انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت جب رمضان المبارک کی مقررہ تاریخ آئی تو برک بن عبداللہ تمیمی نے دمشق کی مسجد میں داخل ہوکر جبکہ امیر معاویہؓ نمازِ فجر کی امامت کررہے تھے تلوار کا ایک ہاتھ مارا اور یہ سمجھ کر تلوار کاہاتھ کاری لگا ہے بھاگا،لیکن گرفتار کرلیا گیا،امیر معاویہؓ زخمی تو ہوئے،مگر زخم مہلک نہ تھا،چند روز کے علاج معالجہ سے اچھا ہوگیا، برک کو ایک روایت کے مطابق اُسی وقت اور دوسری روایت کے موافق کئی برس کے بعد قید رکھ کر قتل کیا گیا،امیر معاویہؓ نے اس کے بعد مسجد میں اپنے لئے محفوظ جگہ بنوائی اور پہرہ بھی مقرر کیا، اس مقررہ تاریخ اورمقررہ وقت میں عمرو بن بکر نے مصر کی مسجد میں نماز فجر کی امامت کرتے ہوئے خارجہ بن ابی حبیبہ بن عامر کو عمروبن العاصؓ سمجھ کر تلوار کے ایک ہی وار میں قتل کردیا، اُس روز اتفاقاً عمرو بن العاصؓ بیمار ہوگئے تھے اور انہوں نے اپنی جگہ خارجہ بن حبیبہ ایک فوجی افسر کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا،عمرو بن بکرؓ نے سمجھا کہ یہی عمرو بن العاص ہیں اور ان کو قتل کیا،اُسی روز کوفہ میں عبدالرحمن بن ملجم نے نماز فجر کے وقت مسجد میں حضرت علیؓ پر حملہ کیا اور اس زخم کے صدمہ سے دو روز کے بعد ۱۷/رمضان المبارک سنہ۴۰ھ کو حضرت علیؓ شہید ہوئے، تفصیل اس حادثۂ جانکاہ کی یہ ہے کہ عبدالرحمن بن ملجم کوفہ میں آکر اپنے دوستوں سے ملا،مگر کسی نے اپنے ارادہ کو ظاہر نہ کیا، آخر خوب سوچ سمجھ کر اپنے ایک دوست شبیب بن شجرہ اشجعی پر اپنا راز ظاہر کیا اوراُس سے امداد چاہی اورکہا کہ ہم کو مقتولینِ نہروان کے عوض حضرت علیؓ کو قتل کرنا چاہئے،اول تو شبیب نے اس ارادہ سے باز رکھنا چاہا پھر کچھ متامل ہوا اور آخر کار ابن ملجم کے کام میں امدادکرنے پر آمادگی ظاہر کی،قبیلۂ تمیم کے دس آدمی جو خارجی ہوکر لشکرِ خوارج میں شامل تھے جنگ نہروان میں مقتول ہوئے تھے،ان مقتولین کے عزیزوں اور رشتہ داروں کو جو کوفہ میں رہتے تھے حضرت علی کرم اللہ سے عناد اور ملال تھا۔ ابن ملجم ان لوگوں سے اکثر ملتا اور اکثر ان کے گھروں میں جاتا آتا رہتا تھا،اُس نے ایک نہایت حسین وجمیل عورت دیکھی جس کانام قطام تھا،اس عورت کا باپ اور بھائی دونوں انہیں دس مقتولین میں شامل تھے، ابن ملجم نے قطام کے پاس شادی کا پیغام بھیجا، قطام نے کہ پہلے مہراد ا کردو تو میں نکاح کے لئے تیار ہوں،جب اس سے مہر کی مقدار دریافت کی گئی تو تو اُس نے کہا کہ تین ہزار درہم، ایک لونڈی، ایک غلام اور حضرت علیؓ کا کٹا ہوا سر میرا مہر ہے، ابن ملجم تو حضرت علیؓ کے قتل کی نیت سے آیا ہی تھا، اُس نے کہا کہ میں صرف آخری شرط کوپورا کرسکتا ہوں باقی شرائط کی بجا آوری سے اس وقت مجبور ہوں۔ قطام نے کہا کہ اگر تم آخری شرط کو پورا کردو تو میں باقی چیزوں کو خود چھوڑتی ہوں، ابن ملجم نے کہا کہ ا گر تو چاہتی ہے کہ میں حضرت علیؓ کے قتل پر قادرہو جاؤں تو اس راز کو کہیں فاش نہ کرنا، قطام نے راز کی حفاظت کا وعدہ کیا اوراپنے رشتہ داروں میں سے ایک شخص وردان نامی کو ابن ملجم کے ساتھ مقرر کیا کہ وہ ابن ملجم کی مدد کرے،آخر مقرر ہ تاریخ یعنی۱۶ /رمضان المبارک جمعہ کا دن آپہنچا اورابن ملجم،شبیب بن شجرہ،وردان تینوں پچھلی رات سے مسجد کوفہ میں آئے اور دروازہ کے قریب چھپ کر بیٹھ گئے ،حضرت علی کرم اللہ وجہہ لوگوں کو حسب عادت نماز کے لئے آوازیں دیتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے،سب سے پہلے وردان نے بڑھ کر تلوار کا وار کیا مگر اس کی تلوار دروازہ کی چوکھٹ یا دیوار پر پڑی،اورحضرت علیؓ آگے بڑھ گئے،ابن ملجم نے فوراً آگے لپک کر آپ کی پیشانی پر تلوار کا ہاتھ مارا جو بہت کاری پڑا، حضرت علیؓ نے زخم کھا کر حکم دیا کہ ان کو پکڑو، لوگ نماز کے لئے مسجد میں آچکے تھے، یہ حکم سنتے ہی دوڑ پڑے، دردان اور شبیب دونوں مسجد سے نکل کر بھاگے مگر ابن ملجم مسجد سے باہر نہ نکل سکا ،وہ مسجد ہی کے ایک گوشہ میں چھپا اورگرفتار کرلیا گیا،شبیب کو ایک شخص حضرمی نے پکڑا مگر وہ چھوٹ کربھاگ گیا اور ہاتھ نہ آیا،دردان بھاگ کر اپنے گھر کے قریب پہنچ چکا تھا کہ لوگوں نے جالیا اور وہیں قتل کردیا ،ابن ملجم گرفتار ہوکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سامنے پیش کیا گیا، آپ نے حکم دیا کہ اگر میں اس زخم سے مرجاؤں تو تم بھی اس کو قتل کردینا، اوراگر میں اچھا ہوگیا تو خود جو مناسب سمجھوں گا کروں گا،پھر آپ نے بنو عبد المطلب کو وصیت کی، میرے قتل کو مسلمانوں کی خوں ریزی کا بہانہ نہ بنانا،صرف اسی ایک شخص کو جو میرا قاتل ہے،قصاص میں قتل کردینا،پھر حضرت حسنؓ بن علیؓ اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اے حسنؓ! اگر اس زخم کے صدمہ سے میں مرجاؤں تو تم بھی اس کی تلوار سے ایسا ہی وار کرنا کہ اس کا کام تمام ہوجائے اور مُثلہ ہرگز نہ کرنا؛کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مُثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ابن ملجم کی تلوار کا زخم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی کنپٹی تک پہنچا تھا اور تلوار کی دھار دماغ تک اُتر گئی تھی،مگر آپ جمعہ کے روز زندہ رہے، ہفتہ کے روز ۱۷ رمضا المبارک کو آپ ؓ نے وفات پائی، آپ کے وفات پانے سے پیشتر جندب بن عبداللہ نے آکر عرض کیا کہ آپ ہم سے جُدا ہوجائیں یعنی وفات پاجائیں تو کیا ہم حضرت حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلیں، آپ نے فرمایا کہ میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہتا، تم جو مناسب سمجھنا،کرنا،پھر حسنینؓ کو بلا کر فرمایا کہ میں تم کو خدائے تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے اور دنیا میں مبتلا نہ ہونے کی وصیت کرتاہوں، تم کسی چیز کے حاصل نہ ہونے پر افسوس نہ کرنا،ہمیشہ حق بات کہنا،یتیموں پر رحم اوربیکسوں کی مدد کرنا،ظالم کے دشمن اورمظلوم کے مددگار رہنا، قرآن شریف پر عامل رہنا اورحکم خدا کی تعمیل میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہ ڈرنا پھر محمد بن الحنفیہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ میں تم کو بھی انہیں باتوں کی اور دونوں بھائیوں کی تعظیم مدنظررکھنے کی وصیت کرتا ہوں،ان کا حق تم پر زیادہ ہے،ان کی منشاء کے خلاف تم کو کوئی کام نہیں کرنا چاہئے،حسنینؓ کی جانب مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم کو بھی محمد بن الحنفیہ کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک اور رعایات کے ساتھ پیش آنا چاہئے،پھر عام وصیت تحریر کرانے لگے کہ وفات کا وقت قریب آگیا اور سوائے لا الہ الا اللہ کے دوسرا کلمہ زبانِ مبارک سے نہ نکلا۔