انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت مسروق ؒ آپ کا پورا نام مسروق بن الاجدع بن مالک بن امیۃ الھمدانی الکوفی ہے ،ایک مرتبہ حضرت عمر ؓنے ان سے انکا نام دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا میرا نام مسروق بن الاجدع ہے تو حضرت عمر نے فرمایا:اجدع تو شیطان کو کہتے ہیں، تم مسروق بن عبدالرحمن ہو، آپ نے کبار صحابہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عمررضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ،حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ سے روایتیں نقل کی ہیں،(تھذیب التھذیب:۱۰۰۱۰) کوفہ کے مشہور قاضی شریح پیچیدہ مسائل میں آپ سے مشورہ کرتے تھے شعبی کہتے ہیں: میں نے ان سے زیادہ علم کا حریص کسی کو نہیں دیکھا، علی بن المدینی کہتے ہیں: میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے تلامذہ میں مسروق پر کسی کو ترجیح نہیں دیتا، یہ اصحاب رسول اورابن مسعود کی شاگردی ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ اپنے زمانہ کے امام تفسیر اورکتاب اللہ کے معانی ومطالب کے جید عالم قرار پائے، مسروق خودفرماتے ہیں، ابن مسعود ؓہمیں قرآن کریم کی کوئی سورت سناتے اورپھر دن بھر اس کی تفسیربیان کرتے رہتے۔ (تاریخ تفسیر ومفسرین:۱۱۶) مسروق رحمہ اللہ تفسیر قرآن کے کس قدر حریص تھے امام شعبی کے اس قول سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے،امام شعبی فرماتے ہیں: مسروق نے ایک آیت کی تفسیر معلوم کرنے کے لیے بصرہ کا سفر کیا، وہاں پہنچنے کے بعد ان سے کہا گیا وہ شخص جو اس کی تفسیر جانتا ہے وہ شام کے سفر پر ہے تو وہیں سے انہوں نےرخت سفر باندھا اورشام پہونچے اوراس آیت کی تفسیر ان سے معلوم کی۔ (مقدمۃ تفسیر قرطبی ۲۱۱) آپ کی وفات۶۲ھ یا۶۳ ھ میں ہوئی۔ (تہذیب التھذیب:۱۰۱۱۰) تفسیری اقوال (۱)"وَلَيَالٍ عَشْرٍ"(الفجر:۲) (اورقسم ہے دس راتوں کی) کی تفسیر کرتے ہوئے مسروقؒ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ذی الحجہ کے ۱۰/ دن ہیں اور یہ سال کے ایام میں سب سے افضل ایام ہیں۔ (الدرالمنثور:۶۱۹۶) (۲)"وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ ، فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا"۔ (الانبیاء:۷۸) اور داؤد وسلیمان علیہما السلام کے قصہ کا تذکرہ کیجئے جبکہ دونوں کسی کھیت کے بارے میں فیصلہ کرنے لگے جبکہ اس کھیت میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کے وقت جاپڑیں اوراس کوچرگئیں اورہم اس فیصلہ کو جولوگوں کے درمیان ہوا تھا دیکھ رہے تھے سو ہم نے اس فیصلہ کی سمجھ سلیمان کو دے دی اور (یوں) ہم نے دونوں کوحکمت اورعلم عطا فرمایا تھا۔ حضرت مسروق اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں وہ کھیت جسے بکریاں چرگئیں تھیں وہ انگور کا باغ تھا جسے بکریوں نےبالکل چٹ کردیا ،نہ اس کا پتہ چھوڑا اورنہ ہی گچہ سب کھا گئیں تو وہ لوگ (یعنی فریقین) فیصلہ کے لیے داؤد علیہ السلام کے پاس آئے تو داؤد علیہ السلام نے فیصلہ یہ کیا کہ ان بکریوں کا کھیت والوں کو ان کے نقصان کی پابجائی میں مالک بنادیا، سلیمان علیہ السلام نے کہا یہ فیصلہ حکمت ومصلحت کے موافق نہیں؛ بلکہ میری رائے میں بکری والوں سے بکریاں لیکر انگور کے باغ والوں کو دیدیا جائے کہ وہ ان بکریوں کے دودھ سے اوردیگر نفع بخش چیزوں سے نفع اٹھاتے رہیں اوربکری والوں کو انگور کا باغ دیدیاجائے کہ وہ اس میں انگور کی کاشت کرے اور باغ کے اس سابقہ حالت میں لوٹ آنے تک محنت کرتے رہیں ،جس حالت میں بکریوں نے ان کو چرا تھا پھر بکری والوں کو ان کی بکریاں واپس کردی جائیں اورباغ والوں کو ان کا باغ واپس کردیا جائے، داؤد علیہ السلام کو یہ رائے پسند آئی اورانہوں نے اسی کے مطابق فیصلہ کردیا۔ (تفسیر ابن کثیر:۲۴۸۳) (۳)"وَإِذَاطَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا"۔ (البقرۃ:۲۳۱) اور جب تم نے عورتوں کو رجعی طلاق دیدی ہو پھر وہ اپنی عدت گزرنے کے قریب پہونچ جاویں تو (یا تو)تم ان کو قاعدے کے موافق( رجعت کرکے) نکاح میں رہنے دو یا قاعدے کے موافق ان کو رہائی دو اوران کو تکلیف پہونچانے کی غرض سے مت روکو، اس ارادہ سے ان پر ظلم کیا کرو گے اورجو شخص ایسا بر تاؤ کرے گا سو وہ اپنا ہی نقصان کرے گا اوراللہ تعالی کے احکام کولھو ولعب کی طرح (بے وقعت) مت سمجھو۔