انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اجارہ کےاحكام warning: preg_match() [function.preg-match]: Compilation failed: regular expression is too large at offset 34226 in E:\wamp\www\Anwar-e-Islam\ast-anwar\includes\path.inc on line 251. (۱)کسی چیز کی ایسی منفعت پر اجارہ درست نہیں جو شرعاً ناجائز وحرام ہو مثلا گانا بجانا وغیرہ۔ حوالہ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ(المائدة:۲) بند (۲)دینی کاموں پر اجرت لینا جو بحیثیت مسلمان ہونے کے انجام دیئے جاتے ہوں ایسے کام کی اصل اجرت اوراصل نفع تو اجر وثواب ہے اوراس سے غفلت اورکوتاہی کی سزا آخرت کی سزا ہے، اس لیے حقیقت میں ان کاموں سے دنیا میں کسی قسم کی اجرت نہ لینا چاہیے ورنہ یہ عبادات اوردینی کام بھی دنیوی تجارت بن جائیں گے لیکن اگر مطلقا اس کے اجرت لینے سے منع کردیا جائے اور اسے ناجائز کہا جائے تو پھر جو علماء وغیرہ ہیں وہ اپنی دینی مشغولیات چھوڑ کر ذریعۂ معاش تلاش کرکے اپنی ضروریات کی تکمیل میں لگ جائیں گے پھر جب یہ صورت حال ہوگی تو دین کا بہت بڑا خسارہ ہوجائے گا اوردینی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا،مساجد میں جماعت کی پابندی اورمؤذنین کا ملنا دشوار ہوجائے گا، اس وجہ سے اس سلسلہ میں نصوص بھی دو طرح کے ہیں بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی کاموں پر اجرت لینا درست ہے جیسا کہ حضورﷺ کا ارشاد ہے: سب سے زیادہ تم جس چیز پر اجرت لینے کے حقدار ہو وہ کتاب اللہ ہے۔ حوالہ (بخاري بَاب الشَّرْطِ فِي الرُّقْيَةِ بِقَطِيعٍ مِنْ الْغَنَمِ ۵۲۹۶) بند اور بعض سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے کاموں پر اجرت لینا جائز نہیں ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے کسی موقعہ پر فرمایا:قرآن پڑھو مگر اس کے ذریعہ نہ کھاؤ۔ حوالہ (مسند احمد زِيَادَةٌ فِي حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ۱۴۹۸۱) بند نصوص کے مختلف ہونے کی بنیاد پر فقہائے کرام کی رائے بھی اس سلسلہ میں الگ الگ تھی بعض فقہاء نے جائز قرار دیا اور بعض نے ناجائز ،حضرت امام ابو حنیفہؓ ؒ کے نزدیک تعلیم قرآن پر اجرت لینا درست نہ تھا، امام شافعیؒ اورامام مالکؒ وغیرہ جائز قرار دیتے تھے درحقیقت امام اعظمؒ کے زمانے میں علماء اورفقہاء وغیرہ کو اپنی ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے بیت المال کی جانب سے وظائف ،جاگیریں اور بڑی بڑی امداد ملا کرتی تھی بعد میں بادشاہ وامراء کی اسلامی تعلیمات سے دوری اورخدا کا خوف وغیرہ جاتا رہا تو یہ سلسلہ ختم ہوگیا پھر علماء کے لیے اپنی ضروریات زندگی کی تکمیل کے واسطے کوئی سہارا باقی نہ رہا، اس کے بعد فقہاء کرام نے ان کاموں پر اجرت کے جواز کا فتوی دینے لگے اورامامت ،اذان اورہر قسم کی دینی تعلیم کے لیے اجرت لینا ضرورۃ درست اورجائز قرار دیا گیا۔ حوالہ ولا الاستئجار على الأذان والحج وكذا الإمامة وتعليم القرآن والفقه والأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليه عندنا وعند الشافعي رحمه الله يصح في كل ما لا يتعين على الأجير لأنه استئجار على عمل علوم غير متعين عليه فيجوز ولنا قوله عليه الصلاة والسلام اقرأوا القرآن ولا تأكلوا به وفي آخر ما عهد رسول الله عليه الصلاة والسلام إلى عثمان بن أبي العاص وإن اتخذت مؤذنا فلا تأخذ على الأذان أجرا ولأن القربة متى حصلت وقعت عن العامل ولهذا تعتبر أهليته فلا يجوز له أخذ الأجر من غيره كما في الصوم والصلاة ولأن التعليم مما لا يقدر المعلم عليه إلا بمعنى من قبل المتعلم فيكون ملتزما مالا يقدر على تسليمه فلا يصح وبعض مشايخنا استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم لأنه ظهر التواني في الأمور الدينية ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن وعليه الفتوى (الهدية كتاب الإجارات ۲۴۰/۲) بند (۳)ایصال ثواب پر اجرت لینا درست نہیں، اس لیے کہ یہ نماز اور تعلیم قرآن وغیرہ کی طرح کوئی ضرورت نہیں ہے؛ لہذا اگر کوئی اس کی اجرت لےلے تو اس کا کوئی اجر و ثواب باقی نہیں رہتا، جب خود پڑھنے والا اس کے اجر وثواب کا مستحق نہیں پھر وہ دوسرے زندے یا مردے کو ثواب کیا پہنچا ئیگا۔ حوالہ عن عَبْد الرَّحْمَنِ بْن شِبْلٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اقْرَءُوا الْقُرْآنَ وَلَا تَغْلُوا فِيهِ وَلَا تَجْفُوا عَنْهُ وَلَا تَأْكُلُوا بِهِ وَلَا تَسْتَكْثِرُوا بِهِ(مسند احمد زِيَادَةٌ فِي حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ۱۴۹۸۱)وَقَالَ الْعَيْنِيُّ فِي شَرْحِ الْهِدَايَةِ : وَيُمْنَعُ الْقَارِئُ لِلدُّنْيَا ، وَالْآخِذُ وَالْمُعْطِي آثِمَانِ .فَالْحَاصِلُ أَنَّ مَا شَاعَ فِي زَمَانِنَا مِنْ قِرَاءَةِ الْأَجْزَاءِ بِالْأُجْرَةِ لَا يَجُوزُ ؛ لِأَنَّ فِيهِ الْأَمْرَ بِالْقِرَاءَةِ وَإِعْطَاءَ الثَّوَابِ لِلْآمِرِ وَالْقِرَاءَةَ لِأَجْلِ الْمَالِ ؛ فَإِذَا لَمْ يَكُنْ لِلْقَارِئِ ثَوَابٌ لِعَدَمِ النِّيَّةِ الصَّحِيحَةِ فَأَيْنَ يَصِلُ الثَّوَابُ إلَى الْمُسْتَأْجِرِ وَلَوْلَا الْأُجْرَةُ مَا قَرَأَ أَحَدٌ لِأَحَدٍ فِي هَذَا الزَّمَانِ بَلْ جَعَلُوا الْقُرْآنَ الْعَظِيمَ مَكْسَبًا وَوَسِيلَةً إلَى جَمْعِ الدُّنْيَا إنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إلَيْهِ رَاجِعُونَ(۲۹۴/۲۴) بند