انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تعارف ِ سیرت النبیﷺ سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم....ایک تعارف سیرت کی لغوی تعریف سیرت عربی ڈکشنری میں عادت، خصلت، طریقہ اور طرزِ زندگی کے کیفیات وسلوک کوکہتے ہیں اور "سِیْرَۃُ الرَّجُلْ" سوانح عمری کو کہتے ہیں۔ سیرت اسلام کی اصطلاح میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائشِ مبارکہ سے لیکر وفات تک کے تمام گوشوں اور آپﷺ کی ذات مقدس وصفات عالیہ، عبادات ومعاملات، فضائل ومعجزات، احوال وارشادات وغیرہ کے جامع بیان کوسیرت کہتے ہیں۔ انسانی دنیا کے نامور تاریخ ساز شخصیات کا ایک طائرانہ جائزہ آنحضرتﷺکی سیرت کی اہمیت کو جاننے سے پہلے مختصر سااگرہم انسانی دنیا کی تاریخ کا جائزہ لے لیں توآنحضرتﷺ کی سیرتِ پاک کی اہمیت اور اچھی طرح واضح ہوسکتی ہے۔ انسانی دنیا میں ویسے تولاکھوں کروڑوں اربوں کھربوں انسان پیدا ہوئے اور گذرگئے؛ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی گذرے ہیں جواپنے علم وفن میں نمایا کارنامے انجام دئے اور تاریخ انہی لوگوں سے بنتی ہیں اور صدیوں تک اُن کے نام وکارنامے یاد کیئے جاتے رہتے ہیں تواِس طرح وہ حضرات لوگوں کے دلوں میں زندہ وباقی رہتے ہیں اور لوگ انہی کارآمد شخصیات کے نام وکارناموں کواپنے سینوں میں بھی محفوظ رکھتے ہیں اور اپنی زندگی کے لیے ایک نمونہ وآئیڈیل بناکر اُن کے سانچے میں اپنے آپ کوڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں؛ ایسی ہزاروں لاکھوں شخصیات دنیائے انسانیت کی تاریخ میں گذری ہیں کہ جن کی زندگی کے آئینہ میں بعد کے لوگ اپنے آپ کوسنوارنے وبنانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور اُس علم وفن میں اپنے لیے ایک آئیڈیل ونمونہ تسلیم کرتے ہیں کہ جن میں شاہانِ عالم، فاتحینِ عالم، سپہ سالاران، حکماء، اطباء، فلاسفر، شعراء، امراء، قانون ساز، سائنٹس وانجینئرس وغیرہ ہیں؛ لیکن ان میں سے کسی کی عملی زندگی ان کے متعلقہ علم وفن کے علاوہ دنیا کی پیدائش کا مقصد، انسانی فلاح وبہبود کس میں ہے، حسن معاشرت وحسنِ اخلاق مرنے کے بعد کیا ہوگا وغیرہ میں سے کسی کا درس، ان کی زندگیوں میں سے کسی کی حیات میں نہیں ملتا کہ جن کو لائقِ تقلید ونمونہ بنائیں ہاں! شاہانِ عالم وفاتحینِ ممالک اپنی بادشاہت وکامیابی کے خوب جلوے دکھائے، پرشکوہ محلات ودربار سجائے اور اپنی بادشاہت ووجاہت کے دنیا پر خوب رعب ودبدبے جمائے؛ لیکن انسانوں کواوہام پرستی وخیالاتِ فاسدہ کی قید وبند سے نہ چھڑاسکے اور نہ ان کوروحانی بیماری وناامیدی کے دلدل سے نکال کرروحانی صحت وامید کی صاف ستھری زمین پرلاکھڑا کرسکے؛ اسی طرح فوج کے سپہ سالاران، ملکوں وخزانوں اور انسانی جسموں کوتوفتح کرنے کے خوب کارنامے انجام دیئے اور رہتی دنیا تک تاریخِ انسانی میں اپنا نام سنہری حرفوں سے لکھوالیے؛ لیکن روح کے سکون واخلاقی اقدار کوفتح کرنے کے کارنامے انجام نہ دے سکے؛ اسی طرح اطباء، حکماء وفلاسفر بھی اِس دنیا میں گذرے ہیں جواپنے فن وفلسفہ اخلاق سے تومرتے ہوئے کوبچالیے اور اپنی کمالِ عقلی سے نظامِ عالم کے نقشے کوبدل دیئے اور عجائباتِ عالم کے حیرت انگیز کارنامے، نظیریں وپیشین گوئیاں دنیا کے سامنے پیش کئے اور علمِ اخلاق کے وہ فلسفیانہ اسرار ورموز دنیائے انسانیت کے سامنے رکھ دیئے کہ دنیا اُن کوسن کر حیران وششدر رہ گئی؛ لیکن وہ اپنے علمِ طب وفلسفہ سے روحانی بیماریوں کی دواؤں کے نسخے ترتیب نہ دے سکے اور نہ عملی مثال ونمونہ پیش کرسکے، جس کی وجہ سے فلاسفہ کے وہ اخلاقی نظریات اور ان کے اسرار ورموز، نظریات وگفت وشنید ہی کی حد تک رہ گئے، اُس سے آگے بڑھ نہ سکے اس لیے کہ اُن میں سے کسی نے اُن نظریات کی ترجمانی کرنے والی کوئی عملی شخصیت بطورِ نمونہ عام انسانوں کے سامنے پیش نہیں کی کہ جس کو دیکھ کر لوگ فلسفیانہ اخلاقی اقدار اپنا سکیں؛ اس لیے کہ انسانی زندگی میں اخلاقی اقدار صرف کانوں سے سن سن کرمنتقل نہیں ہوتے؛ بلکہ کانوں سے سننے کے ساتھ ساتھ آنکھوں سے کسی کواُ س پر عمل کرتا دیکھ دیکھ کر منتقل ہوتے ہیں ؛ جس طرح اِن اطباء، حکماء اور فلاسفر کی زندگیاں انسانی فلاح وبہبود کا کوئی عملی نمونہ پیش نہ کرسکیں اس طرح شعرا، امراء، وقانون ساز کی زندگیاں بھی فلاحِ دارین کا کوئی نمونہ پیش نہ کرسکیں؛ جہاں تک شعراء کا تعلق ہے گووہ خیالی دنیا کے شہنشاہ ضرور ہیں جو زمین وآسمانوں کے خلائوں کوملانے پر قدرت رکھتے ہیں؛ بلکہ خیالی دنیا میں توناممکن کوبھی ممکن بنادیتے ہیں؛ لیکن عملی زندگی میں پوری انسانیت کوسامنے رکھ کر کوئی کامیاب وکامران زندگی پیش نہ کرسکے کہ جس پر چل کر ایک عام آدمی دارین کی کامیاب زندگی کو پالے۔ اِسی طرح ایک طرف امراء اور دولتمندوں کی داستانیں ہیں جوہم کومال ودولت کمانے کے راز ہائے سربستہ توبتاتی ہیں لیکن اُس صحیح زندگی کے گر کا پتہ نہیں بتاسکتیں جودارین کی کامیاب زندگی کی ضامن ہو اور دوسری طرف قانون سازوں کے قانون اور اُن کی عملی زندگیاں ہیں یہ بھی انسانی فلاح وکامیابی کی ضمانت نہیں دیتیں اس لیے کہ جوقانون وضع کیئے گئے ہیں وہ صرف اِس دنیا کی حیات ہی کی حد تک محدود ہیں وہ بھی ناقص جوآئے دن بدلتے رہتے ہیں؛ بلکہ وہ قوانین توحکمران کی خوشنودی حاصل کرنے اور حکومت کی بقاواستحکام کے لیے وضع کیے جاتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ ہرحکمران اپنے دورِ حکومت میں اپنی مرضی وپسند کے قوانین وضع کرواتا ہے اور سابقہ حکمرانوں کے قوانین کوحرفِ غلط کی طرح کاٹ دیتا ہے آج بھی اِس مہذب دور میں بھی یہی صورتِ حال قائم ہے کہ آئے دن آئین ساز کمیٹی قوانین بناتی ہیں جواپنے ہراجلاس میں آج جوبناتی ہیں کل اس کو ختم کردیتی ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ حاکم کےحکومت کے دن کسی طرح بڑھائے جائیں اور اس کومستحکم کیا جائے اور اس طرح اپنی روزی روٹی پکی ہوتی رہے۔ اسی طرح سائنسدان وانجینئرس اپنی تاریخی زندگی سے توستاروں وسیاروں سے لیےکرذرات تک کی تحقیقات انسانیت کے سامنے رکھدئے اور اس کائنات کے پوشیدہ خزانوں کوکھول دکھاتے رہے اور انجینئرس اپنے فن کا جادو جگائے اور ایسی عالی شان فلک بوس عمارتیں اور محلات تعمیر کیئے اور ان میں وہ کُنْ فَیَکُوْنِیْ شان والے آلات استعمال کیئے کہ جن کواستعمال کرنے والے شخص میں بھی خدائی کے جلوہ کا احساس ہو؛ لیکن ان کے یہ کارنامے حقیقی خداوجنت کی خدائی کا احساس نہ دلاسکے۔ اِن میں سے ہرایک کی عملی زندگی اُن کے اپنے علم وفن کی حد تک تولائقِ تقلید ہوسکتی ہے؛ لیکن اِن میں سے کسی کی عملی زندگی نہ اچھائیوں کے اقدار بتاسکی اور نہ برائیوں کے حدود وسرحدیں قائم کرسکی، نہ انسانیت کواوہام پرستی وخیالاتِ فاسدہ کے دلدل سے نکال سکی اور نہ برادرانہ باہمی تعلقات کی گھتی سلجھاسکی کہ جس سے انسان کی معاشرت درست ہو اور وہ روحانی مایوسیوں وناامیدیوں کا علاج کرسکےاور دلوں کی ناپاکی وزنگ کودور کرسکے اور نہ اچھے اخلاق واعمال کی کوئی عملی تصویر پیش کرسکے کہ جس سے نسلِ انسانی سے روحانی واُخروی مشکلات دُورہوں اور دلوں کی بستی میں امن وامان قائم ہو، بادشاہوں نے توظاھری ملک کے نظم ونسق کوتودرست کرلیا؛ لیکن روحوں کی مملکت اور دلوں کی دنیا کا نظم ونسق درست نہ کرسکے یہ کام اِن حضرات سے اس لیے بھی نہ ہوسکا کہ یہ اِن کا موضوع نہ تھا اور نہ وہ لوگ یہ کام کرسکتے تھے، اس لیے کہ اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے جماعتِ انبیاء علیہم السلام کا انتخاب فرمالیا تھا۔ الغرض دنیائے انسانیت کی تاریخ میں کتنی ہی نامور شخصیات ایسی گذری ہیں جواپنے علم وعقل کے زور سے اپنے اپنے زمانہ میں علم وفن کے امام وشہنشاہ کہلائے اُن تمام کی قدرِ مشترک کوششوں وکاوشوں ہی سے انسان بتدریج اِس مادی دنیا کے خواص جان کردیگرمخلوقات کے بالمقابل عمدہ معاشرت، صحیح تمدن، اعلیٰ مقاصد کی تکمیل اور ساری مخلوقات پر اپنے وجود کوبرتر وبالاثابت کرنے میں کامیاب ہوگیا؛ اِس لیے ہم اُن تمام اہلِ علم وفن کے ممنون ومشکور ہیں کہ جنھوں نے اپنی انتھک کوششوں وجدوجہد سے انسان کی اِس دنیاوی زندگی کی کٹھن، دشوار گذار، پرپیج وسنگ ریز راہ کوانتہائی سہل وآرام دہ بنادیا جس کے نتیجہ میں آج ایک عام آدمی قابلِ فخر زندگی گذار رہا ہے۔ (۱)انبیائے کرام اور اُن کے فرائض ہم سب سے زیادہ اُن چنندہ وبرگزیدہ، پاک ومقدس ہستیوں کے شکرگذار ہیں کہ جن کوہم انبیاء علیہم السلام کہتے ہیں، جن کی اس دنیا میں آمد کی برکت سے دنیا میں جہاں کہیں بھی ایک اللہ کی پرستش، عبادت کی مختلف شکلیں، نیکی کی روشنی، اچھائی کا نور، اخلاص وللّٰہیت کی عملی شکل وصورت، دل کی صفائی کا اجالا، رحم وکرم، عدل وانصاف، غریبوں کی مدد، یتیموں کی پرورش، بے واؤں کا سہارا، بیماروں کی تیمارداری، محتاجوں وضرورتمندوں کی مدد ونصرت، اخلاق کی بہتری، مختلف حالتوں میں انسانی قویٰ میں اعتدال ومیانہ روی پیدا کرنے کی کامیاب کوششیں ملتی ہیں؛ خواہ وہ پہاڑوں کے غاروں، جنگلات کے جھنڈوں، ریگستانوں کے کھلے میدانوں، دریاؤں وسمندروں کے کناروں پر ہوں یاشہروں وبستیوں کی آبادیوں میں وہ سب کی سب اِنہی انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نہ کسی فرد سے منسلک ہوں گی؛ اورانہی کی ہدایات وتعلیمات ہی کا نتیجہ ہوگا کہ جن کے ذریعہ ہماری اندرونی حرص وھویٰ کی چالیں درست ہوئیں اور انہوں نے ہی ہمارے روحانی بیماریوں کے علاج کے نسخے ترتیب دئے اور ہمارے جذبات، احساسات اور ارادوں کے نقشوں کودرست کیا اور ہمارے نفوس وقلوب کے عروج ونزول کی کیفیات کوحداعتدال میں رکھنےکے فن ترتیب دئے جن سے مادی وروحانی زندگی کے صحیح تمدن وحسنِ معاشرت کی تکمیل ہوئی، اچھی سیرت وحسنِ اخلاق، انسانیت کا جوہر قرار پایا؛ نیکی وبھلائی، ایوانِ عمل کے نقش ونگار ٹھہرے، اللہ وبندہ کے درمیان باہم روابط مضبوط ہوئے؛ الغرض ہرزمانہ میں لوگ انبیاء علیہم السلام ہی کی عملی زندگی کودیکھ دیکھ کراپنی دنیوی زندگی کے تمدن، حسنِ معاشرت وحسنِ معاملگی کوسیکھ کراس پر عمل کرتے رہے اور منشائے خداوندی کے مطابق اپنی زندگی کے شب وروز گذارتے رہے تاکہ اخروی دائمی زندگی کے چین وسکون کورضائے الہٰی وجنت کی شکل وصورت میں پاسکیں۔ خاتم النبیین حضرت محمدﷺکے اسوۂ حسنہ میں قیامت تک آنےوالی انسانیت کی نجات ہے یہ دنیا امتحان گاہ ہے ایک دن اِس کو ختم ہونا ہے توجس طرح ایک دن یہ ختم ہوگی اُسی طرح اُس میں پیدا ہونے والی انسانیت کوبھی ختم ہونا ہے اور انبیا علیہ السلام کی آمد کا سلسلہ انسانوں میں ہی ہوا کرتا تھا؛ لہٰذااِس آمدِ انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ کوبھی ختم ہونا تھا تویہ سلسلہ آدم علیہ السلام سے لیکر محمدﷺ تک چلتا رہا؛ چونکہ اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ ہی کووجہِ کائنات، سرورِ دوعالم، اشرف الانبیاء اورخاتم الانبیاء بنایا ہے اس لیے اس کا تقاضہ بھی یہی تھا کہ آپﷺ کی تشریف آوری سب سے اخیر میں ہو؛ تاکہ لوگوں پر بھی ظاہرہوجائے کہ آپﷺ کس طرح اشرف الانبیاء، افضل الانبیاء اور خاتم الانبیاء ہیں، یہ ہم اپنے مذہبی عقیدہ کی بنیاد پرمحض کوئی دعویٰ نہیں کررہے ہیں؛ بلکہ یہ ایک واقعی حقیقت ہے جس کی بنیاد دلائل وشواہد پر قائم ہے۔ آپﷺ کی بعثت کے بعد سے قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے اگرکوئی کامل ومکمل لائقِ عمل وقابل تقلید زندگی ہے تووہ صرف اور صرف محمد ﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہے آپﷺ کے علاوہ کسی نبی ورسول کی زندگی اس طرح مضبوط طریقہ پر محفوظ نہیں ہے جس طرح آنحضرتﷺ کی سیرت محفوظ ہے، دیگرانبیاءعلیہم السلام کی مکمل سیرت محفوظ رکھنے کی اب چنداں ضرورت بھی نہیں ہے؛ اس لیے کہ ہر نبی ورسول کا وقت، علاقہ، قوم وبستی متعین ومحدود تھی؛ اس لیے اللہ تعالیٰ اس وقت تک، اس قوم کی حد تک، اُن کی زندگیوں کومحفوظ رکھا تھا؛ اب چونکہ اُن کی نبوت ورسالت کا دور ختم ہوچکا ہے؛ اس لیے اُن کی تاریخی زندگیاں بھی تکوینی طور پرمحفوظ نہیں رکھا گیا ؛ اب چونکہ محمدﷺ کی نبوت ورسالت کا دور ہے جو کہ آپﷺ سارے عالَموں کے، رہتی دنیا تک کے، جن وانس کے نبی ورسول ہیں؛ اِس لیے آپﷺ کی پوری عملی زندگی مختلف انداز وطریقوں سے محفوظ کی گئی؛ تاکہ جن وانس کے مختلف احوال ومصروفیات کے اعتبار سے ایک کامل ومکمل، بہترین نمونۂ حیات ثابت ہو، آپ ﷺ کی سیرتِ پاک میں ہرآدمی کواس کے اپنے احوال ونسبتوں کے اعتبار سے ایک بہترین زندگی گذارنے کا طریقہ میسر آئے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت کی اہمیت اسلام کی نظر میں اسلام میں سیرتُ النبیﷺ کی اہمیت اور مقام ومرتبہ اُتناہی اہمیت کا حامل ہے جتنا کہ کتاب اللہ کا یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہبری ورہنمائی اور زندگی گذارنے کے دستور کوکتاب یعنی قرآن مجید کی شکل میں نازل فرمایا اُسی طرح اُس پر عمل آوری کی بہترین شکل وصورت اور انسانوں کے لیے سب سے عمدہ اُسوہ ونمونہ صاحبِ کتاب یعنی حضرت محمدﷺ کی شکل وصورت میں مبعوث فرمایا، جس طرح پورا قرآن کریم انسانی زندگی کے لیے کتابی دستور کی حیثیت رکھتا ہے اُسی طرح آنحضرتﷺ کی پوری عملی زندگی عملی دستور وقانونِ الہٰی کی حیثیت رکھتی ہے؛ اسی کوبتلانے اورسمجھانے کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: "وَمَايَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىo إِنْ هُوَإِلَّاوَحْيٌ يُوحَىo"۔ (النجم:۴،۳) یعنی آپﷺ قرآنِ مجید کے علاوہ جوبات بھی ارشاد فرماتے ہیں وہ وحی الہٰی ہی ہوتی ہے، یعنی آپﷺاپنی طرف سے کچھ نہیں فرماتے جوکچھ بھی ارشاد فرماتے ہیں وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے، بس!فرق صرف اتنا ہے کہ وہ وحی غیرمتلو یعنی حدیث ہوتی ہے جس کونماز میں قرآنِ شریف کے طور پر نہیں پڑھ سکتے، باقی حکم وعمل کے اعتبار سے دونوں برابر درجہ کے ہیں، وحی غیرمتلو میں حکم وعمل کے اعتبار سے جوتخفیف ہوئی ہے وہ قوتِ دلیل میں کمی کی وجہ سے ہے؛ ورنہ توقرآن اور آپﷺ کی عملی زندگی اعتقاد، حکم اورعمل کے اعتبار سے دونوں برابردرجہ کے ہیں؛ اس کو سمجھنے کے لیے دل میں عشقِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وحب حبیب اللہﷺ کی چنگاری کی ضرورت ہے، جب وہ چنگاری سُلگ کربڑھتے بڑھتے ایک شعلہ جوّالہ بن جاتی ہے تواس وقت جب ایک سچے امتی کو صحیح طریقہ پر معلوم ہوجاتا ہے یہ آنحضرتﷺ کا قول وفعل ہے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہراداء کی نقل اتارنے کوباعثِ فخر وسعادت اورقرب خداوندی میں رفعِ درجات کا سبب سمجھتا ہے توپھر وہ حضراتِ صحابہؓ ہی کی طرح عشقِ نبیﷺ وحب نبیﷺ میں ڈوب کرسرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک اداء کی نقل اُتارنے کوفرضِ لازمی کےدرجہ میں لیکر پوری کیفیات واحساسات کے ساتھ ادائیگی پرمرمٹنے کوہروقت وہمہ تن تیار ہوجاتا اور وہ اپنی زندگی کے اُن احوال اور اُن اعمال پر فخر کرتا ہے جن میں عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں غرق ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اداء کی نقل اتاری ہو۔ سیرتِ مبارکہﷺپڑھنے اورسننے کے فوائد سرورِ کونین، آقائے نامدار، تاجدارِمدینہ حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا بار بار مطالعہ کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے متعلق بارہا بیانات سنتے رہنے کے بے شمار فوائد ہیں جن میں سے چند یہاں ذکر کیے جارہے ہیں: (۱)وہ اپنے آپ کوآنحضرتﷺ کی مجلس میں بارہا پاتے رہتا ہے اور اپنی عملی زندگی میں ویسا ہی کچھ کرتے رہنےکی کوشش کرتا ہے جوآنحضرتﷺ کوکرتے یاکہتے رہنے کا مطالعہ کرتا یاسنتا ہے۔ (۲)سیرت النبیﷺکے مطالعہ سے مسلمان کے حوصلے وعزائم برھتے ہیں جن کی مدد سے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے پر وہ آسانی سے قادر ہوجاتا ہے۔ (۳)سیرت کی برکت سے مسلمان کے اندر حکمت ودانائی، بصیرت وفراست میں ترقی ہوتی ہے اور دوراندیشی پیدا ہوتی ہے، جس سے آدمی خطرات ونقصانات سے بچتے رہتا ہے اور ایک محتاط زندگی گذارنے کا عادی ہوتا ہے۔ (۴)آپﷺ اللہ تعالیٰ کا پیغام ہم تک پہنچانے کی خاطر جوجومصیبتیں وتکلیفیں برداشت کیئے اُن کا مطالعہ کرنے سے ہمارے اندر بھی آپﷺ سے عشق ومحبت اور اسلامی فداکاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اپنے اندر نیکیوں پر عمل کرنے میں جودشواری اور برائیوں سے بچنے میں جوتکلیف محسوس ہوتی ہے اس پر صبرکرنے اور اس کو برداشت کرلینے کی صفت پیدا ہوتی ہے اور اسلام کی خاطر ان کوبرداشت کرلینے پر جوبشارتیں اور خوشخبریاں ہیں اس کو پڑھنے سے رنج وغم دور ہوکر ایک خوشی ومسرت پیدا ہوتی ہے اور ہروقت دل ودماغ میں تازگی وفرحت، سرور وانبساط کی کیفیت رہتی ہے۔ (۵)سیرت النبیﷺ کا مطالعہ ہزاروں لچھے دار تقاریر کے بالمقابل، پندونصائح اور عبرت آموزی کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ (۶)آنحضرتﷺ کی سیرت کے مطالعہ سے انصاف پسند طبائع یہ اندازہ قائم کرسکتی ہیں کہ اللہ کے پیغمبر محمدﷺ اپنی ذات، اپنے اخلاقِ حسنہ واوصافِ حمیدہ سے اور اپنے علمی وعملی کمالات سے دنیا میں کس طرح امن وامان قائم کیا تھا؟ اور بھٹکتی دنیا کوایک معبودِ حقیقی پرکس طرح لاکھڑا کیا تھا؟ اور دنیا سے ظلم وزیادتی اور حق تلفی کومٹاکر امن وامان قائم کیسے کیا تھا؟ اور پوری انسانیت کے لیے رہتی دنیا تک کیا اُسوہ ونمونہ چھوڑا؟۔ (۷)ہرمسلمان کا دینی واخلاقی فریضہ ہے کہ آپﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا مطالعہ کریں؛ کیونکہ آپﷺ سے محبت ہمارا ایمان ہے اور آپﷺکا ذکر ہماری جان ہے اور آپﷺ کی سیرت کی اتباع ہمارے لیے فلاحِ دارین ونجاتِ ابدی کی پہچان ہے اور آپﷺ کی حیاتِ طیبہ ہماری علمی وعملی زندگی کی دلیلِ راہ ہے؛ لہٰذا ہرمسلمان کا دینی واخلاقی اور آپﷺ سے محبت کے تقاضہ کا بھی یہی فریضہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی سیرت کا مطالعہ اس کثرت سے کرے کہ آپﷺ کی اتباع کے بغیر اپنی زندگی کا کوئی قول وفعل ادا ہی نہ ہو اور آپﷺ کے قول وفعل کے خلاف عمل کرنے کی ہمت وجسارت ہی نہ ہو، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم کو کمالِ اتباع کی توفیق نصیب فرمائے اور خلافِ سنت کا حوصلہ ہی نہ پائے، آمین۔ کسی کو آئیڈیل اورنمونہ بنانے کے چاراہم اصول کسی بھی شخصیت کونمونۂ عمل ولائقِ تقلید بنانے کے لیے اس میں چار چیزوں کا ہونا ضروری ہے، جن میں سےکوئی ایک چیز بھی نہ ہوتو وہ شخصیت دوسروں کے لیے نمونہ عمل نہیں بن سکتی اور وہ چاروں چیزیں آنحضرتﷺ کی حیاتِ طیبہ میں سوفیصد بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں؛ اگراِن چاروں چیزوں کومعیار وسانچہ بناکر کسی بھی نبی ورسول کی عملی زندگی کی معلومات کواُن پرپرکھیں اورڈھالیں توکسی بھی نبی ورسول کی عملی زندگی سے متعلق وہ معلومات فراہم نہیں ہیں کہ جن کومعیار بناکر ہرآدمی اپنی اپنی مختلف مصروفیات، مختلف احوال اورمختلف کیفیات میں ایک نمونہ عمل پاکر اُسی کے مطابق عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت کی سرخروئی حاصل کرسکے؛ سوائے حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کے، آپﷺ کی حیاتِ طیبہ ہی کی یہ خصوصیت ہے کہ آپﷺ کی چھوٹی سی چھوٹی ادا اور نقل وحرکت کوبڑی عقیدت ومحبت اور بڑے فخرواعزاز کے ساتھ اور پورے اہتمام وانصرام کے ساتھ انتہائی مضبوط طریقوں سے محفوظ کیا گیا کہ جن کی تاریخ میں مثال ونظیر ملنی ایک ناممکن سی بات نظر آتی ہے۔ وہ چار باتیں یہ ہیں (۱)تاریخیت:یعنی مستندطریقہ سےواقعات ثابت ہوں،افسانوں اور کہانیوں کی طرح من گھڑت نہ ہوں (۲)کاملیت:جس کواپنے لیے جس شعبۂ حیات میں نمونہ ٔعمل بنانا چاہتا ہے اس میں مکمل طریقہ موجود ہو(۳)جامعیت:ہر انسانی جماعت کے لیے اس میں نمونہ موجود ہو،زندگی کے کسی شعبہ میں تشنگی باقی نہ رہے(۴)عملیت:انسانیت کے لیے جو ہدایات دی جارہی ہیں ان ہدایات پر اس آئیڈیل کاعمل موجود ہو، اب ہرایک کی کچھ تفصیل ملاحظہ فرمائیے: (۱)محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی پہلی خصوصیت(تاریخیت) ہم تمام ابنیاء کرام علیہم السلام کا ادب اور احترام کرتے ہیں اور ان کے سچے پیغمبر ہونے پر یقین رکھتے ہیں، ان میں سےہر ایک نے اپنے اپنے وقت میں اوراپنی اپنی قوموں کے سامنے اُس زمانے کے مناسب حال، اخلاقِ عالیہ اور صفاتِ کاملہ کا ایک نہ ایک بلند ترین معجزانہ نمونہ پیش فرمایا؛ لیکن دوام وبقاء خاتمِ نبوت اور آخر ی کامل انسانی سیرت ہونے کی حیثیت سے محمد رسول اللہؐ کو جو خاص شرف عطا ہوا ہےوہ دیگر انبیاء کو اس لیے مرحمت نہیں ہوا کہ ان کو دائمی، آخری اور خاتمِ نبوت نہیں بنایا گیا تھا،ان کی سیرت کا مقصد ایک خاص قوم کو ایک خاص زمانہ تک نمونہ دینا تھا، وہ قوم گذرگئی اور وہ زمانہ ختم ہوگیا اس لیے آج اُن کی سیرتیں محفوظ وموجود بھی نہیں رہیں۔ آج کسی شخصیت کی زندگی تاریخی اعتبار سے سب سے زیادہ مستند اور محفوظ ہمارے سامنے ہے تو وہ صرف محمد رسول اللہﷺ کی زندگی ہے، اس باب میں تمام دنیا متفق ہے کہ تاریخی حیثیت سے اسلام نے اپنے پیغمبر کی، نہ صرف پیغمبر کی بلکہ جن لوگوں کےذریعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہم تک پہونچی اُن کے بھی نام ونشان،زندگی کے احوال وکیفیات،اخلاق وعادات کاایک ایسا ریکارڈ اور سرمایہ اِس امت کے پاس موجودو محفوظ ہے کہ جس کی مثال کوئی قوم ہرگزپیش نہیں کرسکتی۔ (۲)محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی دوسری خصوصیت(کاملیت) کسی انسانی سیرت کے دائمی نمونہ عمل بننے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی زندگی کے تمام حصے ہمارے سامنے ہوں، کوئی واقعہ پردہ راز میں اورناواقفیت کے اندھیر ے میں گم نہ ہوں، اس کی زندگی کے حالات روزِروشن کی طرح دنیا کے سامنے عیاںہوں ؛تاکہ معلوم ہو کہ اس کی سیرت کہا ں تک انسانی سوسائٹی کیلئے ایک آئیڈیل زندگی کی صلاحیت رکھتی ہے، پیغمبرِ اسلام کی زندگی کا ہر لمحہ پیدائش سے لیکر وفات تک آپﷺ کے زمانہ کے لوگوں کے سامنے اور آپﷺ کے وصال کے بعد اقوامِ عالم کے سامنے موجود ہے، حضوراکرمﷺاپنے اہلِ وطن کی آنکھوں سے کبھی اوجھل نہ رہے، پیدائش،شیر خواری، بچپن،جوانی، تجارت، شادی،احباب، قبل نبوت امین بننا اورخانہ کعبہ میں پتھر نصب کرنا، غارحراء کی گوشہ نشینی، وحی، دعوت وتبلیغ، مخالفت، سفرِ طائف، معراج،ہجرت، غزوات،حدیبیہ کی صلح، دعوت اسلام کے خطوط وپیغام، حجۃ الوداع،وفات ؛ان میں سے کون سا زمانہ ہے جو دنیا کی نگاہوں کے سامنے نہیں اورآپﷺ کی کون سی حالت ہے جس سے اہلِ تاریخ ناواقف ہیں؟ آپ کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، شادی بیاہ، بیوی بچے،دوست احباب، عبادت وبندگی،صلح وجنگ آمدورفت، سفر وحضر،نہانا دھونا، کھانا پینا،ہنسنا رونا، پہننا اوڑھنا،چلنا پھرنا، ملنا جلنا، خلوت وجلوت،طور طریق، رنگ و بو،خد و خال، قدوقامت یہاں تک کہ میاں بیوی کے خانگی تعلقات کے واقعات ہر چیز پوری روشنی میں مذکور اورمحفوظ ہے،آنحضرت ﷺ خلوت میں ہوں یا جلوت میں مسجد میں ہوں یا میدانِ جہاد میں، نماز میں مصروف ہوں یا فوجیوں کی درستی میں،منبر پر ہوں یا گوشہ تنہائی میں ہروقت اور ہر شخص کو حکم تھا کہ جو کچھ میری حالت اورکیفیت کودیکھے وہ سب منظر عام پر لایا؛ اِس اخلاقی وثوق اور اعتماد کی مثال کہیں نہیں مل سکتی،آپﷺ کی زندگی کا کوئی پہلو زیر پردہ نہیں، ایک اور حیثیت سےغور فرمائیے،آنحضرتؐ ہمیشہ صرف اپنے معتقدوں ہی کے حلقہ میں نہیں رہے؛ بلکہ مکہ میں قریش کے مجمعوں میں رہے، نبوت سے پہلے چالیس برس اُن ہی کے ساتھ گذرے،وہ بھی گوشہ نشینی میں نہیں بلکہ تاجرانہ لین دین اورکاروبار کی زندگی گذاری جس میں صادق وامین کے لقب سے مشہور ہوئے، نبوت کے بعد بھی لوگوں کو آپﷺ پر یہ اعتماد تھا کہ اپنی امانتیں آپﷺ ہی کے پاس رکھواتے، دعوائے نبوت پر قریش نے مخالفت اوردشمنی کی تمام حدیں پارکرلیں؛ لیکن آپﷺ کے اعمال واخلاق کے خلاف ایک حرف بھی زبان سے نہ نکال سکے،سیرت محمدیؐ دنیائے اسلام کا عالم گیر آئینہ ہے اور جوکوئی اِس آئینہ میں اپنی زندگی سنواریگا وہ دنیا میں بھی کامیاب زندگی گذارے گا اور مرنے کے بعد بھی اُس کوہمیشہ ہمیش کی کامیابی وکامرانی نصیب ہوگی؛ اس لیے تمام انسانیت کے لیے یہی ایک کامل نمونۂ حیات ہے ۔ (۳)محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی تیسری خصوصیت(جامعیت) دنیا کے ادیان ومذاہب نے خدا کی محبت کا اہل بننے اور ایک اچھی پاکیزہ اور کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ایک ہی تدبیر بتائی ہے کہ اُس مذہب کے شارع نے جو عمدہ نصیحتیں کی ہیں ان پر عمل کیا جائے؛ لیکن اسلام نے اس سے بہتر تدبیر یہ بتائی کہ اُس نے اپنے پیغمبرکا عملی نمونہ انسانیت کے سامنے رکھ دیااور اسے تمام انسانوں کے لیے اسوہ اور آئیڈیل قرار دیا۔ دنیا میں لوگ جس مذہب کے بھی ماننے والے ہوں یہ ناممکن ہے کہ سب ایک ہی صف انسانی سے تعلق رکھتے ہوں؛ بلکہ دنیا کا یہ نظام مختلف پیشوں اور مختلف کاموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور ان کے باہمی تعاون سے چل رہا ہے اور یہ مختلف پیشوں میں بٹ جانا اور ہرایک کا الگ الگ کام کاج میں لگ جانا بہت ضروری تھا؛ تاکہ دنیا کا یہ نظام چل سکے اور سب کی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں؛ چنانچہ دنیا میں بادشاہ اور حکام بھی ہیں اور مطیع وفرماں برداررعایا بھی،قاضی اور جج بھی ہیں مجرم وسزاوار بھی فوجوں کے سپہ سالار بھی ہیں اور ان کے ماتحت عام فوجی بھی غریب بھی ہیں اور دولت مند بھی،رات کے عابد، زاہد بھی ہیں اوردن کے سپاہی ومجاہد بھی،اہل وعیال بھی ہیں اور دوست واحباب بھی،تاجر اور سودا گر بھی ہیں اور امام وپیشوا بھی تو اِن تمام مختلف قسم کی مصروفیات رکھنے والے لوگوں کواپنی اپنی زندگی کے لیے عملی مجسمہ اور نمونہ کی ضرورت تھی،تواِس اعتبار سے اور دوسرے انسانی زندگی مختلف اوقات میں مختلف کیفیات سے دوچار ہوتی ہے؛کبھی راضی ہیں توکبھی ناراض، کبھی خوش ہیں توکبھی غم زدہ، کبھی مصائب سے دوچار ہیں کبھی نعمتوں سے مالا مال،کبھی ناکام ہوتے ہیں کبھی کامیاب توان سب حالتوں میں بھی ہم کوعملی سیرت کی ضرورت تھی؛مگر وہ کہاں مل سکتی ہے ؟وہ صرف اور صرف محمدرسول اللہؐ کی عملی زندگی میں مل سکتی ہے۔ ایک ایسی شخصی زندگی جو ہر انسانی جماعت کے لیے کافی ہو اور انسان کے مختلف احوال وکیفیات کے اعتبارسے ہر قسم کے صحیح جذبات اورکامل اخلاق کا نمونہ ومجموعہ ہوتووہ صرف محمدرسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ ہی میں نظر آئیگا؛اگر تم دولت مند ہو تو مکہ کے تاجرکی تقلید کرو؛اگر غریب ہوتوشعب ابی طالب کے قیدی اور مدینہ کے مہمان کی کیفیت سنو؛اگر بادشاہ ہو تو سلطان عرب کا حال پڑھو؛اگر رعایا ہوتو قریش کے محکوم کو ایک نظر دیکھو؛ اگر فاتح ہوتو بدر وحنین کے سپہ سالار پر نگاہ دوڑاؤ؛اگر تم نے شکست کھائی ہے تومعرکۂ احد سے عبرت حاصل کرو؛ اگر استاد ومعلم ہوتو صفہ کی درسگاہ کے معلم اور ناصح کو دیکھو؛ اگر شاگرد ہو تو روح الامین کے سامنے بیٹھنے والے پر نظر جماؤ؛اگر واعظ اور ناصح ہو تو مسجد مدینہ کے منبر پر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو؛ اگر تنہائی وبےکسی کے عالم میں حق کے منادی کا فرض انجام دینا چاہتے ہو تو مکہ کے بے یار ومددگار نبی علیہ السلام کا اسوہ حسنہ تمہارے سامنے ہو؛ اگر تم حق کی نصرت کے بعد اپنے دشمنوں کو زیر اورمخالفوں کوکمزوربناچکے ہوتوفاتح مکہ کا نظارہ کرو؛اگر اپنے کاروبار اور دنیاوی جدوجہد کا نظم ونسق درست کرنا چاہتے ہو تو بنی نضیر،خیبر وفدک کی زمینوں کے مالک کے کاروبار اور نظم ونسق کو دیکھو؛ اگر یتیم ہو تو عبداللہ وآمنہ کے جگر گوشہ کو نہ بھولو؛اگر بچہ ہو تو حلیمہ سعدیہ کے لاڈلے بچے کو دیکھو؛ اگر تم جوان ہو تومکہ کےایک چرواہے کی سیرت پڑھو؛اگر سفری کاروبار میں ہوتو بصرٰی کے کاروان ِسالار کی مثالیں ڈھونڈو؛اگر عدالت کے قاضی اور پنچایتوں کے ثالث ہو تو کعبہ میں نور آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کودیکھو جو حجر اسود کو کعبہ کے ایک گوشے میں کھڑا کررہا ہے اورمدینہ کی کچی مسجد کے صحن میں بیٹھنے والے منصف کو دیکھو جس کی نظر انصاف میں شاہ وگدا اور امیر وغریب برابر تھے؛ اگر تم بیویوں کے شوہر ہو تو خدیجہؓ اور عائشہؓ کے مقدس شوہر کی حیات پاک کا مطالعہ کرو؛ اگر اولاد والے ہو تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کے باپ اور حسنؓ وحسینؓ کے نانا کا حال پوچھو؛غرض تمہاری جوبھی حیثیت ہو اور کسی حال میں بھی ہو تمہاری زندگی کے لیے نمونہ اور تمہاری سیرت کی درستی واصلاح کے لیے سامان،تمہارے ظلمت خانہ کے لیے ہدایت کا چراغ وراہنمائی کا نور محمدرسول اللہﷺ کی جامعیت کبرٰی کے خزانے میں ہر وقت وہرلحظہ مل سکتا ہے۔ بادشاہ ایسےکہ ایک پورا ملک اُن کی مٹھی میں ہو اور بے بس ایسے کے خود اپنی ذات کو بھی اپنے قبضہ میں نہ جانتےہوں؛ دولت مند ایسے کہ خزانے کے خزانے اونٹوں پر لدے ہوئے ان کی حکومت میں آرہے ہیں اور محتاج ایسے کہ مہینوں ان کے گھر چولہا نہ جلتا ہو اور کئی کئی وقت ان پر فاقے گزر جاتے ہوں،سپہ سالار ایسے کہ مٹھی بھر نہتے آدمیوں کو لے کر ہزاروں اٰلاتِ حرب سے لیس فوجوں سے کامیاب لڑائی لڑے ہوں اور صلح پسند ایسے کہ ہزاروں پر جوش جاں نثاروں کی ہمرکابی کے باوجود صلح کے کاغذ پر بے چون وچرا دستخط کردیتے ہوں،شجاع اور بہادر ایسے کہ ہزاروں کے مقابلہ میں تن تنہا کھڑے ہوں اور نرم دل ایسے کہ کبھی آپﷺ نے انسانی خون کا ایک قطرہ بھی اپنے ہاتھ سے نہ بہایا ہو،باتعلق ایسے کہ عرب کے ذرہ ذرہ کی ان کو فکر،بیوی بچوں کی ان کو فکر،غریب ومفلس مسلمانوں کی ان کو فکر،خدا کی بھولی ہوئی دنیا کے سدھارکی ان کو فکر،غرض سارے جہاں کی آپﷺ کو فکر اور بے تعلق ایسے کہ اپنے خدا کے سوا کسی اور کی یاد ان کو نہ ہو،آپﷺ نے کبھی اپنی ذات کے لیے اپنے کوبُرا کہنے والوں سے بدلہ نہیں لیا اور اپنے ذاتی دشمنوں کے حق میں دعائے خیر کی اور ان کا بھلا چاہا؛ لیکن خدا تعالی کے دشمنوں کو کبھی معاف نہیں کیا اور حق کا راستہ روکنے والوں کو ہمیشہ جہنم کی دھمکی دیتے اور عذاب الہی سے ڈراتےرہے۔ دنیا کے عام بادشاہوں کی طرح آپﷺکی زندگی عیش وآرام طلبی کی نہ تھی ؛بلکہ جب آدھا عرب آپ ﷺ کے زیرِحکومت تھا،حضرت عمرؓ حاضر دربار ہوتے ہیں اِدھر اُدھر نظر اٹھاکر آپ ﷺکے حجرۂ مبارکہ کے سامان کا جائزہ لیتے ہیں توکیا دیکھتے ہیں کہ آپﷺ ایک کھڑی چار پائی پر آرام فرمارہے ہیں، جسمِ مبارک پر چار پائی کی رسی کے نشان پڑگئے ہیں،ایک طرف مٹھی بھر جورکھے ہیں ایک کھونٹی پر خشک مشکیزہ لٹک رہا ہے،سرورِ کائنات ﷺ کے گھر کی یہ کل کائنات دیکھ کر حضرت عمرؓ رو پڑتے ہیں،سبب دریافت ہوتا ہے، توعرض کرتے ہیں یا رسول اللہﷺ اس سے بڑھ کر رونے کا اور کیا موقع ہوگا ؟قیصر وکسری باغ وبہار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور آپﷺ پیغمبر ہو کر اس حالت میں ہیں، ارشاد ہوتا ہے عمرؓ کیا تم اِس پر راضی نہیں کہ قیصر وکسریٰ دنیا کے مزے لوٹیں اور ہم آخرت کی سعادت۔ فتح مکہ سے پہلے آنحضرتﷺ کے سب سے بڑے دشمن سردارِ مکہ ابوسفیان تھے، فتحِ مکہ کے موقع پر جب وہ حضرت عباسؓ کے ساتھ کھڑے ہوکر اسلامی لشکر کا جائزہ لے رہے تھے توکیا دیکھتے ہیں کہ رنگ رنگ کی جھنڈیوں کے سایہ میں اسلام کا دربار امنڈتا آرہا ہے، قبائل عرب کی موجیں جوش مارتی ہوئی بڑھتی چلی آرہی ہیں، ابو سفیان کی آنکھیں اب بھی دھوکہ کھاتی ہیں، وہ حضرت عباسؓ سے کہتے ہیں عباس تمہارا بھتیجا تو بہت بڑا بادشاہ بن گیا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی آنکھیں کچھ اور ہی دیکھ رہی تھیں، فرمایا: ابوسفیان یہ بادشاہت نہیں، نبوت ہے۔ یہ نبوت بھی ایسی کہ جوسارے انبیاء علیہم السلام کی نبوت وکارہائے نبوت کواپنے اندر بڑے خوش اسلوبی کے ساتھ سمیٹی ہوئی ہے؛ اگرہم مشہور وجلیل القدر انبیاء علیہم السلام کی زندگیوں کا انفرادی طور پر طائرانہ جائزہ لیں تواندازہ ہوگا کہ اُن کی کارِ نبوت کاپورا زور کدھر تھا اورہمارے آقاﷺ کا کدھر کدھر، مثلاً حضرت نوحؑ کی زندگی کفر کے خلاف غیظ وغضب کا ولولہ پیش کرتی ہے، حضرت ابراہیمؑ کی حیات بت شکنیوں کا منظر دکھاتی ہے، حضرت موسیؑ کی زندگی کفار سے جنگ وجہاد کی مثال پیش کرتی ہے،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی خاکساری،تواضع،عفو ودرگزر اور قناعت کی تعلیم دیتی ہے،حضرت سلیمانؑ کی زندگی شاہانہ الوالعزمی کی جلوہ گاہ ہے، حضرت ایوب علیہ السلام کی حیات صبر وشکر کا نمونہ ہے،حضرت یونسؑ کی سیرت ندامت اور انابت اور اعتراف کی مثال ہے، حضرت یوسف ؑ کی زندگی قید وبند میں بھی دعوت حق اور جوش تبلیغ کا درس دیتی ہے، حضرت داؤدعلیہ السلام کی سیرت گریہ وبکا حمد وستائش اور دعا وزاری کا نمونہ پیش کرتی ہے، حضرت یعقوبؑ کی زندگی امید،خدا پر توکل اور اعتماد کی مثال ہے؛ لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت مقدسہ میں نوحؑ، ابراھیمؑ، موسیؑ، عیسیؑ، سلیمانؑ، داؤدؑ، ایوبؑ، یونسؑ، یوسفؑ اور یعقوبؑ (علیہم السلام) سب کی زندگیاں اور سیرتیں سمٹ کر سما گئی ہیں؛اس لیے اعلان عام ہے: "قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي"۔ (ال عمران:۳۴) اگر تم کو اللہ کی محبت کا دعوی ہے،توآؤ میری پیروی کرو۔ اگر تم بادشاہ ہو تو میری پیروی کرو؛اگر تم رعایا ہو تو میری پیروی کرو؛ اگر تم سپہ سالار ہو یا سپاہی ہو تو میری پیروی کرو؛ اگرتم استاذ ومعلم ہو تو میری پیروی کرو؛اگر دولت مند ہو تو میری پیروی کرو،اگر غریب ہوتو میری پیروی کرو؛اگر بے کس ومظلوم ہوتو میری پیروی کرو؛اگر تم خدا تعالی کے عابد ہو تومیری پیروی کرو؛غرض جس نیک راہ پر بھی تم ہو اور اُس کے لیے بلند سے بلند اور عمدہ سے عمدہ نمونہ چاہتے ہوتو میری پیروی کرو۔ (۴)محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی چوتھی خصوصیت(عملیت) اسلام کے احکام اور آنحضرتﷺ کے زبانِ مبارک سے جو تعلیمات انسانوں کو پہنچائی گئی ہیں، قرآن پاک اُن کا مجموعہ ہے اوربحیثیت ایک عملی پیغمبر کے آنحضرتﷺ کی سیرتِ مبارک در حقیقت قرآن پاک کی عملی تفسیر ہے،جو حکم آپﷺ پر اتارا گیا آپﷺ نے خود اُسے کردکھایا؛ خواہ وہ ایمان، توحید،نماز،روزہ، حج، زکوۃ، صدقہ، خیرات، جہاد، ایثار، قربانی، عزم واستقلال، صبروشکر، سے تعلق رکھتا ہو یا اِن کے علاوہ حسنِ عمل وحسنِ خُلق سے غرض جس قدر بھی آپﷺپراحکامات اتارے گئے سب سے پہلے آپﷺ نے ہی اس پر عمل کرکے امت کے لیے ایک عملی مثال ونمونہ پیش فرمایا،جو کچھ قرآن میں تھا وہ سب مجسم ہوکر آپﷺ کی زندگی میں نظر آتا؛اِسی کوحضرت عائشہ صدیقہؓ نے کسی صحابیؓ کے پوچھنے پر کہ آپﷺ کی زندگی کیسی تھی تواِس پرآپ صدیقہؓ نے یہی جواب دیا تھا کہ جوکچھ قرآن میں ہے وہی عملی تصویر بنکر آنحضرتﷺ کی زندگی میں نظرآتا ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات قرآن مجید کی شکل میں اتارا ہے اُسی طرح اُس پر عمل آوری کے لیے سب سے پہلی وعمدہ مثال آنحضرتﷺ کی ذاتِ اقدس کی شکل میں مبعوث فرمایا؛ تاکہ لوگوں کوایک عملی نمونہ وآئیڈیل مل جائے؛ چنانچہ آنحضرتﷺ نے بھی اپنے عملِ معجز سے ایک ایساعملی نمونہ امت کے سامنے پیش فرمایا جو تمام انسانی زندگیوں پرایسے ہی اعجاز وفوقیت رکھتا ہے جس طرح کلام اللہ تمام انسانی کلاموں پر، جس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے: محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز میں اُسوۂ حسنہ پنج وقتہ نماز کی فرضیت کے بعدتہجد کی نمازعام مسلمانوں سے معاف ہوگئی تھی،مگر آنحضرتﷺ اس کوبھی تمام عمر ہر شب ادا فرماتے رہےاور پھر کیسی نماز کہ رات رات بھر کھڑے کے کھڑے رہ جاتے، کھڑے کھڑے پائے مبارک پر ورم آجاتا (اور پائے مبارک سوجھ جاتے) یہ دیکھ کرحضرت عائشہ صدیقہؓ عرض کرتیں: جب اللہ تعالی نے آپ کومعصوم وبخشے بخشایا بنایا تو پھر آپ اِس قدر کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں، فرماتے: اے عائشہ! کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ نماز کا سب سے سخت موقع میدانِ جنگ میں دشمن کے مقابل کے وقت ہوتا ہے اس وقت بھی آپﷺ کا اُسوہ بدر کے موقع پر جیسے ہی نماز کا وقت ہوا فوراً اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوگئے۔ مرض الموت میں شدت کا بخار تھا بہت تکلیف تھی،مگر نماز حتی کہ جماعت بھی ترک نہ فرمائی،قوت جواب دے چکی تھی خود چلکر نہ آسکتے تھے؛ مگرشوقِ نماز وشرکتِ جماعت اِتنی کہ دوصحابہؓ کے کندھوں پر سہارا لے کر مسجد تشریف لے آئے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روزہ میں اُسوۂ حسنہ عام مسلمانوں پر سال بھر میں صرف ایک مہینہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں،مگرآپﷺ کا کوئی ہفتہ اور کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہیں جاتا تھا، رمضان کا پورا مہینہ اور شعبان کے اکثر دن روزوں میں گزرتے تھے، ہر مہینے کے ایامِ بیض یعنی اسلامی مہینوں کی تیرہ، چودہ، پندرہ تاریخ کواور ہرہفتہ میں جمعرات وپیر کواکثر روزہ رکھتے تھے،محرم کے دس دن اورشوال کے چھ دن روزوں میں گزرتے تھے، اس کے علاوہ عام حالات میں بھی اگرگھر میں کچھ کھانے کونہیں ہے تب بھی روزہ رکھتے تھے۔ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مال ومتاع میں اسوۂ حسنہ امت کواپنے پاس مال وجائیداد رکھنے سے منع نہیں فرمایا؛ بلکہ حدودِ شرع میں رہتے ہوئے ان کوحاصل کرنے کا حکم فرمایااور اُس میں چند شرائط کے ساتھ زکوٰۃ کے طور پر ڈھائی فیصد غریبوں ومحتاجوں کو دینے کا حکم فرمایا؛ لیکن اپنی ذات سے یہ عمل کرردکھایا کہ آپﷺ کے نام پرکوئی زمین وجائیداد نہ تھی اور نہ آپﷺکوعمربھر میں کبھی زکوٰۃ نکالنے کی نوبت آئی، اس لیے کہ آپﷺ اپنے پاس کچھ رکھتے ہی نہ تھے، جو کچھ کہیں سے غلہ آپﷺ کے حصہ میں آتا آپﷺ سال میں ایک مرتبہ پورے سال کا غلہ ازواجِ مطہرات کے یہاں بقدرِ ضرورت بھجوادیتے، بقیہ تمام کا تمام مدینہ کے محتاجوں وضرورتمندوں میں تقسیم فرمادیتے؛ اگرآپ ﷺکے پاس دینے کے لیے کچھ نہ ہوتا توکسی سے قرض لیکر دیتے تھے؛ لیکن پوری زندگی میں آپﷺ نے کسی کے سوال کے جواب میں "نہیں" کا لفظ نہیں فرمایا؛ بلکہ مسلمانوں میں عام حکم تھا کہ جوکوئی مسلمان قرض چھوڑ کرمرجائے تواس کی اطلاع مجھکو دو میں اس کا ذمہ دار ہوں، میں اس کا قرض ادا کرونگا۔ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زہدوقناعت میں اُسوۂ حسنہ اُمت کوزہدوقناعت کی صرف تعلیم ہی نہ دی؛ بلکہ عمل کرکے بھی دکھلادیا، عرب کے گوشے گوشے سےجزیہ،خراج،عشر اور زکوۃ وصدقات کے خزانے لدے چلے آتے تھے؛مگر امیر عرب کے گھر میں وہی فقر تھا اور وہی فاقہ تھا،آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد حضرت عائشہؓ کہا کرتی تھیں کہ حضور ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے مگر دووقت بھی سیر ہوکر آپﷺ نے نہیں کھایا؛وہی بیان کرتی ہیں کہ جب آپﷺ نے وفات پائی تو گھر میں اس دن کے کھانے کے لیے تھوڑے سے جو کے سوا کچھ موجود نہ تھا اور چند سیر جو کے بدلے میں آپؐ کی زرہ ایک یہودی کے یہاں رہن تھی۔ آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ آدم علیہ السلام کی اولاد کو،اِن چند چیزوں کے سوا اور کسی چیز کا حق نہیں، رہنےکوایک جھونپڑی، تن ڈھانکنے کوایک کپڑا، پیٹ بھرنے کوروکھی سوکھی روٹی اور پانی، یہ محض آپﷺ کے خوشنما الفاظ کی بندش نہ تھی؛ بلکہ یہی آپﷺ کا طرزِ عمل اور زندگی کا عملی نمونہ تھا، آپﷺ کے رہنے کا مکان ایک حجرہ (چھوٹا ساکمرہ) تھا اتنا چھوٹا کہ ایک شخص لیٹے اوردوسرا شخص نماز پڑھے تولیٹنے والے کوپیر قریب کرلینا پڑے وہ بھی حجرہ ایساکہ جس کی کچی دیواریں اور کھجور کے پتوں اور اونٹ کے بالوں کی چھت تھی، حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ آپﷺ کا کپڑا کبھی تہہ کرکے نہیں رکھا جاتا تھا، یعنی جوبدنِ مبارک پر کپڑا ہوتا تھا اس کے سوا کوئی اور کپڑا ہوتا ہی نہ تھا کہ جس کو تہہ کرکے رکھا جائے، ایک مرتبہ ایک سائل خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میں بہت بھوکا ہوں آپﷺ نے ازواجِ مطہراتؓ کے پاس کہلا بھیجا کہ کچھ کھانے کوہوتوبھیج دیں، ہرجگہ سے یہی جواب آیا کہ گھر میں پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایک مرتبہ صحابہؓ نے آپﷺ کی خدمت میں فاقہ کشی کی شکایت کی اور پیٹ کھول کر دکھائے کہ اُن پرایک پتھر بندھا ہے، آپﷺ نے اپنے شکمِ مبارک پر سے کپڑا ہٹایا توایک کے بجائے دوپتھر بندھے ہوئے تھے (یعنی آپﷺ ان سے سخت بھوکے تھے) اکثربھوک کی وجہ سے آواز میں کمزوری ونقاہت آجاتی تھی، سنہ۹ھ میں جب اسلامی حکومت یمن سے شام تک پھیلی ہوئی تھی اُس وقت بھی آپؐ کے گھرکی مالیت جسم مبارک پر ایک تہبند، ایک کھڑی چار پائی، سرہانے ایک تکیہ جس میں کھجور کے درخت کی چھال بھری تھی، ایک طرف تھوڑے سے جو، ایک کونے میں ایک جانور کی کھال، کھونٹی پر پانی کا مشکیزہ اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایثار (اپنی ذات پردوسروں کوترجیح دینے) میں اسوۂ حسنہ اپنی چھیتی ولاڈلی بیٹی حضرت فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا دربارِ رسالت میں اپنی عسرت وتنگدستی کی وجہ سے چکی پیستے پیستے ہتھیلیاں گھس گئی تھیں اور مشک میں پانی بھربھر کرلانے سے سینہ پر نیل کے داغ پڑھ گئے تھے، جس کی وجہ سے دربارِ رسالت میں ایک خادمہ کی درخواست پیش فرماتی ہیں، اس پر آپﷺ کا جواب ملتا ہے کہ ابھی صفہ کے غریبوں کا انتظام نہیں ہواہے بدر کے یتیم تم سے پہلے درخواست پیش کرچکے ہیں، اُن سے پہلے تمہاری درخواست کیسے قبول کی جائے۔ ایک مرتبہ آپﷺ کے پاس چادر نہ تھی، ایک صحابیہؓ نے لاکر پیش فرمائی اسی وقت ایک صاحب نے کہا کہ کیسی اچھی چادر ہے! آپﷺ نے فوراً اتار کر ان کی نذر کردی۔ ایک صحابی کے گھر کوئی تقریب تھی؛ مگرکوئی کھانے کا انتظام نہ تھا اُن سے کہا کہ عائشہؓ کے پاس جاکر آٹے کی ٹوکری مانگ لاؤ وہ گئے اور جاکر لے آئے؛ حالانکہ آپﷺ کے گھر میں آٹے کے سوا رات کے کھانے کوکچھ اور نہ تھا، ایک دن صفہ کے غریبوں کولیکر حضرت عائشہؓ کے گھر تشریف لائے اور فرمایا جوکچھ کھانے کوہو لاؤ، دال کا پکا ہوا کھانا حاضر کیا گیا وہ کافی نہ ہوا، کوئی اور چیز طلب کی توسوکھے کھجور کا حریرہ پیش ہوا؛ پھرآخر میں دودھ آیا؛ یہی مہمان نوازی کی گھر میں آخری قسط تھی جوحاضرِ خدمت کردی گئی۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ پراعتماد اور توکل میں اسوۂ حسنہ آپﷺ ایک ایسی جاہل واَن پڑھ قوم میں پیدا ہوئے تھے جواپنے اعتقادات کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں کرتی تھی اور اس کی خاطر مرمٹنے کے لیےتیار ہوجاتی تھی؛ مگرآپﷺ نے اِس کی کبھی پرواہ نہ کی، عین حرم میں جاکر توحید کی آواز بلند کرتے تھے اور وہاں سب کے سامنے نماز ادا کرتے تھے، حرمِ محترم کا صحن قریش کے رئیسوں کی نشست گاہ تھا؛ لیکن آپﷺ اُن کی موجودگی میں کھڑے ہوکر رکوع، سجدہ کے ساتھ ایک اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے، جب آیت: "فَاصْدَعْ بِمَاتُؤْمَرُ"۔ (الحجر:۹۴) "ترجمہ:اے محمد! جوتم کوحکم دیا جاتا ہے اس کو علی الاعلان سنادو"۔ نازل ہوئی توآپﷺ صفا پہاڑ پر چڑھ کر تمام اہلِ مکہ کوپکارا اور توحید کی ان کودعوت دی۔ قریش نے آپ کے ساتھ کیا کیا نہ کیا؟ کس کس طرح اذیتیں نہیں پہنچائیں، جسم مبارک پر صحفِ حرم کے اندر نجاست ڈالی، گلے میں چادر ڈال کرپھانسی دینے کی کوشش کی گئی، راستہ میں کانٹے بچھائے گے؛ مگرآپﷺ کے قدم کوراہِ حق سے لغزش نہ ہونی تھی اور نہ ہوئی، ابوطالب نے جب حمایت سے ہاتھ اٹھالینے کا اشارہ کیا توآپﷺ نے بڑے جوش اور ولولہ سے فرمایا کہ چچاجان! اگرقریش میرے داہنے ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پرچاند بھی رکھ دیں تب بھی میں اِس فرض سے باز نہ آؤنگا، بلآخر آپﷺ کو اوربنی ہاشم کودوپہاڑوں کے درمیانی جگہ میں تین سال تک گویا قید رکھا گیا، آپﷺ کا اور آپﷺ کے افرادِخاندان کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا، وہاں کھانے پینے کی اشیاء لیجانے سے روکدیا گیا، بچے بھوک سے بلبلاتے تھے، جوان درخت کے پتے کھاکھاکرزندگی بسر کرتے تھے، آخر آپﷺکے قتل کی سازش ہوئی، یہ سب کچھ ہوا مگر صبرواستقلال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا، ہجرت کے وقت غارِ ثور میں پناہ لیتے ہیں، کفار آپﷺ کا پیچھا کرتے ہوئے غار کے منہ تک پہنچ جاتے ہیں بے یارومددگار محمدﷺ اور مسلح قریش کے درمیان چندگزکا فاصلہ رہ جاتا ہے، ابوبکر رضی اللہ عنہ گھبراجاتے ہیں اور کہتے ہیں یارسول اللہﷺہم توپکڑے گئے، ہم دوہی ہیں اب کیا ہوگا؛ لیکن ایک اطمینان وتسکین سے بھری آواز آتی ہے، ابوبکرؓ ہم دونہیں تین ہیں "لاَتَحْزَنْ إِنَّ الله مَعَنَا" (التوبہ:۴۰) گھبراؤ نہیں، ہمارا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت وبہادری میں اسوۂ حسنہ میدانِ جنگ میں ایسے بھی موقع آئے کہ عام مسلمانوں کے قدم اُکھڑگئے اور وہ پیچھے ہٹ گئے؛ مگراللہ کے رسول محمدﷺ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اُس کی مدد ونصرت پرپورا اعتماد وبھروسہ کرنے والے پہاڑ کی طرح اپنی جگہ پرقائم رہے، جیسا کہ میدانِ اُحد میں اکثرمسلمانوں نے قدم پیچھے ہٹالیے مگرمحمداللہ کے رسول ﷺ اپنی جگہ پر مضبوطی کے ساتھ ڈٹے رہے، پتھر وں، تیروں، تلواروں اور نیزوں سے حملے ہورہے تھے، خود کی کڑیاں سرِمبارک میں دھنس گئی تھیں، دندانِ مبارک شہید ہوچکے تھے، چہرۂ انور زخمی ہورہا تھا؛ مگر اُس وقت بھی اپنا ہاتھ لوہے کی تلوار پر نہیں رکھا؛ بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کی مدد ونصرت پر پورا اعتماد وبھروسہ تھا؛ کیونکہ آپﷺکی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھی تھی، اس لیے اپنی جانب سے کسی پر حملہ نہ کیا۔ حنین کے میدان میں ایک مرتبہ جب تیروں کی بارش برسی توتھوڑی دیر کے لیے مسلمان پیچھے ہٹ گئے؛ مگرذاتِ اقدسﷺ اپنی جگہ پرثابت قدم مضبوطی کے ساتھ قائم تھی، سامنے سے تیروں کی بارش ہورہی ہے اوراِدھر سے آپﷺ"أَنَاالنَّبِيُّ لَاكَذِبْ أَنَاابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ"(میں پیغمبر ہوں جھوٹا نہیں ہوں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں) کا نعرہ بلند فرماتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے تھے، کیا کوئی ایسا بہادر سپہ سالار محمدﷺ کے علاوہ آپ کے علم میں ہے؟ کہ جس کی بہادری اور استقلال کا یہ عالم ہوکہ فوج کتنی ہی کم ہو کتنی ہی غیرمسلح ہو وہ اس کوچھوڑ کر پیچھے ہی کیوں نہ ہٹ گئی ہو؛ مگروہ، نہ تواپنی جان کے بچانے کے لیے بھاگا ہو اور نہ اپنی حفاظت کے لیے تلوار اٹھایا ہو؛ بلکہ ہرحال میں زمینی طاقتوں سے غیرمسلح ہوکر آسمانی طاقتوں سے مسلح ہونے کی درخواست کرتا ہو اور غیبی طاقتوں سے لڑتا ہو۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا دشمنوں سے برتاؤ میں اسوۂ حسنہ آپ نے دشمنوں سے بھی پیار ومحبت کرنے اور اُن کے ساتھ اخلاق سے پیش آنے کا درس سنا ہوگا اور اپنے بزرگوں کوبھی نصیحت کرتے دیکھا ہوگا؛ لیکن اس کی عملی مثال آپ نے نہیں دیکھی ہوگی؟ آؤ ہم سرکارِ دوعالمﷺ کی سیرت میں دکھاتے ہیں "سراقہ بن جعشم" ہجرتِ مدینہ کے موقع پرانعام کے لالچ میں مسلح ہوکر آپﷺ کوقتل کرنے نکلا تھا، آپﷺ کے قریب بھی پہنچ چکا تھااور بہت کچھ کوششیں بھی کیا؛ لیکن قدرت نے اس کا ساتھ نہ دیا بالآخر ہارکر اپنے ہتھیار ڈالدئیے خط امان کی درخواست کی، اس کی درخواست دربارِ رسالت ماٰب میں قبول کرلی گئی۔ اسی طرح ابوسفیان جواسلام اور آپﷺ کی دشمنی میں کئی جنگیں لڑی اور کتنے ہی مسلمان اُن کے سبب سے شہید ہوئے، جس نے کتنی ہی مرتبہ آپﷺ کے قتل کا اقدام کیا؛ لیکن اس میں ہمیشہ ناکام ہی رہا، جب وہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت عباسؓ کی امان میں دربارِ رسالت میں اطاعت وفرمابرداری کے ساتھ داخل ہوئے، توآپﷺنے، اُن کے تمام جرائم کو، جوگوہر حرم اِس کا متقاضی تھا کہ اُس کے بدلہ میں قتل کردئے جائیں؛ لیکن آنحضرتﷺ کے عفوِ عام نے یہ کہا کہ ڈرکاموقع نہیں ہے محمدرسول اللہﷺ انتقام کے جذبہ سے بالاتر ہے، جاؤ تم کومعاف کیا جاتا ہے؛ (اور اُن کے سردارِ مکہ ہونے کی حیثیت سے یہ بھی فرمایا کہ) ہراس شخص کوبھی معاف کیا جاتا ہے جوابوسفیان کے گھر میں چلاجائے اور ابوسفیان کی بیوی "ھندہ" جواسلام دشمنی میں عورتوں کی سردار تھی احد کے موقع پر اپنی سہیلیوں کے ساتھ گاگاکر قریش کے سپاہیوں کا دل بڑھاتی تھی اور اُسی موقع پرآپﷺ کے پیارے چچا حضرت حمزہؓ کے ساتھ کیسی بے ادبی کا معاملہ کیا، آپؓ کوقتل کروایا آپؓ کی لاش کے ناک کان کاٹ کر گلے کا ہار بنائی اور آپؓ کا سینہ چیرکرکلیجہ نکال کرکچا چبایا، لڑائی کے بعد جب آپﷺ نے اپنے پیارے چچا کا یہ حال دیکھا توبڑے بیتاب ہوگئے؛ لیکن جب وہی ھندہ فتح مکہ کے موقع پر دربارِ رسالت میں نقاب پوش ہوکر آتی ہے اور اِس موقع پر بھی آپﷺ سے کچھ گستاخی کرتی ہے تب بھی آپﷺ اس سے کوئی تعارض نہیں فرماتے؛ حتی کہ یہ بھی نہیں پوچھتے کہ تم نے میرے چچا کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ جب وہ اِس معجزانہ شانِ اخلاق کودیکھتی ہے تووہ بے اختیار پکاراٹھتی ہے، اے محمد ﷺ ! آج سے پہلے تمہارے خیمہ سے زیادہ کسی خیمہ سے مجھے نفرت نہ تھی؛ لیکن آج کے بعد سے تمہارے خیمہ سے زیادہ کسی کا خیمہ مجھے محبوب نہیں ہے۔ وحشی جوحضرت حمزہؓ کے قاتل ہیں، فتحِ طائف کے بعد بھاگ کر کہیں چلے جاتے ہیں اور جب وہ مقام بھی فتح ہوجاتا ہے توکوئی دوسری جائے پناہ کی جگہ نہیں ملتی؛ لوگ کہتے ہیں وحشی تم نے ابھی محمدﷺ کونہیں پہچانا، تمہارے لیے خود محمدﷺ کے آستانہ سے بڑھ کردوسری کوئی امن کی جگہ نہیں، وحشی حاضرِ خدمت ہوتے ہیں حضورﷺ وحشی کودیکھتے ہیں آنکھیں نیچی کرلیتے ہیں پیارے چچا کی شہادت کا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے، دل غمگین اور آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں، قاتل سامنے موجود ہوتا ہے؛ پورے اختیارات کے باوجود زبانِ مبارک سے صرف یہ نکلتا ہے کہ جاؤ تم کومعاف کیا جاتا ہے، تم میری مجلس میں آئنہد سے سامنے کے بجائے پیچھے بیٹھا کرو اس لیے کہ تم کودیکھنے سے میرے پیارے چچا کی مظلومیت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ عکرمہ جو اسلام، مسلمانوں اور خود محمدرسول اللہﷺ کے سب سے بڑے دشمن یعنی ابوجہل کے بیٹے تھے جس نے آپﷺ کوسب سے زیادہ تکلیفیں پہنچائیں یہ خود بھی اسلام کے خلاف لڑائیاں لڑچکے تھے، مکہ جب فتح ہوا تواُن کواپنے اور اپنے خاندان کے تمام جرم یاد تھے وہ بھاگ کریمن چلے گئے، اُن کی بیوی مسلمان ہوچکی تھیں اور محمدرسول اللہﷺ کوپہچان چکی تھیں وہ خود یمن گئیں، عکرمہ کومحمدﷺ کی طرف سے اطمنان دلاکر مدینہ منورہ لائیں، جب آنحضرتﷺ کواُن کی آمد کی اطلاع ہوتی ہے تواُن کے استقبال کے لیے آپﷺ اِس تیزی سے اُٹھتے ہیں کہ جسمِ مبارک پرچادر تک نہیں رہتی؛ پھرجوشِ مسرت سے فرماتے ہیں: "مَرْحَباً بِالرَّاکِبِ الْمُھَاجِرِ"۔ ترجمہ:اے مہاجر سوار تمہارا آنا مبارک ہو۔ ذراغور فرمائیے یہ مبارکبادی کس کودی جارہی ہے؟ یہ خوشی ومسرت کا اظہار کس کے آنے پر ہورہا ہے؟یہ معافی نامہ کس کوعطاء ہورہا ہے؟ اُس کوکہ جس کے باپ نے آپﷺ کومکی زندگی میں سب سے زیادہ تکلیفیں پہنچائیں، جس نے آپﷺ کے جسمِ مبارک پر نجاست ڈلوائی، جس نے آپﷺ پرحالتِ نماز میں حملہ کرنا چاہا، جس نے آپﷺ کے گلے میں چادر ڈال کرآپﷺ کوپھانسی دینی چاہی، جس نے دارالندوہ میں آپﷺ کے قتل کا مشورہ دیا، جس نے بدر کی لڑائی برپا کی اور صلح کی کسی بھی قسم کی تدبیر کوطئے ہونے نہیں دیا آج اسی کی جسمانی یادگار بیٹے کی آمد پر یہ مسرت وشادمانی ہے۔ اس طرح کے بے شمار واقعات سیرت کی بڑی بڑی کتابوں میں آپ کوملیں گے کہ آپﷺ نے اپنے دشمنوں کوعداوت کاجواب کس خوش اخلاقی، رحم دلی، عفوودرگذر اور اُس کے مقام ومرتبہ کی رعایت اور دعائے خیر کے ساتھ دیا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ بڑے سے بڑا دشمن بھی آپﷺ کے سامنے اپنی ماضی کی زندگی پرشرمندگی وپشیمانی سے پانی پانی ہوجایا کرتا تھا؛ پھرآپﷺ پرایسا فداوجانثار ہوجاتا تھا کہ جس کی مثال تاریخِ انسانی میں ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ اِسی طرح آپﷺ نے اپنی کی زندگی کے تمام شعبوں میں خواہ وہ اعتقادات، عبادات ومعاملات کی رو سے ہوں یاحسنِ معاشرت واخلاقیات کی رو سے، کمالِ عبدیت وانسانیت کا اعلیٰ سے اعلیٰ اسوہ ونمونہ پیش فرمایا جس سے سیرت کی کتابیں بھری ہوئی ہیں اورآپﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا کوئی گوشہ چھپا ہوا نہیں ہے؛ بلکہ چھوٹے سے چھوٹا قول وفعل بھی محفوظ وموجود ہے، جومسلمانوں کے عمل اور دنیا کی مختلف زبانوں میں مستقل مضامین وکتابوں کی شکل وصورت میں موجود ومحفوظ ہیں، جس کے لکھنے اور واعتراف کرنے والے صرف مسلمان ہی نہیں؛ بلکہ دیگر مذہبوں کے ماننے والے مؤرخین ومضامین نگار بھی ہیں، یہ باتیں توآپﷺ کی شخصی ذات سے متعلق تھیں؛ اِسی طرح آپﷺ کی پوری تعلیمات بھی اپنی ساری امت کواِسی کا درس دیتی ہیں۔ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا خلاصہ (۱)آپﷺ کی تشریف آوری سے پہلےانسان اپنے آپ کواکثر مخلوقاتِ الہٰی سے اپنے آپ کوکم درجہ کا سمجھتا تھاوہ سخت پتھر،دہکتی آگ،زہریلے سانپ،دودھ دیتی گائے،چمکتے سورج،درخشاں تاروں،کالی راتوں، بھیانک صورتوں؛ غرض دنیا کی ہر اُس چیز کو جس سے وہ ڈرتا تھا یا جس کے نفع کا خواہشمند تھا اُس کو پوجتا تھا اور اُس کے آگے اپنا سر جھکاتا تھا، محمدرسول اللہﷺ نے آکر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اے لوگو !یہ تمام چیزیں تمہارے آقا نہیں ہیں؛ بلکہ تم اُن کے آقا ہو، وہ تمہارے لیے پیدا کی گئی ہیں تم اُن کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہو،وہ تمہارے آگے جھکتی ہیں تم کیوں اُن کے آگے جھکتے ہو، اے انسانو! تم اِس ساری کائنات میں خدا کے نائب وخلیفہ ہو۔ الغرض !انسانیت کا یہ درجہ پیغامِ محمدی کے ذریعہ اتنا بلند کیا گیاکہ اب اُس کی پیشانی سوائے ایک اللہ کے کسی کے سامنے نہیں جھک سکتی اور اُس کے ہاتھ اُس ایک کے سواکسی اور کے آگے نہیں پھیل سکتے،جس سے وہ لینا چاہے اس کو کوئی دے نہیں سکتا اور جس کو وہ دینا چاہے اُس سے کوئی لے نہیں سکتا۔ (۲)بعضوں کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان کا دوبارہ پیدا ہونا ہی اُس کے گناہ گاری کی دلیل ہے، عیسائی مذہب کا یہ عقیدہ ہے کہ ہر انسان اپنے باپ آدم کی گناہگاری کے سبب سے موروثی طور پر گنہگار ہے خواہ اس نے ذاتی طور پر کوئی گناہ نہ کیا ہو اس لیے انسانوں کو بخشش کے لیے ایک غیر انسان کی ضرورت ہے جو موروثی گناہ گار نہ ہو تاکہ وہ اپنی جان دے کر بنی نوع انسانی کے لیے کفارہ ہوجائے۔ محمدرسول اللہ ﷺ کے ذریعہ نوعِ انسانی کو یہ خوشخبری اور بشارت دی گئی کہ انسان اپنی اصل پیدائش میں پاک صاف اور بے گناہ ہے وہ خود انسان ہی ہے جو اپنے اچھے یا برے عمل سےفرشتہ یا شیطان یعنی بے گناہ یا گناہ گار بن جاتا ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے،سورۂ تین پارہ:۳۰) بخاری شریف میں یہ حدیث منقول ہے : "مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ "۔ (بخاری،باب اذا اسلم الصبی،حدیث نمبر:۱۲۷۰) کوئی بچہ ایسا نہیں جو فطرت پر پیدا نہیں ہوتا؛ لیکن ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ (۳)ظہور محمدی سے پہلے لوگ مختلف گھرانوں میں بٹے ہوئے تھے،ہر ایک نے اپنا اپنا الگ الگ خدا تصور کرلیا تھا،پیغمبروں کو ماننے والے بھی، ایک نبی کو مانتے تھے تو دوسرے نبی کا انکار کردیتے تھے،یہودی اپنی قوم وبنی اسرائیل سے باہر کسی نبی ورسول کی بعثت وظہور کوتسلیم نہیں کرتے تھے۔ لیکن محمدرسول اللہؐ کی تعلیم اس باب میں یہ ہے کہ ساری دنیا ایک اللہ کی مخلوق ہے اور اللہ تعالی کی نعمتوں کو حاصل کرنے اور اس کواستعمال کرنے میں ساری قومیں اور نسلیں برابر کی شریک ہیں،کسی کوکسی پر فوقیت وبرتری حاصل نہیں، جہاں جہاں بھی انسانوں کی آبادی تھی تواللہ نے وہاں وہاں اپنے قاصدوں ورہنماؤں کوانبیاء ورسل کی شکل وصورت میں مبعوث فرمایا، آپﷺ کی اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں کہلاتا جب تک وہ دنیا کے تمام پیغمبروں پر اور پچھلی آسمانی کتابوں پر یقین نہ رکھے، اِرشادِ باری تعالیٰ ہے: "كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ"۔ (البقرۃ:۲۸۵) سب ایمان لائے اللہ پر اور اُس کے فرشتوں پر اور اُس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اورہم اس کے رسولوں میں باہم فرق نہیں کرتے۔ (۴)تمام مذہبوں نے اللہ اور بندے کے درمیان واسطے قائم کررکھے تھے،قدیم بت خانوں میں کاہن وپجاری تھے،عیسائیوں میں بعض پوپوں کو گناہ معاف کرنے کا اختیار دیا گیا،آپﷺ نے یہ تعلیم دی کہ ہر انسان بغیر کسی واسطے کے اللہ کو پکار سکتا ہے اور اُس سے اپنے گناہ معاف کراسکتا ہے اور اپنی تمام ضروریات بغیر کسی واسطے کے سیدھے اللہ سے مانگ سکتا ہے۔ (۵)انسانوں کی تعلیم وہدایت کے لیے جو مقدس ہستیاں اس دنیا میں آئیں،ان کے متعلق قوموں میں افراط وتفریط تھا،افراط یہ تھا کہ نادانوں نے اُن کو خود اللہ یا اللہ کا مِثل یا اللہ کا روپ یا اللہ کا بیٹا ٹھہرایا،تفریط یہ تھا کہ ہر وہ شخص جو پیشن گوئی کرتا تھا اس کو نبی یا پیغمبر مانتے تھے؛ لیکن جب محمدؐ کونبی ورسول بناکر مبعوث فرمایا گیا توآپؐ نے اسلام کا تعارف کرواتے ہوئے اُن مقدس وعظیم المرتبت ہستیوں کا صحیح حیثیت سے تعارف کرواتے ہوئے یہ فرمایا کہ: انبیاء نہ اللہ ہیں، نہ اللہ کے مثل ہیں، نہ اللہ کے بیٹے ہیں اور نہ اُس کے رشتہ دار ہیں؛بلکہ انبیاء علیہم السلام انسان ہیں ؛لیکن اپنے کمالات کی حیثیت سے تمام انسانوں سے بڑکر ہیں،اُن پر اللہ کی وحی نازل ہوتی ہے،وہ بے گناہ اورمعصوم ہوتے ہیں،اُن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے حکم سے اپنی قدرت کے عجائبات دکھاتا ہے،وہ لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، اُن کی عزت وتعظیم تمام انسانیت پر فرض ہے،وہ اللہ تعالی کے خاص، سچے اور مطیع وفرمابرداربندے ہوتے ہیں۔ محمدﷺ کی یہ تعلیمات افراط وتفریط سے پاک ہیں اِس کے علاوہ دیگر تعلیمات بھی افراط وتفریط سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی جامع ومانع بھی ہیں؛ چونکہ آپﷺ آخری نبی ورسول ہیں، آپﷺ کے بعد نہ کوئی نبی آئیگا اور نہ رسول جوکوئی نبوت ورسالت کا دعویٰ کریگا، وہ جھوٹا ہوگا؛ خلاصہ یہ کہ آپﷺ کی پیاری عملی زندگی اور آپﷺ کے ارشادات وتعلیمات رہتی دنیا تک کی انسانیت کے لیے دنیوی واُخروی کامیابی کی ضامن ہے توجس طرح یہ دینِ اسلام تمام سابقہ شریعتوں کا جامع گلدستہ ہے اُسی طرح آپﷺ کی حیاتِ مبارکہ بھی تمام سابقہ انبیاء علیہم السلام کی زندگیوں کا ایک جامع حسین گلدستہ ہے، جوکوئی اِس حسین گلدستہ کے ایک ایک پھول کواپنی عملی زندگی کے گلدان میں لگائیگا تواُس کی زندگی بھی گل وگلزار ہوجائیگی اور وہ حضورِ پاکﷺ کی زندگی کا حسین گلدستہ، جوخالقِ کائنات ومالکِ دوجہاں کے منشے کے عین مطابق ہے اس لیے جوکوئی اپنی زندگی کے گلدان کوحضورِاکرمﷺ کے حسین گلدستہ کے مطابق بنائیگا تواللہ تبارک وتعالیٰ اُس کی زندگی کے گلدستہ کوگلستان (جنت) میں ڈال دیں گے آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کے گلدان میں حضورِ پاکﷺ کی زندگی کے حسین گل کھلادے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے عمل کے ایک ایک پھول کوچُن چُن کر اپنی زندگی کے گلدان میں لگانے کی توفیق وجستجو عطا فرمائے، آمین۔ سیرت کے ماخذ اور حوالہ جات (۱)قرآن مجید سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے اہم،سب سے مستند اورسب سے زیادہ صحیح حصہ وہ ہے جس کا ماخذ قرآن مجید ہے اور قرآن مجید کہ جس کی صحت کے بارے میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا وہ حضور اکرمﷺ کی زندگی کے ضروری اجزاکو چیدہ چیدہ اِس طرح بیان کرتا ہے، مثلاً:نبوت سے پہلے مکی زندگی،یتیمی،حق کی تلاش اور پھر نبوت سے سرفرازی،وحی،تبلیغ،معراج،مخالفین کی دشمنی،ہجرت اور آپﷺ کے اخلاق حسنہ۔ (۲)حدیث سیرت محمدی کا دوسرا ماخذ حدیثوں کا وہ سرمایہ ہے جس کا ایک ایک حصہ بہت ہی ناپ تول اور پرکھا ہوا ہے؛ اس میں آپﷺ کے حالات بھی ہیں اور تعلیمات بھی(حدیث کی تمام مستند کتابیں)۔ (۳)مغازی تیسرا ماخذ وہ قدیم کتابیں جن میں آپﷺ کے غزوات،جنگوں کے حالات اور اس ضمن میں دوسرے واقعات موجود ہیں،مغازی کی چند کتابیں درج ذیل ہیں: مغازی،عروہ بن زبیر (متوفی۹۴ھ) مغازی،زہری (متوفی۱۲۴ھ) مغازی،موسی بن عقبہ (متوفی۱۴۱ ھ) مغازی،ابن اسحٰق (متوفی۱۵۰ ھ) مغازی، زیاد بکائی (متوفی۱۸۲ ھ) مغازی،واقدی (متوفی۲۰۷ ھ) (۴)کتب تاریخ تاریخ کی وہ عام کتابیں ہیں،جن کا پہلا حصہ آپﷺ کی سوانح حیات پر مشتمل ہے،مثلاً: طبقات بن سعد (متوفی۲۳۰ھ) تاریخ الرسل والملوک،امام ابو جعفر طبری (متوفی۳۱۰ھ) تاریخ صغیر وکبیر،امام بخاری (متوفی۲۵۶ھ) تاریخ ابن حبان (متوفی۳۵۴ھ) تاریخ ابن ابی خثیمہ بغدادی (متوفی۹۹ھ) (۵)کتب دلائل جو آنحضرتﷺ کے معجزات پر ہیں: دلائل النبوۃ،ابن قتیبہ (متوفی۲۷۶ھ) دلائل النبوۃ،ابو اسٰق حربی (متوفی۲۵۵ھ) دلائل النبوۃ،امام بیہقی (متوفی۴۳۰ھ) دلائل النبوۃ،ابو نعیم اصفہانی (متوفی۴۳۰ھ) دلائل النبوۃ،مستغفری (متوفی۴۳۲ھ) دلائل النبوۃ،ابوالقاسم اسمٰعیل اصفہانی (متوفی۵۳۵ھ) خصائص کبریٰ،امام سیوطی (متوفی۹۱۱ھ) (۶)شمائل وہ کتابیں جو آنحضرتﷺ کے اخلاق وعادات اور معمولات پر لکھی گئی ہیں: کتاب الشمائل،امام ترمذی (متوفی۲۷۹ھ) الشفافی حقوق المصطفی،قاضی عیاض (متوفی۵۴۴ھ) نسیم الریاض،شہاب خفا جی شمائل النبی،ابوالعباس مستغفری (متوفی۴۳۲ھ) شمائل النور الساطع،ابن المقری غرناطی (متوفی۲۵۳ھ) سفرالسعادۃ،مجدالدین فیروزآبادی (متوفی۸۱۷ھ) اردو میں سیرت کے موضوع پر چند مستند کتابیں یہ ہیں سیرت النبیﷺ (علامہ شبلی نعمانیؒ،علامہ سید سلیمان ندویؒ) سیرۃ المصطفیٰﷺ (حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ) نبیٔ رحمتﷺ (حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ) رحمۃ اللعلمین (قاضی محمد سلیمان منصور پوریؒ) رسول اکرﷺ کی سیاسی زندگی (ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ) محمد رسول اللہﷺ (ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ) النبی الخاتم (مولانامناظر احسن گیلانیؒ) تاریخ اسلام (اکبر شاہ نجیب آبادیؒ) اصح السیر (عبدالروف قادری دانا پوریؒ) نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیبﷺ (مولانا اشرف علی تھانوی ؒ)