انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت رفاعہؓ بن رافع زرقی نام ونسب رفاعہ نام، ابو معاذ کنیت، سلسلۂ نسب یہ ہے رفاعہ بن رافع بن مالک بن العجلان بن عمرو بن عامر بن زریق بن عبد حارثہ بن غضب بن حشم بن خزرج ،والدہ کا نام ام مالک بنت ابی بن سلول تھا، بنو حبلی سے تھیں اورعبداللہ بن ابی راس المنافقین کی ہمشیرہ تھیں۔ اسلام حضرت رفاعہؓ کے پدر بزرگوار حضرت رافعؓ ،قبیلہ خزرج کے سب سے پہلے مسلمان تھے بیعتِ عقبہ سے دو سال پیشتر،۵،۶ آدمیوں کے ہمراہ مکہ جاکر آنحضرتﷺ سے بیعت کی تھی، ماں بھی مسلمان ہوچکی تھیں، ان کا اخیافی بھائی عبداللہ بن ابی کفر و نفاق کامرجع تھا، لیکن بہن صداقت وراستی کا سراج منیر بنی ہوئی تھیں، حضرت رفاعہؓ اسی مبارک خاندان میں پلے تھے، عقبہ ثانیہ میں اپنے باپ کے ساتھ مکہ جاکر آنحضرتﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی اور دولت ایمان سے بہرہ یاب ہوکر مدینہ واپس ہوئے۔ غزوات تمام غزوات میں شرکت کی،بدر کی شمولیت صحیح بخاری سے ثابت ہے، جمل میں حضرت عائشہؓ ،حضرت طلحہؓ اورحضرت زبیرؓ کی باہمی شرکت نے معاملہ کو نازک تر بنادیا تھا،ام الفضل بنت حارث کا مکہ سے خطہ پہنچا کہ حضرت طلحہؓ اورحضرت زبیرؓ بصرہ گئے ہیں، تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نہایت غمزدہ ہوئے اور فرمایا کہ ان سے تعجب ہے ،آنحضرتﷺ کا وصال ہوا تو ہم اہل بیت نبوت ہونے کی وجہ سے خلافت کا سب سے زیادہ اپنے کو مستحق سمجھتے تھے، ہماری قوم کے لوگوں نے دوسروں کو خلیفہ بنایا، ہم فتنہ و فساد کے خوف سے چپ ہو رہے اورصبر کیا،خدا کا شکر ہے کہ اس کا نتیجہ نہایت اچھا رہا ہے،اس کے بعد لوگوں نےحضرت عثمانؓ پر خروج کرکے ان کو قتل کیا اورمجھ سے بلا جبرو اکراہ بیعت کی ،جس میں طلحہؓ اورزبیرؓ بھی شریک تھے،ابھی ایک مہینہ نہیں گزرا کہ ان کے بصرہ لشکر لے جانے کی خبر پہنچ رہی ہے،اے خدا! تو اس فتنہ و فساد کو دیکھ۔ رفاعہ بن رافعؓ اس تقریر کو سن کر بولے یا امیر المومنین! جب رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی تو ہم اپنے مرتبہ و نصرت دین کے لحاظ سے اپنے کو خلافت کے لئے سب سے زیادہ موزوں جانتے تھے،آپ لوگوں نے رسول اللہﷺ سے اپنے قریبی تعلقات اور سبقت ایمانی اور ہجرت جیسی فضیلتیں بیان کرکے ہم سے اس حق کو منوایا ،ہم نے یہ خیال کرکے کہ حق پر عمل ہورہا ہے،کتاب و سنت قائم ہیں،آپ لوگوں کے دعویٰ کو تسلیم کرلیا اور خلافت قریش کے سپرد کردی اور ہمیں یہیں کرنا چاہیے تھا، اب آپ کی بیعت کے بعد کچھ لوگ مقابلہ میں کھڑے ہوگئے ہیں،جن سے یقیناً آپ افضل اورہماری نگاہ میں پسندیدہ تر ہیں،اب فرمائے آپ کا کیا ارشاد ہے؟ ہم لوگ صرف حکم کے منتظر ہیں۔ رفاعہ کی تقریر ختم ہوئی تو حجاج بن غریہ انصاری نے بڑھ کر کہا، یا امیر المومنین! اس کا ابھی فیصلہ کرلیجئے، میں اس راہ میں جان تک دینے کے لئے تیار ہوں، اس کے بعد انصار کو مخاطب کرکے کہا جس طرح پہلے رسول اللہ ﷺ کی مدد کرچکے ہو اب امیر المومنین کی مدد کرو، یہ اخیر اس پہلے سے بالکل مشابہ ہے اگرچہ پہلا اشرف وافضل تھا۔ حضرت علیؓ ان تقریروں کے بعد ایک لشکر لے کر عراق روانہ ہوگئے،رفاعہؓ بھی ہمرکاب ہوئے۔ ۴۱ھ یا ۴۲ھ میں وفات پائی،یہ امیر معاویہؓ کی حکومت کا ابتدائی زمانہ تھا۔ اولاد دولڑکے چھوڑے معاذ اورعبید فضل وکمال حضرت رفاعہؓ سے بہت سی حدیثیں مروی ہیں، صحیحین میں چند احادیث ہیں جن میں سے ۳ میں امام بخاری منفرد ہیں۔ حضرت رفاعہؓ نے آنحضرتﷺ کے ماسو احضرت ابوبکرؓ اور عبادہ بن صامتؓ سے بھی حدیث سنی تھی، راویوں میں یحییٰ بن خالد (برادر زادہ علی بن یحیییٰ معاذ، اور عبید (بیٹے) ہیں۔