انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
نماز کے لئے کب کھڑا ہونا چاہئے، کھڑے کھڑے اقامت کا انتظار کرنے والے کے حق میں کیا حکم ہے؟ مسجد دربارِ الہٰی ہے، دُنیوی بادشاہوں کے دربار باری الہٰی کے سامنے کچھ حقیقت نہیں رکھتے، خدا کے مقرب بندے مسجد میں قدم رکھنے سے گھبراتے اور کانپتے تھے؛ لیکن اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ مسجد کو بازار کی طرح سمجھتے ہیں، کھڑے کھڑے اقامت کا انتظار کرتے ہیں، باتوں میں مشغول رہتے ہیں، ثواب اور ملائکہ کی دُعاؤں کے بجائے گناہ اور بد دُعا لےکر جاتے ہیں، حدیث میں ہے کہ فرشتے لوگوں کو مسجد میں باتیں کرتے ہوئے دیکھ کرکہتے ہیں: اے خدا کے ولی! خاموش رہ؛ اگرسلسلہ کلام جاری رہتا ہے تو کہتے ہیں: اے خدا کے دشمن! خاموش ہوجا، اس کے بعد بھی سلسلہ کلام بند نہ ہو تو کہتے ہیں: تجھ پرخدا کی لعنت، خاموش ہوجا۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحْ، یعنی اقامت کے وقت کوئی شخص مسجد میں آئے تو کھڑے کھڑے اقامت یا امام کا انتظار کرنا مکروہ ہے، اگر امام محراب کے پاس ہو تو حَیَّ عَلَی الْفَلَاحْ کے وقت کھڑا ہونا مستحب ہے اور اگر امام محراب سے دور ہو اور صفوں کے پیچھے سے مصلی پر جاتا ہو تو جس صف کے قریب امام پہنچے وہ صف کھڑی ہوجائے؛ اگر امام آگے کی جانب سے داخل ہو تو اسے دیکھ کر کھڑے ہوجائیں، امام کو پیچھے چھوڑ کر کھڑے ہوجانا غلط طریقہ ہے؛ خلاصہ یہ کہ جب مسجد میں آوے تو اگر مکروہ وقت نہ ہو تو تحیۃ المسجد، تحیۃ الوضو پڑھے، سنتوں کا وقت ہو تو سنتیں پڑھ کر جماعت کے انتظار میں بیٹھا رہے اور ذکر اللہ میں مشغول رہے، جس سے نماز میں خشوع وخضوع بھی نصیب ہوگا؛ ورنہ دُنیوی خیالات میں بھٹکتا رہےگا۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۴/۹۷، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی)