم جاکر اپنے قبیلہ والوں کو جنگ پرآمادہ کرو،اس ارشاد کی تعمیل میں انہوں نے قبیلہ غفار کے بہت سے لوگوں کو شرکت پر آمادہ کردیااوران کی معتدبہ تعداد اس غزوہ میں شریک ہوئی۔ (ابن سعد،جزو۴،ق۱،:۱۸۰) اتفاق سے اس مرتبہ بھی واپسی میں ان کی سواری آنحضرتﷺ کی سواری کے پہلو میں تھی،رات کا وقت تھا، باربار غنودگی طاری ہوجاتی تھی،اس لیے آنحضرتﷺ کی سواری سے بھڑجانے کا خطرہ پیدا ہوجاتا تھا،اس لیے جہاں ایسا موقع آتا وہ فوراً اپنی سواری ہٹالیتے۔ (مستدرک حاکم:۳/۱۸۰) وفات کے بارہ میں ارباب سیر خاموش ہیں۔ فضل وکمال آپ سے دوحدیثیں مروی ہیں۔ (تہذیب الکمال:۳۲۱)