انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اَدبِ حدیث خود حدیث کی رُو سے آنحضرتﷺ ایک دفعہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں بیٹھے کوئی حدیث بیان فرمارہے تھے کہ ایک شخص (کوئی اعرابی) آیا اور اس نے آپ کے دورانِ بیان ہی ایک سوال کردیا، آپ نے اس کی طرف توجہ نہ فرمائی اور حدیث برابر بیان فرماتے رہے، جب بات پوری کرچکے توفرمایا وہ شخص کہاں ہے جوقیامت کے بارے میں پوچھ رہا تھا.....الخ۔ (بخاری، كِتَاب الْعِلْمِ،بَاب مَنْ سُئِلَ عِلْمًا وَهُوَمُشْتَغِلٌ فِي حَدِيثِهِ فَأَتَمَّ الْحَدِيثَ ثُمَّ أَجَابَ السَّائِلَ،حدیث نمبر:۵۷، شاملہ، موقع الإسلام) آپ کے طرزِ عمل سے حدیث کے احترام کا پتہ چلا کہ حدیث جب بیان ہورہی ہوتو اور کوئی بات درمیان میں نہ لانی چاہئے؛ گووہ بات خود دین کی ہی کیوں نہ ہو۔ آنحضرتﷺ صحابہ کرامؓ میں ایک دفعہ ان کے حالات کے تفاوت سے غنیمت تقسیم فرمارہے تھے؛ ظاہر ہے کہ ہرایک کے حالات کے پیشِ نظر اس کے لیے مقدار مختلف تھی اور اسی لیے آپ نے اسے کسی اور کے سپرد نہ کیا تھا؛ بلکہ خود ہی تقسیم فرمارہے تھے کہ اچانک ذوالخویصرہ تمیمی نے کہا حضورﷺ عدل فرمائیے، برابرتقسیم کیجئے، آپﷺ نے فرمایا: "وَيْلَكَ مَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ"۔ (بخاری، كِتَاب الْأَدَبِ،بَاب مَاجَاءَ فِي قَوْلِ الرَّجُلِ وَيْلَكَ،حدیث نمبر:۵۶۹۷، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:تیری بربادی، میں عدل نہ کرونگا تواور کون کریگا؟۔ اور ایک روایت میں ہےکہ یہ بھی فرمایا: "وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً"۔ (بخاری، كِتَاب الْمَغَازِي، بَاب بَعْثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلَام وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِؓ،حدیث نمبر:۴۰۰۴، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:میں توآسمان والے کا امین ہوں، صبح وشام میرے پاس آسمانی خبریں آتی ہیں۔ یعنی آسمانی باتوں میں تومجھے امین سمجھا جاتا ہے توکیا ان دنیوی اُمور میں کوئی بات خلافِ امانت ودیانت مجھ سے ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں، ذوالخویصرہ کے اس اعتراض پر آپ ناراض ہوئے، آپ نے اس شخص کے بارے میں یہ بھی فرمایا: "إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ رَطْبًا لَايُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَايَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ"۔ (بخاری، كِتَاب الْمَغَازِي، بَاب بَعْثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلَام وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِؓ،حدیث نمبر:۴۰۰۴، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:اس کی پشت سے ایک ایسی قوم نکلے گی جوکتاب اللہ کی تلاوت میں ہروقت رہیں گے؛ لیکن تلاوت ان کے حلق سے نیچے اُتر کر (دل تک) نہ جاسکے گی، دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ آپ کی یہ پیشگوئی بالکل درست نکلی حضورؐ کی حدیث میں بے ادبی کا ارتکاب کرنے والا خوارج کا مورث اعلیٰ بنا، نبی کی بات کے سامنے یہ جسارت بالکل ناجائز تھی، نبی کی توشان یہ ہے کہ اس کے سامنے آپس میں بھی کوئی جھگڑا نہ ہونا چاہیے، جھگڑا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یاآپ کی طرف توجہ نہیں یاکسی کوآپ کی حدیث کوقبول کرنے میں تردد ہورہا ہے، سیدنا حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں: "وَلَايَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ"۔ (بخاری، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَر، بَاب هَلْ يُسْتَشْفَعُ إِلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ وَمُعَامَلَتِهِمْ،حدیث نمبر:۲۸۲۵، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:اور نبی کے پاس تنازع نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ اگرکہیں آپس میں اختلاف ہوجائے تواس کا فیصلہ نبی کی ذاتِ اقدس سے لینا چاہیے، اس اختلاف کو ہی آپ کی طرف منسوب کردینا کسی بدنصیب کی فکر ہی ہوسکتی ہے۔