انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت سفانہ نام ونسب سفانہ نام، حضرت عدی بن حاتم مشہور صحابی رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں، اُوپر آپ پڑھ چکے ہیں کہ جب اسلامی لشکر قبیلہ طے میں پہنچا تواس وقت حضرت عدی رضی اللہ عنہ قبیلہ سردار تھے، وہ اپنے اہل وعیال کولے کراپنی عیسائی برادری کے پاس شام چلے گئے (سیرت ابن ہشام:۲/۳۶۸) لیکن اتفاق سے سفانہ چھوٹ گئیں اور وہ مسلمانوں کے ہاتھ آگئیں، عام قیدیوں کے ساتھ وہ مدینہ لائی گئیں اور ایک خاص مقام پررکھی گئیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گذرہوا توسفانہ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے والد کا انتقال ہوچکا ہے اور ان کے علاوہ جوچھڑانے والا ہے وہ اس وقت موجود نہیں ہے، مجھ پراحسان کیجئے، خدا آپ پراحسان کریگا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: چھڑانے والا کون؟ عرض کیا عدی بن حاتم، فرمایا وہی تونہیں جس نے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرار اختیار کرلیا، دوسرے دن پھرآپ کا گذرہوا، اسیرِخاتون نے پھروہی درخواست کی اور پھروہی جواب ملا، تیسری مرتبہ انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے درخواست کی، اس مرتبہ قبول ہوگئی اور رہا کردی گئیں؛ لیکن چونکہ بڑے گھر کی عورت تھیں اس لیے ان کے رتبہ اور اعزاز کے پیشِ نظر ارشاد ہوا کہ ابھی جانے میں جلدی نہ کرو، جب تمہارے قبیلہ کا کوئی معتبر آدمی مل جائے تومجھے خبر کرو؛ چند دنوں کے بعد قبیلہ بلی اور قضاعہ کے کچھ لوگ ملے، سفانہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع دی، آپ نے ان کے شایانِ شان سواری لباس اور اخراجاتِ سفر کا انتظام کرکے بحفاظت تمام ان کوروانہ کردیا؛ یہاں سے یہ براہِ راست عدی کے پاس شام پہنچیں اور ان کوبہت ملامت کی کہ تم سے زیادہ قاطع رحم کون ہوگا؟ اپنے اہل وعیال کوتولے آئے اور مجھ کوتنہا چھوڑ دیا، عدی نے ندامت اور شرمساری کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور چند دنوں کے بعد عدی نے اُن سے پوچھا: کہ تم ہوشیار اور عاقلہ ہو، تم نے اس شخص (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کے متعلق کیا رائے قائم کی؛ انھوں نے کہا: میری یہ رائے ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہواُن سے ملو؛ اگروہ نبی ہیں تواُن سے ملنے میں سبقت کرنا شرف وسعادت ہے اور اگربادشاہ ہے توبھی یمن کا ایک باعزت فرمانروا ان کا کچھ نہیں بگاڑسکتا۔ (سیرت ابن ہشام:۲/۳۶۹،۳۷۰) اسلام اسلام کے بارے میں صاحب اصابہ لکھتے ہیں: وكانت أسلمت وحسن إسلامها۔ (الإصابة في معرفة الصحابة:۴/۶، شاملہ،موقع الوراق) ترجمہ:وہ اسلام لائیں اور حسن وخوبی سے اسے نباہا۔ وفات اور زندگی کے دوسرے حالات معلوم نہیں ہوسکے۔