انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اعمال کے مطابق عذاب آگ کہاں کہاں تک کھائے گی (حدیث)حضرت سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا "مِنْهُمْ مَنْ تَأْخُذُهُ النَّارُ إِلَى کَعْبَيْهِ وَمِنْهُمْ مَنْ تَأْخُذُهُ النَّارُ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَمِنْهُمْ مَنْ تَأْخُذُهُ النَّارُ إِلَى حُجْزَتِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ تَأْخُذُهُ النَّارُ إِلَى تَرْقُوَتِهِ". (مسلم،فی شدۃ حرنارجہنم،حدیث نمبر:۵۰۸۰) (ترجمہ)اہل دوزخ میں سے بعض کو ٹخنوں تک آگ جلائے گی اور بعض کو گھٹنوں تک اور بعض کو کمر تک اور بعض کو ہنسلی کی ہڈی تک (حدیث)حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا رَجُلٌ مُنْتَعِلٌ بِنَعْلَيْنِ مِنْ نَارٍ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ مَعَ إِجْرَاءِ الْعَذَابِ وَمِنْهُمْ مَنْ فِي النَّارِ إِلَى کَعْبَيْهِ مَعَ إِجْرَاءِ الْعَذَابِ وَمِنْهُمْ مَنْ فِي النَّارِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ مَعَ إِجْرَاءِ الْعَذَابِ وَمِنْهُمْ مَنْ فِي النَّارِ إِلَى أَرْنَبَتِهِ مَعَ إِجْرَاءِ الْعَذَابِ وَمِنْهُمْ مَنْ فِي النَّارِ إِلَى صَدْرِهِ مَعَ إِجْرَاءِ الْعَذَابِ قَدْ اغْتُمِر. (مسند امام احمد) (ترجمہ)دوزخیوں میں سب سے کم عذاب اس آدمی کو ہوگا جسے آگ کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی جن سے اس کا دماغ کھولتا ہوگا اوران کے عذاب میں پریشان حال ہوگا اوران میں سے ایک وہ بھی ہوگا جو آگ میں اپنے گھٹنوں تک غرق ہوگا اوراس کے عذاب کی شدت سے دوسروں کے حال سے بے خبر ہوگا اوران میں سے کوئی اس حال میں ہوگا کہ آگ اس کی ناک کے سرے تک ہوگی اور وہ اس کی شدت سے دوسروں کی تکالیف سے بے خبر رہےگا اور ان میں سے کسی کے سینہ تک آگ ہوگی اور وہ اس کی تکلیف سے دوسروں کے عذاب سے بے خبر ہوگا اوران میں سے کوئی ایسا بھی ہوگا جو سرسے پاؤں تک آگ میں ڈوبا ہوگا۔ کم عذاب والا دوزخی (حدیث)حضرت نعمان بن بشیرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ عَلَى أَخْمَصِ قَدَمَيْهِ جَمْرَتَانِ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ کَمَا يَغْلِي الْمِرْجَلُ وَالْقُمْقُمُ (بخاری،باب صفۃ الجنۃ والنار،حدیث نمبر:۶۰۷۷) (ترجمہ)اہل جہنم میں سب سے کم عذاب میں وہ آدمی ہوگا جس کے قدموں کے اٹھے ہوئے تلووں کے نیچے دوا نگارے ہوں گے ان سے اس کا دماغ اس طرح کھولے گا جس طرح تانبے کی گرم پانی والی ہنڈیا کھولتی ہے۔(حدیث)حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا مَنْ لَهُ نَعْلَانِ وَشِرَاکَانِ مِنْ نَارٍ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ کَمَا يَغْلِ الْمِرْجَلُ مَا يَرَى أَنَّ أَحَدًا أَشَدُّ مِنْهُ عَذَابًا وَإِنَّهُ لَأَهْوَنُهُمْ عَذَابًا. (مسلم،باب اھون اھل النار عذابا،حدیث نمبر:۳۱۴) (ترجمہ)دوزخیوں میں سب سے کم عذاب میں آگ کے دو جوتوں اور(جوتوں کے)اوپر کے دو تسموں والا ہوگا جن سے اس کا دماغ اس طرح کھولتا ہوگا جس طرح ہنڈیا کھولتی ہے، اس کے خیال میں اس سے زیادہ عذاب میں اور کوئی مبتلا نہ ہوگا حالانکہ وہ اہل جہنم میں سب سے کم عذاب میں ہوگا۔ (حدیث)حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا يَنْتَعِلُ بِنَعْلَيْنِ مِنْ نَارٍ يَغْلِي دِمَاغُهُ مِنْ حَرَارَةِ نَعْلَيْهِ (مسلم،باب اھون اھل النار عذابا،حدیث نمبر:۳۱۱) (ترجمہ)اہل دوزخ میں سب سے کم عذاب میں وہ شخص مبتلا ہوگا جس نے آگ کے دو جوتے پہنے ہوں گے جن کی گرمی سے اس کا دماغ کھولتا ہوگا۔ ابو طالب جہنم کے عذاب میں (حدیث)حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے سامنے آپ ﷺ کے چچا ابو طالب کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُجْعَلُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ النَّارِ يَبْلُغُ کَعْبَيْهِ يَغْلِي مِنْهُ دِمَاغُهُ (بخاری،باب قصۃ ابی طالب،حدیث نمبر:۳۵۹۶) (ترجمہ)شاید ان کو قیامت کے دن میری سفارش کام دے جائے اورانہیں پایاب آگ میں ڈالدیا جائے جو ان کے ٹخنوں تک پہنچے گی جن سے ان کا دماغ(ہانڈی میں پانی کی طرح) اچھلتا ہوگا۔ بخاری اور مسلم ہی میں ہے کہ حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ابو طالب کو کوئی فائدہ بھی ہوگا؟وہ تو آپ کی حفاظت کرتا تھا اورآپ کی وجہ سے ناراض بھی ہوتا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا،ہاں وہ گھٹنوں تک کی آگ میں ہے،اگر یہ بات نہ ہوتی تو وہ جہنم میں سب سے نچلے طبقہ میں ہوتےاور مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ‘‘میں نے انہیں آگ میں غوطے کھاتے ہوئے پایا تو انہیں پاؤں تک پہنچنے والی آگ کی طرف نکال دیا’’اور حضرت ابن عباسؓ کی روایت میں مسلم شریف میں یہ بھی ہے کہ نبی مکرمﷺ نے فرمایا کہ اہل جہنم میں سب سے کم عذاب ابو طالب کو ہوگاوہ دو جوتے پہنے ہوں گے جن سے ان کا دماغ کھولتا ہوگا۔ (حدیث)حضرت ابن مسعودؓ حضورﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ان اشد الناس عذابا رجل یرمی بہ فیھا فیھوی فیھا سبعین خریفا وان ادنی اھل النار عذابا رجل فی ضحضاح من النار یغلی منہ دماغہ حتی یخرج من منخرہ (بضعف الحکم بن ظہیر) (ترجمہ)لوگوں میں سب سے سخت عذاب میں وہ آدمی مبتلا ہوگا جسے جہنم میں پھینکا جائے گا تو وہ ستر سال تک اس میں گرتا رہے گا اوراہل جہنم میں سب سے ہلکے عذاب میں وہ شخص ہوگا جو ٹخنوں تک کی آگ میں ہوگا جس سے اس کا دماغ کھولتا ہوگا یہاں تک کہ اس کے نتھنوں سے نکل پڑےگا۔ (حدیث)نبی کریم ﷺ نے اہل کبائر موحد ین کا ذکر کیا تو فرمایا: ومِنْهُمْ مَنْ تَأْخُذُهُ إلى رُكْبَتَيْهِ ومِنْهُمْ مَنْ تَأْخُذُهُ إلى حُجْزَتِهِ ومِنْهُمْ مَنْ تَأْخُذُهُ إلى عُنُقِهِ علی قدر ذنوبھم واعمالھم (وھو منکر قالہ الدار قطنی وغیرہ) (ترجمہ)ان میں سے کوئی ایسا ہوگا کہ آگ نے اس کے گھٹنوں تک پکڑا ہوگا اوران میں سے کوئی ایسا ہوگا کہ آگ نے اس کی کمر تک پکڑا ہوگا اور ان میں کوئی ایسا ہوگا کہ آگ نے اس کی گردن تک پکڑا ہوگا،یہ سب گناہوں اوربد اعمالیوں کے بقدر ہوگا۔(حدیث)حضرت عبید بن عمیرؒ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: إن أدنى أهل النار عذابا لرجل عليه نعلان من نار يغلي منهما دماغه كأنه مرجل ، مسامعه جمر وا، وأضراسه جمر ، وأشفاره لهب النار ، ويخرج أحشاء جنبيه من قدميه ، وسائرهم كالحب القليل في الماء الكثير فهو يفور (خرجہ ھنادین الری فی کتاب الزھد باسناد صحیح) (ترجمہ)اہل جہنم میں سب سے کم عذاب میں وہ شخص ہوگا جس کے آگ کے دو جوتے ہوں گے جن سے اس کا دماغ کھولتا ہوگا گویا کہ وہ ہنڈیا ہے اس کے کان انگارے ہیں اوراس کی داڑھیں اوردانت(بھی)انگارے ہیں اوراس کے ہونٹ آگ کے شعلے ہیں،سینے اور پیٹ کے اندر کی تمام اشیاء پاؤں کے درمیان سے نکل پڑیں گی، یہ اہل جہنم سب کے سب بہت سارے پانی میں معمولی سے دانے کی مانند ہوں گے جب کہ وہ پانی بھی کھولتا ہو..۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمان باری تعالی"فَاطَّلَعَ فَرَآهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ"(الصافات:۵۵)کی تفسیر میں فرمایا کہ آپ ﷺ نے جہنم میں جھانک کر دیکھا پھر اپنی امت کو بھی اس میں دیکھا تو فرمایا میں نے ایک قوم کی کھوپڑیوں کو دیکھا جو جوش کے ساتھ ابل رہی تھیں۔ (ہناد بن سری کتاب الزہد) حضرت مجاہد نے فرمان باری تعالی :" سَمِعُوا لَهَا شَهِيقًا وَهِيَ تَفُورُ"(ملک:۷) کی تفسیر میں فرمایا:جہنم دوزخیوں کو اس طرح اچھا لیگی جس طرح چھوٹا سا دانہ بہت سے پانی میں اچھلتا ہے (ہناد بن سری کتاب الزھد) حضرت سفیان ثوری سے بھی اس آیت کے متعلق یہی تفسیر منقول ہے۔ (حدیث)حضرت عکرمہؒ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إن أهون أهل النار عذابا رجل يطأ جمرة يغلي منها دماغه ، قال : فقال أبو بكر الصديق : وما كان جرمه ؟ يا رسول الله ! قال : كانت له ماشية يغشى بها الزرع ويؤذيه . (مصنف عبدالرزاق،:۱۰/۸۵) (ترجمہ)اہل دوزخ میں سب سے کم عذاب میں وہ آدمی مبتلا ہوگا جو ایک انگارے کو روندتا ہوگا،تو حضرت ابوبکرصدیقؓ نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ اس (انگارے )کا جثہ کتنا ہوگا؟توآپ ﷺ نے فرمایا اس دوزخی کا ایک جانور ہوگا جس کے ساتھ وہ (کھیتی کرتے ہوئے)بیج کو چھپاتا ہوگا اور وہ(اس دوزخی کو بیج کے چھپاتے ہوئے)تکلیف دیتا ہوگا (یعنی وہ انگارہ کھیتی کے ایک بیج کی بقدر ہوگا) دنیا کا بڑا عیش پرست (حدیث) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: يُؤْتَى بِأَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْيَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَيُصْبَغُ فِي النَّارِ صَبْغَةً ثُمَّ يُقَالُ لہ يَا ابْنَ آدَمَ هَلْ رَأَيْتَ خَيْرًا قَطُّ ؟هَلْ مَرَّ بِکَ نَعِيمٌ قَطُّ ؟ فَيَقُولُ لَا وَاللَّهِ يَا رَبِّ. (مسلم) (ترجمہ)دوزخیوں میں سے ایسے آدمی کو پیش کیا جائے گا جسے دنیا میں سب سے زیادہ نعمتیں عطا کی گئی تھیں پھر اسے جہنم میں ایک غوطہ دیا جائے گا اور پوچھا جائے گا اے آدم زاد تونے کبھی خیر کیا کبھی تیرے پاس سے کسی نعمت کا گذر ہوا؟تو وہ جواب دے گا اے میرے رب اللہ کی قسم ہے میں نے کوئی بھلائی اور نعمت نہیں دیکھی۔ (فائدہ)اہل جہنم کے عذاب میں فرق ان کی بد اعمالیوں کے حساب سے ہوگا جیسا کہ سورہ انعام آیت۱۳۲ میں اللہ تعالی فرماتے ہیں ہر ایک جن وانس نیک و بد کے لئے(جزاء وسزا کے)ویسے ہی درجات ہوں گے ان کے اعمال کے سبب اورسورہ نباآیت نمبر۲۶ میں فرماتے ہیں ‘‘(ان اہل جہنم کو) پورا بدلہ ملے گا’’ پس جس آدمی نے کفر میں شدت اختیار کی زمین میں فساد برپا کیا اورکفر کی طرف دعوت دی وہ عذاب میں ایسے آدمی کی طرح نہیں ہوگا جو اس کی طرح کا نہیں ہوگا، اللہ تعالی سورہ نحل آیت ۸۸ میں فرماتے ہیں جو لوگ (خود بھی)کفرکرتے تھے(اوردوسروں کو بھی)اللہ کی راہ میں (یعنی دین)سے روکتے تھے ان کے لئے ہم ایک سزا پر(کہ کفر کے مقابلہ میں ہوگی)دوسری سزا بمقابلہ ان کے فساد کے(کہ راہ خدا سے روکتے تھے)بڑھادیں گے اورسورہ مؤمن آیت ۴۶ میں فرماتے ہیں اورجس روز قیامت قائم ہوگی(حکم ہوگا کہ)فرعون والوں کو(مع فرعون کے)نہایت سخت عذاب میں داخل کرو۔ اسی طرح جہنم میں گناہگار توحید پرستوں کے عذاب میں بھی ان کے حسب اعمال فرق ہوگا پس کبیرہ گناہوں کے مرتکبوں کی سزا صغیرہ گناہوں والے حضرات کی طرح نہیں ہوگی اوران کے بعض افراد سے ان کی دوسری نیکیوں کی بدولت یا کسی اوروجہ سے عذاب میں کمی کردی جائے گی،اسی وجہ سے ان میں بعض لوگ آگ میں فوت ہوجائیں گے(یہ ذبح موت سے پہلے کی حالت ہوگی؛کیونکہ ذبح موت کے بعد جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے پھر کسی پر موت نہیں آئے گی)جیسا کہ اس کا ذکر بعد میں آرہا ہے انشاء اللہ تعالی کیا کافروں کو عدل واحسان کا بدلہ ملے گا؟ (سوال)ایسے کفار جن کی مخلوق میں عدل اوراحسان جیسی نیکیاں ہوں گی کیا ان سے جہنم کا عذاب کم ہوگا یا نہیں؟ (جواب)اس کے متعلق بزرگوں کے دو مذہب ہیں۔ پہلا مذہب یہ ہے کہ ان کی غموں کی وجہ سے ان کے عذاب میں کمی کی جائے گی یہ مذہب ابن لہیعہ نے عطاء بن دینارؒ کے واسطہ سے حضرت سعید بن جبیرؒ سے نقل کیا ہے اور(مفسر)ابن جریر طبری وغیرہ نے بھی اس کو اختیار کیا ہے۔ (حدیث)حضرت عائشہؓ نے سوال کیا اے اللہ کے رسول !عبداللہ بن جدعان (جو حالت کفر میں فوت ہوا وہ)کہاں ہے؟تو آپ ﷺ نے فرمایا جہنم میں،تو حضرت عائشہ ؓ غمناک ہوگئیں اور ان پر غم بہت بڑھ گیا جب رسول اللہ ﷺ نے (ان کی) یہ حالت دیکھی تو پوچھا اے عائشہ تجھ پر کیا چیز گراں گذری؟تو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول !آپ پر میرے ماں باپ قرباں ہوں وہ تو کھانے کھلاتا تھا ،صلہ رحمی کرتا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا تونے جو صفت ذکر کی ہے یہ اس پر عذاب کم کردے گی۔ (مکارم الاخلاق للحراعلی بارسال) (حدیث)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مَا أَحْسَنَ مُحْسِن مِنْ مُسْلِم وَلَا کَافِر إِلَّا أَثَابَهُ اللَّه ،قُلْنَا يَا رَسُول اللَّه مَا إِثَابَة الْکَافِر ؟ قَالَ : الْمَال وَالْوَلَد وَالصِّحَّة وَأَشْبَاه ذَلِکَ . قُلْنَا وَمَا إِثَابَته فِي الْآخِرَة ؟ قَالَ : عَذَابًا دُون الْعَذَاب . ثُمَّ قَرَأَ : أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْن أَشَدّ الْعَذَاب۔ (غافر:۴۶) (فتح الباری:صفۃ الجنۃ والنار) (ترجمہ) کافر یا مسلمان نے جونیکی بھی کی اللہ عزوجل اسے دنیا میں جلدہی بدلہ دے دیتے ہیں ،ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ،اللہ کافر کو دنیا میں کیا بدلہ دیتے ہیں؟تو فرمایا اگر اس نے صلہ رحمی کی ہوگی یا صدقہ کیا ہوگا یا کوئی نیک عمل کیا ہوگا تو اللہ تعالی مال یا اولاد یا صحت یا اس کے مشابہ کوئی انعام دیدیتے ہیں،ہم نے عرض کیا آخرت میں کافر کو کیا انعام ملے گا؟ توفرمایا عذاب میں کمی کی جائے گی(لیکن کفر کی وجہ سے رہے گا ہمیشہ عذاب میں)پھر آپ ﷺ نےیہ آیت پڑھی(ترجمہ)فرعون والوں کو سخت ترین عذاب میں داخل کردو۔ ابو طالب کے عذاب میں ان کے نبی کریمﷺ کے ساتھ حسن سلوک کی وجہ سے عذاب میں تخفیف کی احادیث پہلے گذر چکی ہیں، طبرانی میں،بسند ضعیف حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت حارث بن ہشام نبی کریم ﷺ کے پاس حجۃ الوداع کے روز حاضر ہوئے اور پوچھا آپ توصلہ رحمی، حسن سلوک،یتیم پروری اور ضعیف اورمسکین کو کھانا کھلانے کی خوب ترغیب دیتےہیں ؛جبکہ یہ سب کچھ ہشام بن مغیرہ بھی کیا کرتا تھا اے رسول اللہ آپ ﷺ کا اس کے متعلق کیا گمان ہے؟فرمایا ہر وہ قبر جس کا مکین لا الہ الا اللہ کی گواہی نہ ےتو وہ جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ...بلا شبہ میں نے اپنے چچا ابو طالب کو آگ میں تیرتا ہوا پایا تو اللہ تعالی نے میری وجہ سے اوراس کے میرے ساتھ حسن سلوک کی وجہ سے جہنم کی ٹخنوں تک آنے والی آگ میں منتقل کردیا۔ (ان روایات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بعض کو ان کے دنیا میں نیک اعمال کرنے کے بدلے میں جہنم کی سزا میں کمی کی جائے گی، لیکن یہ کمی جو احادیث میں وارد ہے یہ اللہ تعالی کے فضل پر موقوف ہے،ورنہ عمومی قاعدہ یہی ہے کہ کفار خدا کی رحمت کے مستحق نہیں اوریہ اپنے اعمال بد کی سزا پاکر رہیں گے، یہی اکثر علماء اوربزرگان دین اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے) دوزخیوں کی بدبو سے دوسرے دوزخیوں کا پناہ مانگنا دوزخیوں میں سے بعض ایسے بھی ہوں گے کہ اہل جہنم ان کے عذاب سے پناہ مانگیں گے(یہ پناہ مانگنا)یا تو ان کی بدبو کی وجہ سے ہوگا یا کسی دوسری وجہ سے (حدیث) حضرت بریدہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ان ریح فروج اھل الزنا الیوذی اھل النار (ترجمہ)زنا کاروں کی شرمگاہوں کی بدبو اہل جہنم کو تکلیف میں مبتلا کردے گی۔ (حدیث)مکحول نے مرفوعا ً بیان کیا ہے کہ(آپﷺ نے فرمایا) تروح اھل النار برائحۃ فیقولون:ربنا ماوجدناریحا منذد خلنا النار انتن من ھذہ الرائحۃ فیقول:ھذا رائحۃ فروج الزناۃ (ترجمہ)اہل جہنم(ایک خاص قسم کی)بدبو سونگھیں گے تو کہیں گے اے ہمارے پروردگار جب سے ہم جہنم میں داخل ہوئے ہم نے اس سے زیادہ بدبو نہیں پائی؟تو جواب ملے گا یہ زنا کاروں کی شرمگاہوں کی بدبو ہے۔ (حدیث) شفي بن ماتع الأصبحي سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: أربعة يؤذون أهل النار على ما بهم من الأذى، يسعون ما بين الحميم والجحيم يدعون بالويل والثبور، ويقول أهل النار بعضهم لبعض: ما بال هؤلاء قد آذونا على ما بنا من الأذى؟ قال: فرجل مغلق عليه تابوت من جمر، ورجل يجر أمعاءه، ورجل يسيل فوه قيحاً ودماً، ورجل يأكل لحمه، فيقال لصاحب التابوت: ما بال الأبعد قد آذانا على ما بنا من الأذى؟ فيقول: إن الأبعد مات وفي عنقه أموال الناس، ثم يقال للذي يجر أمعاءه: ما بال الأبعد قد آذانا على ما بنى من الأذى؟ فيقول: إن الأبعد كان لا يبالي أين أصاب البول منه لا يغسله، ثم يقال للذي يسيل فوه قيحا ودما: ما بال الابعد قد آذانا على ما بنا من الأذى، فيقول: إن الأبعد كان ينظر إلى كلمة فيستلذها كما يستلذ الرفث، ثم يقال للذي كان يأكل لحمه: ما بال الأبعد قد آذانا على ما بنى من الأذى، فيقول: أن الابعد كان يأكل لحوم الناس. (حلية الأولياء:۲/۳۳۹) (ترجمہ)چار قسم کے لوگ ایسے ہوں گے جو اپنے عذاب کی وجہ سے اہل دوزخ کو بھی عذاب میں مبتلا کردیں گے،(طبقات جہنم)حجیم اورحمیم کے درمیان(اپنے جسم کے موٹے ہونے کے اعتبار سے)پھیلے ہوں گے اور ہلاکت اورموت موت پکارتے ہوں گے،تو دوزخی آپس میں ایک دوسرے کو کہیں گے یہ لوگ کتنے سخت عذاب میں ہیں انہوں نے تو ہمیں بھی مصیبت میں ڈال رکھا ہے ؛جبکہ ہم(پہلے ہی سے کوئی)کم عذاب میں نہیں ہیں؟حضورﷺ نے فرمایا(ان میں کا ایک)آدمی تو وہ گا جس پر(بہت بڑے)انگارے کا بند تابوت ہوگا اور ایک آدمی اپنی آنتوں کو گھسیٹتا ہوگا اور ایک آدمی کے منہ سے پیپ اورخون بہتا ہوگا اورایک آدمی خود اپنا ہی گوشت کھاتا ہوگا، پس تابوت والے سے پوچھا جائے گا،تم کتنے سخت عذاب میں مبتلا ہوکہ ہمیں بھی مصیبت میں ڈال رکھا ہے جبکہ ہم پہلے ہی سے عذاب میں ہیں۔ ہر طرف سے موت پکارےگی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں "وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَکَانٍ وَمَا هُوَ بِمَيِّتٍ وَمِنْ وَرَائِهِ عَذَابٌ غَلِيظٌ" (ابراھیم:۱۷) (ترجمہ)اورہر(چہار)طرف سے اس پر(سامان)موت کی آمد ہوگی اوروہ کسی طرح مرے گا نہیں(بلکہ یوں ہی سسکتا رہےگا)اور(پھر یہ بھی نہیں کہ یہی عذاب مذکور ایک حالت پر رہے ؛بلکہ)اس(شخص)کو اور(زیادہ)سخت عذاب کا سامنا(برابر)ہوا(کرے)گا(جس سے عادت پڑنے کا احتمال ہی نہیں ہوسکتا) حضرت ابراھیم (نخعی)ویاتیہ الموت الخ)کی تفسیر میں فرماتے ہیں(اس کے پاس ہر طرف سے)حتی کہ اس کے بدن کے ہر بال کے نیچے سے (موت ہی موت گھیرے ہوگی)حضرت ضحاک فرماتے ہیں حتی کہ پاؤں کے انگوٹھوں سے(بھی موت نے گھیرا ہوگا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو موت کی سختی اوردرد انگیزی کے ساتھ اس کے بدن کے ہر ہر عضو اور ہرہر بال اورناخن سے عذاب پہنچے گا اوراس حالت میں بھی وہ اپنے آپ کو(جہنم سے)نہیں نکال سکے گا تاکہ اسے راحت پہنچائے۔ ابن جریجؒ فرماتے ہیں اس کی روح گلے میں اٹکی ہوگی اس کے منہ سے نکل نہ سکے گی جس سے اسے سکون مل سکے اورنہ ہی پیٹ میں اپنی جگہ واپس لوٹ سکے گی۔ جماعت مفسرین اسی بناء پر فرمان باری تعالی :" ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى". (الاعلی:۱۳)کی تفسیر فرمائی۔ (جب کہ) امام اوزاعیؒ بلال بن سعد سے نقل کرتے ہیں کہ روز قیامت جہنم کو پکارا جائے گا کہ اے آگ ! جلا ڈال،اے آگ! تندرست کر، اے آگ چیخ وپکار سے واویلا مچا،کھاجا لیکن ہلاک نہ کرنا۔