انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تاریخ سلطنت انسان کو دوسرے حیوانات کے مقابلہ میں یہ امیتاز حاصل ہے کہ دوسرے حیوانات اپنی طاقتوں میں محدود رکھے گئے ہیں اور پیدائشی طور پر اُن کے حسبِ ضرورت محدود سامان بِلا اُن کی سعی و کوشش کے دے دیا گیا ہے؛ لیکن انسانوں کو موقع دیا گیا ہے کہ جس قدر سعی و کوشش کرے گا اُسی قدر ترقی کا میدان اپنے سامنے وسیع پائے گا،اس مدعا کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ انسان ہر وقت سفر میں رہنے اور پستی سے بلندی کی طرف انتقال کرتے رہنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے،انسانوں میں جو انسان زیادہ سفر طے کرلیتا یا یوں کہئے کہ زیادہ بلندی پر پہنچ جاتا ہے وہ چونکہ اپنے سوا دوسرے ہم جنسوں کو پیچھے یا نیچے دیکھتا ہے، اس لئے اگرچہ وہ حقیقتًا کامل نہیں ہوتا لیکن نسبتاً کامل کے لئے ہمیشہ ترقی کی گنجائش باقی ہے اس لئے وہ باوجود ایک نسبتی کمال کے اپنے آپ کو ناقص ہی پاتا ہے،دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی فطرت میں عبودیت یعنی حقیقی واہب ترقیات کی فرماں برداری ودیعت کی گئی ہے۔"وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ"جو انسان سب سے اوپر سب سے آگے نظر آتا ہے وہ چونکہ ایک مجازی اورنسبتی خیال رکھتا ہے لہذا عام انسان اپنی فطرت کے تقاضے سے مجبور ہیں کہ اس کے سامنے فرماں برداری کا اظہار کریں اوریہی فلسفہ ہے، بادشاہت اورحکومت کا اوراسی سے وہ مقولہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے کہ بادشاہ مجازی خدا ہوتا ہے یہ بات فراموش نہیں ہونی چاہیے کہ بادشاہ یا فرماں روا نسبتی کامل ہے نہ حقیقی؛کیونکہ حقیقی کمال جس وجود میں پایا جائے گا وہ مطلق ہوگا نہ محدود اور محیط ہوگا نہ محاط،اورمنفرد ہوگا نہ متعدد اورباقی ہوگا نہ فانی اور واجب ہوگا نہ ممکن وغیرہ اوراُسی ذات واجب الوجود کا نام خدائے تعالیٰ ہے جو ہر ایک نقص،ہر ایک عیب اورہر ایک بُرائی سے مبرا اورتمام صفات حسنہ کاملہ سے متصف ہے اور وہی حقیقی بادشاہ، حقیقی نافذ الفرمان اورحقیقی حاکم ہے غرضکہ انسان چونکہ ہر حالت میں اپنے آپ کو ناقص دیکھنے کی فطرت رکھتا ہے اس لئے فرماں برداری اوراطاعت بھی اس کی فطرت ہوئی اوراسی فطرت کے خلاف کرنے سے حقیقی فرما نروانے اس کو روکا ہے جیسا کہ فرمایا ہے"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ"مجازی نافذ الفرمان یا بادشاہ وہی ہوسکتا ہے جو دوسروں کے مقابلہ میں کمال رکھتا ہو،پس ہر ایک صاحب کمال کا اپنے آپ سے نیچے درجے والوں کو زیرِ فرمان دیکھنے کی توقع کرنا بھی ایک فطری تقاضا ہوا،لیکن چونکہ انسان میں اپنی فطرت کے خلاف کرنے اوراپنی قوتوں کو ترقی دینے کی بجائے تنزل کرنے کی بھی استعداد ہے،اس لئے ضروری تھا کہ ایسا بھی دیکھا جائے کہ ایک انسان جو ایک وقت میں دوسروں سے بہت ناقص اورپیچھے ہوجائے یا یہ کہ وہ ناقص اورپیچھے ہونے کی حالت میں اپنی فطرت کے خلاف اُس چیز کی خواہش کرے جو کسی طرح اس کا حق نہیں ؛بلکہ ایک کامل کا ہے،یہی وجہ ہے کہ حکومتوں اوربادشاہوں کے سلسلہ میں ہمیشہ کشمکش اورتلاطم ہی نظر آتا ہے،نافذ الفرمان ہونے کی دو بڑی قسمیں ہیں،ایک روحانی دوسری جسمانی یا یوں کہئے کہ ایک نبوت اوردوسری سلطنت۔ وہ کمالات جن کا سلطنت اور مادی حکومت سے تعلق ہے اورجو حکومت وفرما نبرداری کا موجب بنتے ہوئے دیکھے گئے ہیں، ان کا تذکرہ طالوت اور داؤد علیہ السلام کی بادشاہتوں کے ذکر میں اس طرح ہے کہ"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ"یعنی ان کے نبی نے ان سے کہا کہ خدائے تعالیٰ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ بنایا ہے،بنی اسرائیل نے طالوت کی بادشاہت کا حال سُن کر اعتراض کیا تو جواب ملا کہ "إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ"یعنی خدائے تعالیٰ نے طالوت کو تمہارے اوپر بادشاہت کرنے کے لئے منتخب فرما لیا ہے اور طالوت کو علم اور جسم میں فوقیت حاصل ہے،پھر آگے داؤد علیہ السلام کی نسبت فرمایا "وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ"تاریخی مطالعہ سے جہاں تک پتہ چلتا ہے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کہ کسی قوم کی عصبیت کا مرکز بننے اور علمی وجسمانی طور پر فوقیت حاصل کرنے کا موقع ملا وہ فوراً اس قوم کا فرما نروا اورسلطان تسلیم کرلیا گیا،اب سے تین ہزار سال پیشتر تک قوت جسمانی اورپہلوانی وبہادری ہی حکومت وسلطنت حاصل کرنے کے لئے ضروری چیز سمجھی جاتی تھی،جس کے ساتھ قوتِ دماغی بھی ایک ضروری چیز تھی، اس کے بعد بتدریج نسل انسانی میں جوں جوں دوسرے صفات پیدا ہوتے گئے اُسی مناسبت سے بادشاہوں کے صفات اور بادشاہت کی شرائط میں اضافہ ہوتا گیا غرض کہ دنیا میں ہمیشہ بادشاہ کا مفہوم بہترین اورقیمتی انسان رہا ہے اورفتنہ وفساد کے ہنگامے قتل وغارت کے حوادث اُسی وقت رونما ہوئے جبکہ غیر مستحق یعنی ناقابلِ بادشاہت شخص کو تختِ حکومت پر جگہ ملی اس کلیہ میں کسی جگہ استثناء نہ پاؤ گے اوراس حقیقت کے خلاف ہرگز دوسری بات ثابت نہ کرسکو گے،ہر ایک انسان چونکہ اپنی پیدائش اورفطرت میں یکساں حقوق اوریکساں مرتبہ رکھتا ہے لہذا اکتسابی صفات اورسعی کوشش کے نتائج سے جو فضائل ہوسکتے ہیں وہی انسان کو حکومت وفرماں روائی کا مقام دلاسکتے ہیں "لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى"ہر بزرگ خاندان اپنی صفاتِ حسنہ کی وجہ سے اپنے خاندان والوں کا فرماں روا اور بادشاہ ہے،ہر گاؤں کا نمبر دار اپنے گاؤں کا فرماں روا اوربادشاہ ہے اوریہ نوع انسان کی ابتدائی زمانہ کی حکومت وسلطنت کے نمونے ہیں جو آج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اورہم اُن میں کوئی نقص اورکوئی سقم نہیں نکال سکتے ،ہاں اگر نقص اورسقم بتایا جاسکتا ہے تو اسی حالت میں جبکہ افرادِ خاندان میں سے غیر مستحق اورناقابل شخص کو بزرگ خاندان مانا گیاہو،یاگاؤں کا نمبر دار برادری کا چودھری، محلہ کا میر محلہ ،اُس گاؤں،اس برادری،اس محلہ کا بہترین شخص نہ ہو۔