انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عتبہ بن غزوانؓ نام،نسب عتبہ نام، ابوعبداللہ کنیت، غزوان بن جابر کے لختِ جگر تھے، پورا سلسلہ نسب یہ ہے: عتبہ بن غزوان بن جابر بن وہب بن نسیب بن زید بن مالک بن الحارث بن مازن بن منصور بن عکرمہ بن خصفہ بن قیس بن عیلان بن مضر،ایامِ جاہلیت میں ان کا خاندان بنی نوفل بن عبدمناف کا حلیف تھا۔ (اسد الغابہ :۳/۳۶۴) اسلام حضرت عتبہ ؓ ان بزرگوں میں ہیں جنہوں نے ابتداء ہی میں داعیِ توحید کو لبیک کہا تھا، (مستدرک حاکم جلد ۳ :۲۶۰) چنانچہ ایک دفعہ انہوں نے اثنائے تقریر میں دعویٰ کیا تھا کہ سابقین اسلام میں ان کا ساتواں نمبر ہے،(اسد الغابہ :۳/۳۶۴) لیکن صحیح یہ ہے کہ اس وقت تک صحابہ کرامؓ کا حلقہ اس سے زیادہ وسیع ہوچکا تھا۔ ہجرت کفار مکہ کی ستم آرائیوں سے تنگ آکر ملک حبش کی دوسری ہجرت میں شریک ہوئے ؛لیکن کچھ عرصہ کے بعد پھر واپس چلے آئے، آنحضرت ﷺ اس وقت تک مکہ میں موجود تھے۔ (اسد الغابہ:۳/۳۶۴) رسول اللہ ﷺ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اورکفرواسلام میں باہم فوجی چھیڑ چھاڑ کا آغاز ہواتو یہ اورحضرت مقدادؓ ایک قریشی متجسس دستہ فوج کے ہمراہ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ،عکرمہ بن ابی جہل اس کا امیر عسکر تھا، راہ میں مجاہدین اسلام کی ایک جماعت سے مڈبھیڑ ہوئی، حضرت عبیدہ بن الحارثؓ اس کے افسر تھے، یہ دونوں موقع پاکر مسلمانوں سے مل گئے، اور مدینہ پہنچ کر حضرت عبداللہ بن سلمہ عجلانیؓ کے مہمان ہوئے، یہاں حضرت عتبہؓ اور حضرت ابودجانہ انصاریؓ میں باہم مواخات ہوئی۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث : ۶۹) غزوات تیراندازی کے لحاظ سے ان کا شمار کاملین فن میں تھا، (مستدرک جلد ۳ :۳۶۰) بدر، اُحد اوران تمام معرکوں میں جن میں رسول اللہ ﷺ نے خود بنفسِ نفیس حصہ لیا، شجاعت وپامردی کے ساتھ سرگرمِ کارزارتھے۔ (اسدالغابہ جلد ۳:۳۶۴) ۱۴ھ میں خلیفہ دوم ؓ نے ان کو بندرگاہ ابلہ بیسان اوراس کے ملحقہ مقامات کی فتح پر مامور فرمایا،فرمان کے الفاظ یہ تھے: "خدا کی نوازش وبرکت پر اعتماد کرکے عرب کے انتہائی حدود اورمملکتِ عجم کے قریب ترین حصہ کی طرف اپنے ساتھیوں کو لے کر روانہ ہوجاؤ، جہاں تک ممکن ہو تقویٰ کو اپنا شعار بناؤ اورخیال رکھو کہ تم دشمن کی سرزمین میں جارہے ہو، مجھے امید ہے کہ خدا تمہاری مدد فرمائے گا۔ میں نے علا ابن الحضرمی کو لکھا ہے کہ عرفجہ بن ہرثمہ کو بھیج کر تمہاری مدد کریں وہ دشمن کے مقابلہ میں ایک نہایت سرگرم مجاہد اورصاحب تدبیر شخص ہیں تم ان کو اپنا مشیر بناؤ اور اہل عجم کو خدا کی دعوت دو، جو قبول کرے اس کو پناہ دو جو اس سے انکار کرے وہ محکومانہ عاجزی کے ساتھ جزیہ دے ورنہ تلوار سے فیصلہ کرو، راہ میں جن عربی قبائل سے گذرو ان کو جہاد اوردشمن سے لڑنے پر برانگیختہ کرو، اورہرحال میں خدا سے ڈرتے رہو۔ (اسد الغابہ :۳/۳۶۴) حضرت عتبہؓ نے حسبِ فرمان اس مہم کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا، یعنی دریائے دجلہ کا تمام ساحلی علاقہ جوابلہ،ابرقباذ اورمیسان وغیرہ جیسے اہم مقامات پر مشتمل تھا،اسلام کے زیر نگیں کردیا۔ (یعقوبی :۲/۱۶۳) تعمیر بصرہ اسی سال ان کو بندرگاہ ابلہ کے قریب جہاں خلیج فارس کے ذریعہ سے ہندوستان وفارس کے جہازات لنگر کرتے تھے، ایک شہر بسانے کا حکم دیا گیا، حضرت عتبہؓ آٹھ سو آدمیوں کے ساتھ اس کف دست میدان میں تشریف لائے اور شہر کی داغ بیل ڈالی، ہر قبیلہ کے لیے ایک ایک محلہ مخصوص کردیا، (فتوح البلدان بلاذری ذکر تعمیر البصرہ) اورحضرت محجن بن الادرعؓ کو جامع مسجد کی تعمیر پر مامور فرمایا، عمارتیں اولاً گھاس پھوس سے چھائی گئی تھیں، چنانچہ جامع مسجد کی عمارت بھی بانس اورپھوس سے بنائی گئی تھی۔ (اسد الغابہ :۳/۳۶۴) ولایت حضرت عتبہ ؓ اس نئے شہر کے سب سے پہلے والی مقرر ہوئے اور چھ مہینے تک نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ فرائض منصبی انجام دیتے رہے، (طبقات ابن سعد قسم اول جز ۳:۶۹) لیکن زہد وبے نیازی نے اس سے کنارہ کش ہونے پر آمادہ کردیا، ۱۵ھ میں حضرت مجاشع بن مسعود ؓ کو جانشین بنا کر فرات کی طرف فوج کشی کاحکم دے دیا اورحضرت مغیرہ بن شعبہؓ کو امامت کی خدمت سپرد کرکے حج کے خیال سے مکہ معظمہ تشریف لائے، یہاں امیر المومنین حضرت عمرفاروق ؓ موجود تھے،ان کی خدمت میں اپنا استعفا پیش کیا، لیکن انہوں نے اس کے قبول کرنے سے انکار فرمایا اوربصرہ واپس جانے کی ہدایت کی۔ (اسد الغابہ:۳/۳۶۴) وفات حضرت عتبہؓ دل سے کنارہ کشی کے متمنی تھے، خلیفہ وقت کے حکم سے مجبورہوکر بصرہ کی طرف روانہ ہوئے، تو ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگی "خدایا مجھے بصرہ نہ پہنچا" دعاء مقبول ہوئی اتفاقاًراہ میں اونٹ سے گر کر واصلِ بحق ہوئے اور ۵۷ برس کی مفارقت کے بعد خاک کا پتلا خاک سے مل گیا۔ (ایضاً) انا للہ وانا لیہ راجعون اخلاق ان کا چمن اخلاق گل ہائے رنگا رنگ سے آراستہ ہے، تقویٰ ،زہد،جفاکشی اورخاکساری اس باغ کے سب سے خوش آیندہ پھول ہیں، فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت رسولِ خدا ﷺ کو لبیک کہا تھا جب کہ صرف چھ آدمیوں کو اس کی توفیق عطا ہوئی تھی، اورعسرت وناداری کے باعث درخت کے پتوں پر گذارہ کرنا پڑتا تھا جس سے آنتوں میں زخم پڑجاتے تھے۔ (مسند احمد بن حنبل:۴/۱۷۴) زہد وبے نیازی نے منصب امارت جیسے پرفخر اعزاز سے متنفر کردیا تھا،تکبروغرور سے قطعی نفرت تھی،فرمایا کرتے تھے میں خداسے پناہ مانگتا ہوں کہ لوگوں کی نظروں میں حقیر رہنے کے باوجود اپنے آپ کو بڑا سمجھوں (اسدالغابہ:۳/۳۶۵) انہوں نے بصرہ کی جامع مسجد میں ایک خطبہ دیاتھا یہاں اس کے چند فقرے نقل کیے جاتے ہیں، ان سے ان کے خوفِ قیامت ،زہد اورخاکساری کا اندازہ ہوگا: "صاحبو!دنیا رفتنی وگذشتنی ہے ،اس کا بڑا حصہ گذرچکا ہے اوراب صرف ریزش باقی ہے، جس طرح کسی ظرف کا پانی پھینک دینے کے بعدآخر میں کچھ دیر تک قطروں کا سلسلہ قائم رہتا ہے، ہاں تم یقیناً اس دنیا سے ایک جگہ منتقل ہونے والے ہو جس کو کبھی زوال نہیں تو پھر کیوں نہیں بہتر سے بہتر تحائف اپنے ساتھ لے جاتے ہو؟ مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ اگر پتھر کا کوئی ٹکڑا جہنم کے کنارہ سے لڑھکایا جائے تو ستر برس میں بھی وہ اس کی گہرائی کو طے نہیں کرسکتا، لیکن خدا کی قسم تم اس کو بھردو گے، کیا تم اس پر تعجب کرتے ہو؟ خدا کی قسم مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ جنت کے دروازے اس قدر وسیع ہوں گے کہ چالیس سال میں اس کی مسافت طے ہوسکتی ہے، لیکن ایک دن ایسا بھی آئے گا جب کہ ان پر سخت اژدحام ہوگا، میں جب ایمان لایا تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف چھ آدمی تھے عسرت و ناداری کی یہ حالت تھی کہ درخت کے پتوں پر گذارہ تھا، جس سے آنتوں میں زخم پڑجاتے تھے، مجھے ایک دفعہ ایک چادر مل گئی جس کو چاک کرکے میں نے اورسعد نے تہ بند بنایا لیکن ایک دن وہ بھی آیا جب ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی شہر کا امیر ہے، میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ خدا کے نزدیک حقیر ہونے کے باوجود اپنے آپ کو بڑا سمجھوں ،نبوت ختم ہوچکی ہے، انجام کار بادشاہت قائم ہو گی، اورتم عنقریب ہمارے بعد امیروں کو آزماؤ گے۔ (مسند ابن حنبل:۴/۱۷۴)